دہشت گرد ریلیف نہیں عبرتناک سزا کے مستحق ہیں


(احسن وارثی)

پاکستان میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے مختلف ادوار میں مختلف آپریشنز ہوئے ان آپریشنز میں سینکڑوں دہشت گرد مارے گئے اور سینکڑوں گرفتار بھی ہوئے جو مارے گئے وہ انجام کو پہنچے مگر جو زندہ گرفتار ہوئے وہ کہا گئے؟

وہ کس کے ساتھ ملکر پاکستان بھر میں کارروائی کرتے رہے، اُنکی پشت پناہی کس نے کی، کس نے انھیں شہروں اور صوبوں میں پناہ دی یا سہولت کاری کی کسی کو نہیں معلوم۔ کبھی گرفتار دہشت گردوں کی معلومات کو نہ ہی عوام کے سامنے پیش کیاگیا اور نہ ہی کسی نے پوچھنے کی زحمت کی۔ جنوبی پنجاب کے بدنام زمانہ دہشت گرد چھوٹو گینگ نے کافی عرصہ سے شہریوں کو پریشان کررکھا تھا چھوٹو گینگ ڈکیتی، لوٹ مار، اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم میں ملوث رہا ایک سال قبل چھوٹو گینگ کے سربراہ غلام رسول بخش کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

پولیس کی کارروائی میں محفوظ راستہ حاصل کرنے کے لیے چھوٹو گینگ کی جانب سے بچوں اور خواتین کو ڈھال کے طور یرغمال بنالیاگیا تھا۔ یرغمال افراد کی بازیابی اور کچے کے علاقے کو خالی کرانے کے لیے ماہ اپریل 2016 میں پولیس کی جانب سے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ پولیس کی جانب سے آپریشن کئی روز تک جاری رہا مسلح چھوٹو گینگ نے ایک چھوٹے سے علاقے کو مسلسل مزاحمت سے میدان جنگ میں تبدیل کرکے ریاست کی رٹ کو چیلنج کررکھا تھا۔ چھوٹو گینگ کی کارروائی کے دوران مسلح چھوٹو گینگ کی فائرنگ سے 6 پولیس اہلکار شہید ہوئے اور کئی زخمی ہوئے مگر اس کے باوجود پولیس علاقہ خالی کرانے میں ناکام رہی۔

پولیس کی ناکامی کے بعد وہاں فوجی اہلکاروں کی مدد لی گئی اور اس آپریشن کو ضرب آہن کا نام دیا گیا۔ جنوبی پنجاب راجن پور میں فوجی آپریشن ضرب آہن کے آغاز کے بعد چھوٹو گینگ کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔ ایسا ہی ہوا جب پاک فوج کے جوانوں نے آپریشن میں حصہ لیا تو چھوٹو گینگ کی جانب سے مذاکرت کا راستہ اپنا لیا گیا۔ چھوٹو گینگ اور غلام رسول بخش کی جانب سے ہتھیار ڈالنے سے قبل اپنی دہشت گردی کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ اس نے اپنے لوگوں کو حقوق دلانے کے لیے ہتھیار اٹھائےہیں۔ وہ کوئی ملک دشمن نہیں کہ پاک فوج کے جوان اس کے خلاف کارروائی کریں۔ پولیس کی جانب سے ملک دشمن ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

غلام رسول عرف چھوٹو نے کہا کہ جب تک پولیس اس آپریشن میں شامل ہے ہم ہتھیار نہیں پھینکے گے۔ چھوٹو گینگ کی جانب سے شرط رکھی گئی کہ وہ اُس وقت ہتھیار ڈالیں گے جب وزیرداخلہ انھیں خود کال کرکے یقین دلائیں کے انھیں پاک فوج ہی گرفتار کرے گی اور سزا بھی پاک فوج ہی دے گی۔ چھوٹو گینگ نے پاک فوج کے آپریشن ضرب آہن کے چند روز میں ہتھیار ڈال دیے اور گرفتاری دے دی۔ چھوٹو گینگ کو گرفتار ہوئے ایک سال گذر گیا آج تک نہیں پتا کہ 6 پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے والے دہشت گرد اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے کو کیا سزا دی گئی۔ سالوں سے جو چھوٹو گینگ نے صوبے میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا تھا اس دوران اُسے کس کی پشت پناہی حاصل تھی؟

اب سننے میں آیا ہے کہ پاکستان کے ہزاروں معصوم عوام کے گلے کاٹنے، عام عوام کو دھماکوں سے اڑانے والے، ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور خود کو فورسز کے حوالے کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دیشت گرد احسان اللہ احسان نے ہتھیار کسی شرط پر یا پھر کسی محفوظ راستے کو اپنانے کے لیے ڈالے ہیں؟ کیا پاکستان کے عام شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق ہیں؟ پاکستان کے معصوم عام شہری اور ہماری فورسز کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو ریلیف دینا قوم کی قربانیوں کی توہین ہوگی۔

ہمیں امید ہے کہ احسان اللہ احسان اور اس کے ساتھیوں کو ہماری فورسز کی جانب سے عبرتناک سزا دی جائے گی تاکہ دیگر بھی عبرت پکڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments