لبرل لدھیانوی سے مولانا وجاہت مسعود تک


گزشتہ دِنوں ”ہم سب“ پر لدھیانوی صاحب سے غیر رسمی ملاقات کا احوال شائع ہوا۔ لبرل حلقے کے مولانا حضرات نے اُس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ کہا یہ گیا کہ ”ہم سب“ لبرل حلقوں کا نمایندہ ہے، مدیر نے ایک شدت پسند پہچان رکھنے والے کو کیوں کر ”اسپیس“ دی۔ اپنے آپ کو لبرل کہلانے والے ان دوستوں کی شکایت پر مجھے چنداں حیرت نہیں ہوئی، کہ ہر دو طرف چند شدت پسند ہیں۔ گویا تصور کر لیا گیا ہے کہ “ہم سب“ ایک مسجد ہے، اور یہاں وہی امامت کا حق رکھتا ہے، جو ہم مسلک ہے۔ اس سے پہلے مجھے شبہہ تھا، کہ ”ہم سب“ ایک این جی او ہے، اب شبہہ ہونے لگا ہے کہ یہ این جی او نہیں، صحافتی ادارہ ہے۔

ایسی صورت احوال میں وضاحت کرنا پڑتی ہے، کہ میں صحافی نہیں ہوں؛ صحیفہ منتقل کرنے کے لیے جس صداقت، جس امانت کا تقاضا ہوتا ہے، اور جس طرح کی جرات درکار ہوتی ہے، وہ کبھی میرے دائیں بائیں سے پھٹک کر نہیں گزری۔ یہ عدنان خان کاکڑ کی سازش تھی، کہ میں ”ہم سب“ کے لیے لکھنے لگا۔ میری حالت اُس سردار کی سی ہے، جو بہ ظاہر ڈوبتے کو بچانے پر شاباش کا مستحق ٹھیرایا جاتا ہے، لیکن سادگی سے استفسار کرتا ہے، اُس کو دھکا کس نے دیا؟ یا ویسی ہے جیسے پاپ سنگر کی ہوتی ہے، بس تال سے تال ملائے چلا جاتا ہے؛ وہ پھٹے (اسٹیج) پر پہلے چڑھ جاتا ہے، اور سر کی تلاش کو بعد میں نکلتا ہے۔

قبلہ و کعبہ شکیل عادل زادہ نے ارشاد کیا کہ جب وہ لکھنے لگے تو مشتاق احمد یوسفی نے نصحیت کی، اپنا قلم کسی کو اذیت پہنچانے کے لیے مت استعمال کرنا۔ اس کو میں اپنے لفظوں میں بیان کروں تو یہ مطلب نکلے گا، کہ اپے فن سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے، اپنے فن سے کسی کی تذلیل نہیں کرنا چاہیے۔ میرے گرو نصیحت نہیں کرتے، شاید عبرت پکڑنے کو مجھے یہ واقعہ سنایا ہو۔ پھر اُنھی کا یہ کہنا ہے کہ وہ کالم اس لیے نہ لکھ پائے کہ ”آگ“ بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔ کالم لکھنے سے کتھارسس ہو جاتا ہے، ادیب کا کتھارسس کسی اور راہ سے ہو جائے تو ادب کا نقصان ہوتا ہے۔ کوئی غلط فہمی نہ رہے، اس لیے یہ بھی واضح کر دوں میرے لکھنے سے ادب کا نقصان نہیں ہو رہا کہ میں ادیب بھی نہیں ہوں۔

ایک دِن کراچی پریس کلب میں وسعت اللہ خان دکھائی دیے۔ وہ انتہائی اخلاق سے ملے، اُنھیں کیا خبر تھی، میں اُن کے ”ٹھیراو“ کا پرستار تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد سوال کیا، وہ ٹِپ دے دیں، کہ قلم میں آپ کی تحریروں کا سا ٹھیراو پیدا ہو۔ وسعت اللہ خان گویا ہوئے، اِس کے لیے بہت تپسیا کرنا پڑتی ہے۔ غیر رسمی ملاقات تھی، تو یہ جاننے کا موقع نہ مل سکا، کہ وہ تپسیا کیا ہے، کیسے کی جائے۔

گزشتہ شب مولانا وجاہت مسعود سے بات ہوئی؛ مولانا اس لیے کہا، کہ لبرل ازم کے پرچارک، لدھیانوی صاحب کو شائع کرنے پر اب وجاہت مسعود کو ملا سمجھنے لگے ہیں، سو آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ اُن سے افسوس کا اظہار کیا کہ جیسے مجھ جیسے صالح مسلمان کو ملا نے بدنام کیا، ویسے ہی آپ کی طرف کے ملا ظاہر ہوگئے ہیں۔ فرمانے لگے کہ میں کسی کے خلاف کینہ نہیں رکھتا، اس لیے بھی کہ کینہ رکھوں تو پھر کینے سے نجات نہیں پاتا۔ اُن سے کئی بار پہلے بھی پوچھ چکا ہوں کہ کچھ تو بتائیے، کیا کیا جائے کہ تحریر کھارا پانی نہیں ٹھنڈا میٹھا چشمہ ہو؛ گر چہ کھارے پانی کی بھی وقعت ہے مگر آنکھ سے ٹپکے تو۔ ایک مرتبہ پھر درخواست کی کوئی نصیحت کیجیے؛ اپنا دُکھ بیان کیا کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کسی ردعمل میں قلم اٹھایا جاتا ہے۔ چوں کہ غصہ جنون میں مبتلا کرتا ہے؛ (یا یوں کہیے غصہ جنون کی عارضی حالت کا نام ہے) غصہ کم ہونے پر ایسی حالت میں لکھی تحریر پڑھ کر اپنے آپ پر غصہ آتا ہے۔ کیوں لکھا؛ یوں نہ کہتا، ووں کہ لیتا۔ اِس تحریر سے تو مایوسی جھلکتی ہے؛ اُمید افزا نہیں کہ سکتے تو نومیدی پھیلانے کو کس نے کہا؟ کیا کیا جائے کہ یہ آگ کم ہو؟

مولانا وجاہت مسعود نے کہا، آگ اچھی ہوتی ہے؛ میں نے اُن کی بات سے اتفاق کیا، لیکن میں اُس آگ کو رو رہا تھا، جو دوسروں کا گھر جلاتی ہے؛ یہ آگ بہت بری ہوتی ہے۔ آگ وہی اچھی ہے جو میل جلائے، دل پگھلائے، بدن گرمائے۔ پھر استاذی کہنے لگے، غصے کو جوتے قرار دے دینا چاہیے میں چونکا یہ کیا کہ رہے ہیں؛ یہ مطلب تو نہیں کہ لکھنے والا مسافر ہے اور غصہ پاپوش جو اُس کے پیروں کی حفاظت کرتا ہے۔ اتنے میں فرمایا، لکھنے جیسا مقدس مقام ہو وہاں جوتوں سمیت جانے پر پابندی لگا دینی چاہیے؛ ایسے ہی جیسے معبد خانوں کے احترام میں ننگے پاوں جاتے ہیں۔ بہت دیر تک اس جملے پر سر دھنتا رہا۔ جملوں پر فدا ہونے والوں‌ کو مکالمے یوں‌ بھی گھائل کرتے ہیں۔

مولانا نے ایک نصیحت یہ بھی کی کہ لکھتے ہوئے قاری کے مقام کو مد نظر رکھا جائے۔ یہ اندیشہ میرے ذہن ہی میں تھا، کہ قاری کی توقعات کے مطابق لکھا جائے، تو لکھنے والا کہاں گیا؟ ایسے میں مولانا کی آواز نے رہ نمائی کی، قاری کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے۔ اُس کے نظریات کچھ بھی ہیں، آپ اُس کو چیلنج کریں گے، تو وہ دفاعی حالت میں چلا جائے گا۔ ایسے لکھیں کہ اُس کو یہ نہ لگے اُس پر حملہ کیا گیا ہے۔ کسی کے نظریات کو چیلنج کرنے میں نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ قاری ڈھال لیے کھڑا ہے اور سب تیر زمین بوس ہو رہے ہیں۔

ان تین ناموں کا ذکر کرنے سے ایک مقصد تو حاصل ہو گیا، آپ پر میرا رعب دبدبہ قائم ہوا، کہ میں ان نام ور افراد کو جانتا ہوں؛ ان سے بات چیت کا شرف حاصل ہوا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ میں آپ کو بتاوں میں وہ راز پا گیا ہوں، کہ کیسے ایک لکھنے والا اپنی تحریر میں جادو پیدا کر سکتا ہے۔ وہ تپسیا کیا ہے، جو کرلی جائے تو کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔ وسعت اللہ خان سے سرسری ملاقات میں یہ تو نہیں معلوم ہوا کہ وہ کتنے با علم ہیں، لیکن اُن کی تحریریں دیکھیں تو چغلی کھاتی ہیں، کچھ نہ کچھ ضرور پڑھتے ہوں گے۔ شکیل عادل زادہ عجز کا بت ہیں۔ اخلاق کا یہ عالم ہے کہ ولی کہلائیں۔ گفت گو میں ویسی ہی سادگی ہے، جو نروان حاصل کرنے والوں کا شیوہ ہے۔

رہے وجاہت مسعود تو ان سے بات کر دیکھیے؛ حوالے،اشعار، تاریخیں، فرمان، اشعار کیا کیا ہے جو انھیں ازبر نہیں! وہی قلندرانہ ادا۔ یہ قلندرانہ ادا نہ ہو تو مجھ سا ”ہوں ہاں“ کرتے اپنی کم علمی کا پردہ نہ رکھ سکے۔ انھیں میری کم علمی کا احساس نہیں ہوتا ہوگا، مجھے تو ہے؛ سو اُن سے بات کرتے ہمیشہ ویسی ہی احتیاط برتتا ہوں، جیسی اُس حسینہ کے سامنے جس کو متاثر کرنے کی تمنا ہو۔ صد حیف کہ ہزار احتیاطیں ہکلاہٹ ہی کو جنم دیتی ہیں۔

ان اصحاب کا ذکر ہوا، انھی جیسے دیگر جادوگروں سے اپنے تئیں یہ سمجھا کہ قلم کی دھار کو مسیحا کا نشتر کرنے کے لیے مرض سے نفرت اور مریض سے ہم دردی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہوگا۔ مسیحا جیتنے کے لیے میدان میں نہیں اُترتا، اپنے علم کو بروئے کار لا کر علاج کرتا ہے۔ نشتر اُس کے ہاتھ میں ہے لیکن چبھونے کے لیے نہیں، ناسور کاٹنے کے لیے ہے۔ مریض درد سے کراہتے ہوئے بھی یہ یقین رکھتا ہے، کہ اُس ک بدن کاٹنے والا اُس کی شفا یابی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ مسیحا ہونے کے لیے علم الابدان سے کما حقہ واقفیت ہونے کے علاوہ، مسیحا کے دل میں چارہ گری کا درد بھی ہونا چاہیے۔ یہ سب بے پناہ علم حاصل کرنے سے آتا ہے؛ عاجزی۔ علم و عجز مخالف نقطہ نظر کو اظہار سے نہیں روکتا؛ اپنے علم سے جواب دیتا ہے۔ مسلسل سیکھتے رہنے کی جست جو ہی دراصل وہ تپسیا ہے، جو لفظوں کی دھار کو تلوار نہیں ہونے دیتی؛ جراح کا قلم بناتی ہے۔ اگر اس بات کا علَم اٹھائے ہوئے ہیں، کہ اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے، تو جو تلوار پھینک کر بات کرنے آگے بڑھا ہے، اُس کی زبان کاٹ پھینکنے کی باتیں مت کیجیے، کہ ساری تپسیا خاک میں‌ مل جائے گی۔ اس نام نہاد لبرل اور اُس شدت پسند میں کیا فرق ہے، جو کہتا ہے میری تفہیم ہی حتمی ہے، دوسرا یا تو مانے، نہیں تو معتزلہ کہلائے!

جہاں میں یہ راز پا گیا ہوں کہ علم و عجز ہی وہ جادو ہیں، جو آدمی کو انسان بناتے ہیں، پس تحریر انسانی وصف ہے؛ وہیں علم و عجز جیسے بھاری پتھر کو چوم کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ نہ ہوئی گر مری تحریر پر معنی، نہ سہی۔ بہ ہر حال یہ جاننے کا اشتیاق باقی ہے، کہ علم کی وجہ سے عجز آتا ہے، یا عاجزی علم کی راہوں پر لے جاتی ہے۔ اس اشتیاق سے بھی دست بردار ہوا جا سکتا ہے کہ اٹھانی مجھے تلوار ہی ہے؛ چرکے لگانے ہیں، زخم اٹھانے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran