مشال خان کے قاتل اور حمزہ کے نوٹس


پانچ ماہ پہلے کتب بینی میں کمی پر رپورٹ بنانے کے لئے ناصر علی سید کے پاس گیا۔ پیشہ سے شاعر اور ادیب بندہ ہے۔ میں نے رپورٹ میں ان کی رائے شامل کرنا مناسب سمجھا۔ ناصر صاحب سے جب میں نے سوال پوچھا کہ کتب بینی میں کمی کیوں آئی ہے، جواب دینے کے بجائے انہوں مجھ سے میری ایجوکیشن کے حوالے سے سوال کیا، میں نے کہا “ماسٹر ان جرنلزم”۔

پھر انہوں پوچھا کہ اپ نے ماسٹر کے دوران کورس کی کتابوں کے علاوہ مزید کتنی کتابیں پڑھی ہے؟

میرے پاس ایک ہی جواب تھا “حمزہ کے نوٹس”

حمزہ کے نوٹس کا مطلب سمجھے آپ؟ 2004 میں امیر حمزہ بنگش جو اس وقت جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے ایک ذہین طالب علم تھے، آج کل اسی ڈیپارٹمنٹ میں استاد کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف کتابوں کو اسٹڈی کرکے نوٹس بنائے تھے۔ ان کے یہ نوٹس آج تک شعبہ صحافت میں اتنے ہی مقبول ہیں جتنا اس وقت ہوا کرتے تھے۔ آج بھی شعبہ صحافت کے طالب علموں میں زیادہ نمبر لینے کے لئے یہی نسخہ نہ صرف کارآمد سمجھا جاتا ہے بلکہ اساتذہ کی طرف سے نسل در نسل تجویز بھی کیا جا رہا ہے۔ حمزہ کے نوٹس ہاتھ سے لکھے گئے 100 سے کم صفحات پر مشتمل ہیں اور جرنلزم میں ماسٹر ڈگری کے پہلے سال کے چار مضامین اس سے با آسانی کور کی جا سکتے ہیں۔ 2010 میں جب میں نے جرنلزم میں داخلہ لیا تو حسب معمول ایک استاد سے پوچھا کہ کونسے مضمون کے لئے کس کتاب کو پڑھوں؟ جواب وہی ملا جو مجھ سے پہلے اور کئی صحافت کے طالب علموں کو ملا تھا “حمزہ کے نوٹس”۔ اور ہم نے بھی اس پر اکتفا کیا اور یوں ماسٹرز میں اچھے بھلے نمبروں سے پاس ہوئے۔ یہ تو تھا میرا جواب اور جواز۔ اب واپس آ تے ہیں ناصر صاحب کی طرف۔۔۔ کتب بینی کیوں اہم ہے اور اس میں کمی کیوں آئی ہے؟

ناصر صاحب نے کہا کہ جب وہ یونیورسٹی میں پڑھتےتھے تو اساتذہ ہمیں کورس کے علاوں جنرل کتابیں پڑنے کے لیے باقاعدہ اسائن
کرتے اوراس کتاب کا کلاس میں تنقیدی جائزہ پیش کرنے پر زور دیتے ، اس کے علاوہ اساتذہ اسٹوڈنٹس کو سیاست، مذہب، معاشیات اور تاریخ پر اچھی اچھی کتابیں تجویز کرتے تھے۔

اساتذہ بہتر جانتے ہیں کہ کونسی کتابیں اسٹوڈنس کے لیے پڑھنا لازمی ہے اور کیوں۔ لیکن ہمارے ہاں سب کچھ الٹا ہو رہا ہے جس ڈگری کے لیے تحقیق اور سولہ سال مسلسل مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہم صرف حمزہ کے نوٹس پڑھ کر ہی لے سکتے ہیں، تو ایسے تعلیمی اداروں میں پھر ویلنٹائن ڈے پر خون خرابہ ہوگا اور بغیر تحقیق کے قانون ہاتھ میں لے کر مشال خان کے قتل کو روا اور موسیقی سننے پر انجینئر عدنان کے قتل کو جہاد سمجھا جائے گا۔

کاش اساتذہ کچھ اس طرح نصیحت کرتے کہ “امتحان پاس کرنے کے لئے حمزہ کے نوٹس، اور انسان بننے اور انسانیت کی قدر کرنے کے لئے دانشوروں، مشہور تاریخ دانوں، سیرت نبوی پر لکھی گئی کتابوں، قرآن مجید کی تفاسیر اور مذہبی اسکالروں کی کتابیں پڑھو”

میرے خیال میں ہر یونیورسٹی اور مدرسے سے نکلنے والے طالب علم اور باشعور انسان کے پاس اتنا علم ضرور ہونی چاہیے کہ لوگوں کی نظریات، مذاہب، سیاسی مخالفت کی وجوہات، ایک فرد یا فریق کے رائے کی قدر اور مخالفین کو دلائل کے ذریعے مطمئن کرسکے

یہ سب جاننے کے لیے آپ کو کتاب کی ضرورت پڑے گی۔

اگر اپ کو اساتذہ نوٹس تجویز کریں تو ان سے اسلام، تاریخ اور خصوصاً تاریخ پاکستان پر لکھی گئی اچھی کتابیں تجویز کرنے کی درخواست بھی ضرور کریں

اور اگر صرف نوٹس پر اکتفا کرینگے تو پھر اپ مخالف کو مطمئن کرنے کے لئے صرف تشدد کا راستہ اپنائیں گے۔

جو کہ پاکستان، معاشرے اور خود آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔

اساتذہ کے علاوہ جب بھی کسی اسکالر، ایکٹیو سٹ، صحافی، دانشور اور ان جیسے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملے تو ان سے سیلفی کے لیے گزارش کرنے سے بہتر ہوگا کہ ان سے کوئی اچھی کتاب تجویز کرنے کی درخواست کریں۔ اگر کتاب مہنگی ہو تو آن لائن سرچ کریں یا دوستوں سے پتہ کریں شائد اس سے مل جائے،

کتاب پڑنے کے بعد دوستوں کے ساتھ اس پر بحث ضرور کریں اور اگر ممکن تو مختصر سا ریویو بھی لکھیں۔

اوپر لکھی گئی سطور میں صرف ایک شعبے کی بات کی گئی ہے۔ ضروری نہیں کہ پشاور یونیورسٹی کا ہر شعبہ ایسا ہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).