اندھوں کے نگر میں اجالوں کا سوداگر


کیا ہم اس لائق ہیں کہ اس پہ بات کر سکیں یا بول سکیں کہ مشال کے ساتھ بہت برا ہوا۔ جب سے یہ حادثہ ہواہے ایک بار پھر سب بشمول میرے اپنے الفاظ، تحریر، تقریر، اور سوشل میڈیا پہ اپنی دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ کیا کوئی اس سے آگے کی طرف بھی جانے کا سوچ سکتا ہے یا پھر اپنی باتوں پہ عمل بھی کرنا چاہتا ہے یا سب  بیڈ روم سے سٹیٹس اپ ڈیٹ کر کے ہی اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔

یوں تو روز ہی ایسا کچھ ہوتا رہتا ہے کہ ہمیں کوئی نہ کوئی بری خبر ملتی ہے لیکن اگر واقعات اور حادثات کی درجہ بندی کی جائے تو تین واقعات ایسے ہوئے ہیں جو کہ پاکستان میں پشتونوں کے لیے قومی سوال اٹھانے اورتمام پشتون لیڈرشپ خوا قوم پرست ہوں، مذہبی یا کوئی اور ایک متحدہ آواز کے ساتھ ریاست سے یہ پوچھے کہ آخر کب تک ہمارے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔

پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کو درندگی کے ساتھ قتل کیا گیا جس پرایک دوست نے کہا کہ اتنی بے دردی سے قتل عام پشتونوں کے بچوں کے علاوہ کسی کا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دیکھا جائے تو وہ گھڑی قیامت سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ پوری دنیا نے اس پہ غم اور دکھ کا اظہار کیا لیکن پشتونوں کو فوجی عدالت کے لولی پوپ تھما کے کھڈے لائن لگایا گیا ۔

عمران خان صاحب نے نئی زندگی کا آغاز کیا اور پتا نہیں کس کو کیا سزا ملی لیکن علی کی ماں اور اسفند کے بابا کی آنکھوں میں اور140 شہیدوں کے والدین کے چہروں پہ ابھی تک وہ اداسی اور ہزاروں سوال ہیں جن کا کوئی جواب نہیں۔ہاں البتہ ان بچوں کے نام پہ ایک ایک سکول کر کے ریاست نے اپنے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کر دی ۔

کوئٹہ میں ایک ہی بلاسٹ میں پوری بار کونسل اور وکلا برادری کی زندگیاں ایک ہی لمحے میں ختم کر دی گئیں اور حکام نے آہوں اور سسکیوں کا جواب ہمیشہ کی طرح ایک جملے میں دیا کہ یہ سب سی پیک کی وجہ سے ’را‘ نے کیا ہے۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھی آچکی لیکن وہ بھی لگتا ہے سرد خانے میں ہی چلی گئی۔

اگر آرمی پبلک سکول کے واقعے پہ پشاور سارا نکل آتا اور سارے پشتون ان کا ساتھ دیتے اور اپنے خون کا حساب ریاست سے مانگتے تو شاید بہت سے سوالوں کے جواب مل جاتے۔ تیسرا واقعہ مشال کا ہے۔

مشال اپنے نام کی طرح روشنی پھیلانا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے مشال اندھوں کو روشنی دکھا رہا تھا اور اپنی روشنی سے سب کچھ جگمگا دینا چاہتا تھا لیکن اس کو اندازہ نہیں تھا کہ اندھوں کو اجالے کی اہمیت کا کیا پتا۔ مشال کا بے دردی کے ساتھ قتل اور اس پہ لگایا گیا الزام ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس میں مافیا نے بھرپور کردار ادا کیا۔ مافیا ہر جگہ پہ پایا جاتا ہے ۔

چونکہ مشال مافیا کے لیے گلے کی ہڈی بن چکا تھا اور سب کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا، تو مافیا نے بہت ہنر سے انتہائی آزمودہ نسخہ کو بروئے کار لاتے ہوئے مشال کو راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی جس میں مافیا فرنٹ لائنر تھی مگر ان کے ساتھ وہ سب شامل ہیں جنہوں نے اس معاشرے کو وحشی بنانے کے لیے کردار ادا کیا اور لوگوں کی مخصوص ذہن سازی کی، جن میں مرد مومن ،مرد حق کے پیروکاروں اسلام کے نام پہ تشدد کی سیاست کرنے والوں  سمیت وہ سب لوگ شامل ہیں  جن کی اپنے اعمال اور اقدار پہ غور کرنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پہ زیادہ نظر ہوتی ہے۔

مشال کے قتل میں جو بھی ملوث ہیں انہوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ پشتونوں کی یونیورسٹی کے سٹودنٹس کی حالت یہ ہے تو ان پڑھ اور جاہلوں کی حالت کیاہوگی۔ اس واقعے نے پوری انسانیت کے لیے سوال کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا ہم ان مغالطوں سے کبھی نکل بھی سکیں گے یا پھر اور جکڑے جائیں گے۔ کسی خاص مقصد کے تحت پاکستانیوں کو بالعموم اور پشتونوں کوبالخصوص مذہبی پاگل پن کی انتہا پہ لاکے کھڑا کر دیا گیا ہے جہاں پہ عوامی نیشنل پارٹی کے سیاسی ورکر سے لے کر لیڈر شپ تک کنفیوز ہیں اور ڈر اور خوف میں مبتلا ہیں اور اپنے ہی ورکر کی موت اور جنازے پہ تذبذب کا شکار رہی۔ ریاست کی غلط فیصلوں نے پشتونوں کے تشخص اور پہچان کو بگاڑ کر رکھ دیا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔پشتون ولی میں تو دنیا کے ہر مذہب اور مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے جتنا اپنے مذہب اور مسلک کا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پشتون کبھی بھی دہشت گرد یا فرقہ پرست نہیں رہا۔

اب جب کہ سب کچھ واضح ہو چکا ہے لیکن پھر بھی یار لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے کیا ۔ہم اتنے کمزور اور لاچار ہیں کہ کوئی بھی اٹھ کے ہمارے ارادوں کے ساتھ کھیلے گا اور اپنے جھوٹ کو ہمارے سچ پہ نہ صرف فوقیت دے بلکہ سچ، جھوٹ کے سامنے ماند سا پڑ جائے۔ میرا سوال ہے ان لوگوں سے جو لوگوں کے دماغوں سے کھیلتے ہیں اور دہشت و وحشت کے لیے خام مال تیار کرتے ہیں کہ کیا انہیں صرف پشتونوں کے بچے ہی ملتے ہیں؟ کیا اس ملک میں نقصان کا ذمہ صرف پشتونوں نے ہی لیا ہوا ہے؟ کیا پشتون ایسے ہی خاموش رہیں گے؟ اگر اس بار بھی پشتون ان چالوں کو نہ پہچانے تو شاید پھر کبھی کچھ نہ کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).