امتحان میں نقل کا الزام: پولیس لڑکیوں کو گرفتار کر کے گشت کرواتی رہی۔۔۔


 سندھ میں آج کل گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات جاری ہیں۔ اس دوران یہ شرم ناک واقعہ ضلع گھوٹکی کے شہر سرحد میں ایک دن پہلے رونما ہوا ہے۔

اے ایس پی آصف بہادر فرسٹ ائیر کے امتحان کے پہلے پرچے کے دوران گشت پر نکلے اور انہوں نے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول سرحد کے امتحانی سینٹر میں قائم لڑکیوں کے امتحان ہال سے پرچہ دینے والی دو طالبات سائرہ بنت علی مراد اور طاہرہ بنت عبدالستار ملک کو مبینہ طور پر نقل کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور پولیس موبائل میں مرد پولیس اہلکاروں کے ساتھ ڈال کر کئی گھنٹوں تک دیگر امتحانی مراکز کا گشت کیا۔

یہی نہیں، لوکل میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان کو پورے شہر کا گشت بھی کروایا گیا اور اس دوران فرسٹ ایئر کی ان دو جوان لڑکیوں کو بغیر کسی عورت پولیس اہلکار کے مرد پولیس حضرات کے ساتھ پولیس موبائل میں پیچھے بٹھایا گیا۔

امتحان میں نقل کی سزا یہاں پر ختم نہیں ہوئی ، پورے شہر کا گشت کرانے کے بعد دونوں طالبات کو ڈپٹی کمشنر آفس لا کر چار گھنٹے تک ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔

یہ معاملہ شہر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلا ، طالبات کے والدین اور دیگر شہریوں نے احتجاج کر کے جلوس نکالا، ہائی وے بند کیا، بات میڈیا میں آئی تو ڈپٹی کمشنر نے نوٹس لیا اور یرغمال بچیوں کو مختیارکار میر پور ماتھیلو کی معرفت والدین کے حوالے کیا۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے فوری طور پر اے ایس پی آصف بہادر کا گھوٹکی سے میرپور خاص تبادلہ تو کیا ہے مگر سندھ میں اس تبادلہ کو جرم کی نوعیت کے حساب سے ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سیدھا اغوا کا کیس ہے اور اس سے کم پر جو بھی معاملہ طے کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے پیٹی بھائی کو بچانا چاہتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ گذشتہ شب معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہونے اور بات میڈیا پر آنے پر اے ایس پی آصف بہادر، مختار کار میر پورماتھیلو نذیر مہر، ایس ایچ او سرحد طارق جلبانی، ایس ایچ او میر پور ماتھیلو عبدالجبار مہر اور دیگر اکابرین کو ساتھ لے کر سندھی روایتی طریقے ـ میڑ ـ کو اپناتے ہوئے معافی مانگنے لڑکیوں کے گھر پہنچ گیا ۔جس پر اس کو معافی مل گئی۔ ظاہر ہے غریب شہری پولیس کو معاف نہ کرے تو جیئے گا کیسے۔ دوسری طرف سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب دھر کا کہنا ہے کہ معافی مانگنے کے لیئے اے ایس پی آصف بہادر کو انہوں نے بھیجا تھا ۔

مگر اس معافی تلافی کے باوجود اس افسوسناک واقعے پر احتجاج کا دائرہ آج وسیع ہوا ہے اور پورے ضلع میں آج کے انٹرمیڈیٹ کے پرچے کا سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن ( سپلا) اور گورنمنٹ سیکنڈری ٹیچرز ایسوسی ایشن ( گسٹا ) کے ساتھ طلبا نے بائیکاٹ کیا ہے۔ دوسری جانب ضلع کے وکیلوں نے آج عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور جلوس نکالا۔

سندھ میں امتحانات میں نقل روکنے کے اس طریقے پر کافی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ کچھ دن پہلے بہی ایک اے ایس پی صاحبہ کو حیدرآباد میں ایک امتحانی مرکز سے نقل کرنے کے جرم میں نویں جماعت کے ایک بچے کو گرفتار کرکے لے کر جاتے ہوئے میڈیا پر دکھایا گیا تھا۔ یہ بات سمجھہ سے بالاتر ہے کہ سندہ حکومت اور اس کے ان نوجوان پولیس آفیسرز نے سندھ میں امتحانات میں نقل رکوانے کا یہ کونسا طریقہ نکالا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).