بے شمار ٹرک، لاتعداد بتیاں


بہت زیادہ گھٹن ہے، دل بہت کچھ کہنے کو چاہتا ہے مگر، ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کررہے ہیں جہاں اکثر قتل ہونے والے افراد کو پتاہی نہیں چلتا کہ آخر ان کا قصور کیا تھا، اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کی ہم جتنی کوشش کرتے ہیں اتنے ہی اس میں دھنستے چلے جاتے ہیں، قدرت ہمیں باربار مواقع فراہم کرتی ہے کہ اس غیر انسانی ماحول سے نکل آئیں مگر اقتدار کی راہداریوں پر جن کا قبضہ ہے وہ ہمیں اس سے نکلنے نہیں دیتے، اس لئے بھی کہ ہم قوم کی بجائے ایک ہجوم بن گئے ہیں، شاید ہجوم کا لفظ بھی صحیح نہیں رہے گا، بلکہ ہم ایسے ریوڑ کی مانند ہیں جنہیں آپ جدھر ہانکیں وہ ادھر چلنا شروع کردیتا ہے۔

ہم میں سے اکثریت کی کوئی رائے ہی نہیں ہے تو اظہار کس کا کریں، اور معاشرے کے ایسے افراد جو تھوڑی بہت رائے رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ جب اس کا اظہار کرتے ہیں تو بے شمار لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے یہاں تک کہ جس ریوڑ کا صاحب رائے لوگ حصہ ہوتے ہیں اسی ریوڑ میں سے ہی چند دانشور ٹائپ کی بھیڑ بکریاں سمجھانے کے لئے نکل آتے ہیں، سمجھانے کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ پھر صاحب رائے افراد بھی معاشرے کے سدھار میں اپنا کردار ادا کرنے سے گریزاں رہا کرتے ہیں، مکالمہ، مباحثہ یا دلیل ہمارے معاشرے میں کوئی معنی نہیں رکھتے جو ’میں‘ نے کہا بس وہی سچ ہے باقی سب ڈھکوسلہ، ایسے معاشرے میں پھر دلیل کے لئے کہاں جگہ بنتی ہے۔

ہمارے مقتدر حلقوں کے پاس بے شمار ٹرک اور لاتعداد بتیاں ہیں، اور وہ ان کا استعمال بخوبی کیا کرتے ہیں، معاشرے کے افراد آگاہی اور شعور سے روشناس ہونے لگتے ہیں ،سکھ اور سکون کا سانس لینا شروع کرتے ہیں یا پھر عوامی سطح پرکسی تعمیری کام کا آغاز ہونے لگے، تو یہ حلقے ایک ٹرک بتی سمیت آگے کردیتے ہیں پھر کہاں کا شعور اور کونسی آگاہی، ہمارا ریوڑ اس بتی کے پیچھے سالوں چلتا رہتا ہے،جب آپ ٹرک کی بتی کے قریب پہنچ جاتے ہیں یا پھر آپ کو یہ خواب دکھایا جاتا ہے کہ آپ اور ٹرک کی بتی میں بس لمحوں کا فاصلہ رہ گیا ہے کہ یکایک ٹرک کی بتی بجھا دی جاتی ہے مگر ٹرک کی بتی بجھانے سے پہلے کچھ اس زور شور سے بڑھکیں ماری جاتی ہیں، جس سے عوام کو لگنے لگتا ہے کہ ملک، اداروں اور عام عوام کے تمام مسائل کا حل بس اس ٹرک کے ساتھ وابستہ ہے اگر یہ ٹرک چھوٹ گیا تو ہمارا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ہماری آنے والی نسلیں برباد ہوجائیں گی، ملک شدید بحران کا شکار ہوجائے گا مگر ستر سالوں سے پتا نہیں ہمارے کتنے ٹرک بتی سمیت غائب ہوچکے ہیں، مگر ہوا کچھ بھی نہیں، نہ عوامی سطح پر کوئی بیداری دیکھنے کو ملی نہ ہی مقتدر حلقوں کو شرم آئی، بلکہ دوسرا ٹرک اتنی جلدی منظر پر لایا جاتا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا ،ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے نئے ٹرک کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

یہ کہنا فضول ہوگا کہ اس ٹرک ،بتی کے کھیل میں کسی کو کچھ نہیں ملا، ملک کے دو فیصد اپر کلاس کو جنت کے لشکارے دنیا میں ہی مل رہے ہیں،دنیا جہاں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع ہیں ان کے پاس، وہ بھی عام عوام کی کمائی سے، خود سے کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا، بس جس سیاسی گروہ کے ساتھ وابستہ ہیں اس گروہ کی شان میں قصیدہ گوئی، ان کے تمام جرائم پر پردہ ڈالنا، قسمیں کھانا کہ ان کے آقا سے زیادہ ایماندار اس روئے زمین پر کوئی دوسرا فرد موجود نہیں اگر اس خاندان سے اقتدار چھین کر کسی اور کے حوالے کیا گیا تودنیا کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے گا حالانکہ اصل خطرہ صرف ان درباریوں کے ذاتی مفادات کو ہوتا ہے مگر ریوڑکو کون سمجھائے کہ جس دن یہ ٹرک، بتی کا کھیل ختم ہوا اس دن ملک اور عوام کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).