نواز شریف کے لئے وزارت عظمیٰ: امتحان اور بحران کے درمیان


پاناما کیس کے فیصلہ کے بعد ڈان لیکس کی رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کے مسائل میں اضافہ کرنے اور ان کی سیاسی ذہانت کا امتحان لینے کے لئے سامنے آ گئی ہے۔ یہ رپورٹ وزارت داخلہ کے حوالے کر دی گئی ہے اور اس کے بارے میں ”باخبر ذرائع“ کی فراہم کردہ خبریں اخبارات میں شائع ہو رہی ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی گئی ہے یا کہ نہیں۔ بعض سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیراعظم کو رپورٹ مل چکی ہے اور وہ اس پر غور کر رہے ہیں جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ رپورٹ ابھی وزارت داخلہ کے زیر غور ہے۔ سات رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے جو حصے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں، ان میں امور خارجہ پر وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو گزشتہ سال اکتوبر میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے بارے میں معلومات ڈان کے رپورٹر سیرل المیڈا کو فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ پاک فوج اور حکومت نے 6 اکتوبر 2016 کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا تھا جبکہ فوج کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم ہاﺅس میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس کی خبر فاش کرنے والے افراد کا سراغ لگا کر انہیں سزا دی جائے۔ فوج کے خیال میں سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کے حوالے سے اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کی وجہ سے قومی سلامتی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لیکن اس اخباری رپورٹ کی اشاعت کے بعد جس طرح فوج نے ردعمل ظاہر کیا اور پھر تحقیقات کرنے پر اصرار کیا، اس سے پیدا ہونے والی فضا میں فوج اور سول حکومت کے اختلافات زیادہ کھل کر سامنے آئے تھے۔ اس دوران حکومت نے فوج کا غصہ کم کرنے کے لئے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ قومی مفاد کے خلاف ایک خبر کی اشاعت رکوانے میں ناکام رہے تھے۔

ڈان لیکس کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ملک کے دو اہم ترین اداروں فوج اور سپریم کورٹ کی طرف سے سیاسی حکومت اور وزیراعظم کے بارے میں شبہات کو دستاویزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ جو لوگ بھی ملک میں جمہوریت کے فروغ اور منتخب افراد کے ذریعے قائم شدہ نظام حکومت کے خواہشمند ہیں، ان کے لئے یہ صورت حال تشویش کا سبب ہے۔ تاہم ملک میں سول حکمرانی اور جمہوریت کے سب سے اہم ذمہ داران یعنی ملک کے سیاسی لیڈر اور سیاسی پارٹیاں بھی اس صورت حال کو نواز شریف حکومت کے خلاف طوفان برپا کرنے اور کسی بھی طرح انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم پر شدید شبہات کا اظہار کیا تھا اور حکم دیا تھا کہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے مالی معاملات کی فوری اور موثر تحقیقات کے لئے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے جس میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ بینچ میں شامل 5 میں سے دو ججوں نے تو وزیراعظم پر دروغ گوئی کا الزام لگا کر انہیں نااہل کرنے کی سفارش کی تھی جبکہ اکثریتی ججوں نے اپنی ناراضگی صرف شبہ تک محدود رکھی اور مزید تحقیقات پر زور دیا۔

وزیراعظم کیمپ کی طرف سے اس فیصلہ کو اپنی شاندار کامیابی قرار دے کر فوری طور پر خوشی کے شادیانے ضرور بجائے گئے اور مٹھائیاں بانٹ کر مسرت کا اظہار کیا گیا۔ اپوزیشن اگرچہ وزیراعظم کو نااہل نہ قرار دیئے جانے پر مایوس تھی لیکن اس کے لئے یہ حقیقت بہت بڑا سیاسی ہتھکنڈا تھی کہ دو سینئر ججوں نے نااہلی کی سفارش کی تھی۔ اور تین ججوں کے اکثریتی فیصلہ میں بھی وزیراعظم کو تمام الزامات سے بری کرنے کی بجائے مزید تحقیقات کروانے اور اس مقصد کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق اداروں کی نگرانی میں کام کرنے والی جے آئی ٹی JIT بنانے کا حکم دیاگیا تھا۔ حکومت کی طرف سے خوشی کے فوری ردعمل کے دو پہلو تھے۔ ایک اپنے حامیوں کو اپنی کامیابی کا پیغام دے کر سیاسی اعتماد دلوانے کی کوشش کرنا تاکہ وہ اپوزیشن کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ دوسرے اس امید کا اظہار کہ سرکاری افسران پر مشتمل جے آئی ٹی کے سامنے اپنی ”بے گناہی“ ثابت کرنا آسان ہوگا۔ تاہم دو روز پہلے فوج کی کور کمانڈر کانفرنس میں یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ فوج، سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحقیقات میں حصہ لے گی اور شفاف کردار ادا کرے گی۔ اس طرح فوج نے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کر دی ہے بلکہ اس کے منصوبہ کے مطابق وزیراعظم کے خلاف حصار تنگ کرنے کے عمل میں حصہ لینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔

اب ڈان لیکس کی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔ یہ سارا معاملہ صرف فوج کی ناراضگی رفع کرنے کے لئے طول کھینچتا رہا ہے۔ اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی رخصتی کے بعد نئی فوجی قیادت اس معاملہ پر بہت پرجوش نہیں ہے۔ تاہم ایسے تجزیے فوج کو ایک فوجی کمانڈر کی ذاتی پسند اور ناپسند کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ فوج بطور ادارہ کام کرتی ہے اور اس کی ضرورتیں اور تقاضے بھی ایک ادارہ کے طور پر ہی سامنے آتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے کمان سنبھالنے کے بعد ان خواہشات اور ضروریات کے اظہار کا طریقہ تو تبدیل ہو سکتا ہے لیکن فوج میں اگر وزیراعظم کے بارے میں شبہات موجود ہیں تو وہ اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ اب ڈان لیکس کی رپورٹ پر عمل درآمد کے ذریعے ان شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہی نواز شریف کی بصیرت کا امتحان بھی ہے اور اس سے یہ بھی طے ہو سکتا ہے کہ وہ بطور وزیراعظم اپنے عہدے کی موجودہ مدت پوری کر سکیں گے یا کہ نہیں۔

ڈان لیکس رپورٹ کے بارے میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق معاون خصوصی طارق فاطمی کو یہ خبر ڈان تک پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ البتہ طارق فاطمی اس الزام سے انکاربھی کرتے ہیں اور انہوں نے کل وزیراعظم سے ملاقات کے بعد استعفیٰ نہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ انہیں وزارت خارجہ کے معاون خصوصی کے عہدہ سے ہٹا کر کوئی دوسری پوزیشن دے دی جائے گی۔ اس طرح فوج کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جس شخص پر انہیں بداعتمادی ہے، اسے وزارت خارجہ سے ہٹایا جا رہا ہے۔ کیوں کہ فوج قومی سلامتی اور خارجہ امور کو اپنی صوابدید اور سوچ کے مطابق چلانے کی خواہشمند رہتی ہے۔ لیکن کیا فوج کو مطمئن کرنے کی یہ نیم دلانہ کوششیں کافی ہوں گی اور سول اور ملٹری تعلقات میں خاص طور سے سیرل المیڈا کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد جو خلیج پیدا ہوئی ہے، کیا اسے پاٹا جا سکے گا۔ موجودہ حالات میں جبکہ پاناما کیس کا فیصلہ بدستور برہنہ تلوار کی طرح وزیراعظم کے سر پر لٹک رہا ہے، سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے قسم کی کوشش ناقص حکمت عملی ہوگی۔ یہ طریقہ شاید وزیراعظم کا اعتماد اور اتھارٹی بحال کرنے کے لئے کافی نہ ہو۔

ڈان لیکس تحقیقاتی کمیٹی میں فوج کے اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اجلاس کی کارروائی اور شاید رپورٹ کے متن میں انہوں نے اپنے مشاہدات اور تحفظات کا اظہار بھی کیا ہوگا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جسٹس عامر رضا کی رپورٹ میں ان تحفظات کو کس قدر جگہ دی گئی ہے تاہم اگر کمیٹی میں شامل فوجی نمائندے کمیٹی کی سفارشات سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں تو اس سے معاملہ سدھرنے کی بجائے پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ وزیراعظم کمیٹی کی رپورٹ جاری کرکے اور سارے حقائق منظر عام پر لا کر خودی بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد کمیٹی کی سفارشات پر پوری طرح عمل کرکے اور نامزد افراد کو برطرف کرکے اس معاملہ سے گلوخلاصی کروائی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم کے لئے یہ کوئی آسان آپشن نہیں ہو گا۔ میڈیا اور اپوزیشن، کمیٹی کی تفصیلی رپورٹ سامنے آنے کے بعد اس کے بخیے ادھیڑنے اور کہی و اَن کہی باتوں کا سراغ لگا کر ایک نیا طوفان کھڑا کریں گی۔ دوسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ سفارشات پر عمل کر دیا جائے اور ان لوگوں کو علیحدہ کر دیا جائے جن کی طرف انگلی اٹھائی گئی ہے اور اس طرح وزیراعظم اپنی پوزیشن بھی واضح کر لیں اور فوج کو بھی مطمئن کرلیں۔ اس میں قباحت یہ ہے کہ ایک تو وزیراعظم اس معاملہ میں بھی بظاہر پوری طرح ہتھیار پھینکنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ طارق فاطمی کے حوالے سے سامنے آنے والی خبریں، اس کی شہادت دے رہی ہیں۔ دوسرے یہ بھی غیر یقینی ہے کہ فوج کمیٹی کے نتائج اور ذمہ داروں کے تعین سے پوری طرح مطمئن ہے بھی یا نہیں۔ تیسرا یہ کہ فوج صرف ان لوگوں کی برطرفی سے ہی مطمئن نہیں ہوگی بلکہ خبر افشا کرنے یا سرکاری پوزیشن کے مطابق ”تخلیق“ کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ فوج اب اس مطالبہ سے دستبردار ہو چکی ہو۔

وزیراعظم اگر نامزد افراد کو برطرف بھی کر دیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا جائے تو ایک نیا پنڈرا بکس کھل سکتا ہے۔ سرکاری راز فاش کرنا سنگین جرم ہے لیکن قومی مفادات اور سلامتی کو نقصان پہنچانے والی من گھڑت کہانی پھیلانا تو ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ ان الزامات کا باقاعدہ سامنا کرنے والے خواہ سرکاری افسر ہوں یا سیاسی اہلکار۔۔۔۔۔ وہ اپنی جان بچانے کے لئے ضرور ہاتھ پاﺅں ماریں گے۔ اس طرح ایسے مقدمہ کی سماعت کے دوران مزید انکشافات، الزام تراشیوں، وضاحتوں اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم کبھی بھی اس حد تک جانے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ تو سوال ہے کہ ان کے نیم دلانہ اقدامات سے فوج کس حد تک مطمئن ہوتی ہے۔ اگر وہ اس وقت خاموشی بھی اختیار کرتی ہے تو کیا مستقبل میں کسی موقع پر اس حوالے سے پیدا ہونے والی بداعتمادی کسی دوسری صورت میں وزیراعظم کے خلاف ظاہر ہو سکتی ہے۔ اس کا ایک موقع تو فوری طور پر سپریم کورٹ نے فراہم کر دیا ہے۔ پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے شامل ہوں گے اور یہ واضح ہے کہ ان کی رائے کو باقی 5 ارکان کی رائے سے زیادہ اہمیت دی جائے گی۔

اپوزیشن کے لئے یہ صورت امکانات کے ایک نئے دروازے کھول رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اسے قبول کرتے ہوئے یہ اعلان کررہے ہیں کہ درحقیقت سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا ہے۔ کیوں کہ پانچوں ججوں نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے موقف کو مسترد کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف جے آئی ٹی کو بھی مسترد کر رہی ہیں یا اس کے خلاف شبہات پیدا کر رہی ہیں۔ کل ہی عمران خان نے یہ دعویٰ کرکے کہ نواز شریف نے انہیں دس ارب روپے رشوت دینے کی کوشش کی تھی، اس لئے وہ جے آئی ٹی کے ارکان کو بھی خرید لیں گے، جے آئی ٹی کے کردار کو مشتبہ بنانے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ ڈان لیکس کے حوالے سے بھی اپوزیشن کا موقف واضح ہے اور وہ کمیٹی کی تشکیل کی طرح اس کی رپورٹ کو بھی مسترد کر دے گی۔ اپوزیشن لیڈروں کے خیال میں ڈان میں رپورٹ شائع کروانے کا کام مریم نواز کے ذریعے نواز شریف نے خود کیا تھا۔ اس لئے جو رپورٹ بھی براہ راست وزیراعظم کو گناہ گار ثابت نہ کرے وہ کسی بھی اپوزیشن لیڈر کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔

پاناما فیصلہ کے بعد ڈان لیکس رپورٹ کو نواز شریف پر دباﺅ ڈالنے کے لئے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ وزیراعظم کو اس وقت ہر طرف سے خطرات اور اندیشوں کا سامنا ہے۔ وہ اگر استعفیٰ دے کر پارٹی کی تنظیم اور انتخاب جیتنے کی تیاری کرتے ہیں تو پاکستان کے سیاسی تناظر میں اسے ان کی اخلاقی عظمت قرار دینے کی بجائے، اعتراف جرم کہہ کر ان کے خلاف محاذ آرائی کی جائے گی۔ وہ عہدہ برقرار رکھتے ہوئے اداروں اور اپوزیشن کو مطمئنن کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ہر روز ایک نئی آفت اور طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سیاسی چومکھی میں نجانے کس کی فتح ہوگی بہرحال قومی معاملات اور ضرورتیں ضرور متاثر ہو رہی ہیں۔ بحران زدہ ملک ایک کمزور وزیراعظم کی سربراہی میں خطرات کا پوری طرح مقابلہ نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali