مولانا لدھیانوی، ہم سب اور دائروں کے قیدی


 ابن انشاء نے لکھا تھا کہ پہلے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا جاتا ہے اب خارج کیا جاتا ہے۔ ابن انشاء جیسے دانشور نے ایک ایسی بات کہہ دی جس کا حوالہ آج بھی دیا جاتا ہے

ابن انشاء کے زمانے میں اسلام کا ایک دائرہ تھا جس سے لوگوں کو خارج کیا جاتا تھا۔ آج ہر کسی نے اپنے الگ الگ دائرے بنا لئے ہیں جن میں لوگوں کو داخل کرنے یا خارج کرنے کے کڑے معیار رکھے گئے ہیں۔ یہ معیار اتنے سخت ہوتے جا رہے ہیں کہ خود دائرے بنانے والے ان دائروں کے قیدی بن گئے ہیں۔ ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات لکھنے والا راندہ درگاہ ٹھہرتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کس نہج پر پہنچ چکی ہے واقفان حال اس سے بخوبی شناسا ہیں اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مذہبی انتہا پسند بہت تیزی اور بہت ہی باریک بینی سے مسلمانوں کو اپنے دائروں سے خارج کرنے میں مصروف ہیں ، دائروں سے نکلے ہوئے ان مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ دائرہ بنا لیا جسے انہوں نے لبرلزم کا معروف نام دیا۔ لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جاتا ہے جسے دوسروں کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ فلاں شخص لباس کیسا پہنتا ہے ، اس کے نظریات کس قسم کے ہیں وغیرہ، ان کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ کوئی ان پر اپنے نظریات ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے کوئی انہیں اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش نہ کرے۔ پھر ایسا ہونے لگا کہ لبرلز نے بھی اپنے اپنے دائرے بنا لئے۔ جس نے بھی معتدل انداز اپنانے کا مشورہ دیا اسے فوراً آبپارے کا غلام قرار دے ڈالا، اس کو قلم بیچ ڈالا کے طعنے دے دیئے۔ یہ طعنے ان کی جانب سے بھی آئے جنہیں آبپارے کی پنجے سے چھڑانے کے لئے ” ہم سب ” سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ ہم سب پر شائد ہی کسی اور ایشو پر اتنے زیادہ مضامین پبلش کئے گئے ہوں جتنے ان بلاگرحضرات کی رہائی کے لئے لکھے گئے۔ ہم سب پر کوئی قرض واجب نہ تھا جو اتارا جا رہا تھا۔ ہم سب پر بہت سے ایشوز پر لکھا جاتا ہے اس ایک ایشو پر اتنا زیادہ لکھا جانا محض انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تھا۔ کسی آزاد انسان کو بلا جرم قید کر لیا جانا اس کی فیملی، اس کے دوست احباب اور ہر باشعور شہری کے لئے اذیت ناک تھا۔ ” ہم سب ” کے مصنفین نے لکھا اور بہت زور و شور سے لکھا۔ ان کی رہائی میں ہم سب کے مصنفین کی تحریروں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریریں لاکھوں لوگوں نے پڑھیں، ان کو شیئر کیا ، ان پر اپنا رد عمل دیا۔ اگر ہم سب پر چھپنے والی ایک تحریر پر صوبے کا آئی جی پولیس والوں کو ایک شہری کے گھر لے جا کر معافی مانگنے کا حکم دے سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کی تحریر اثر رکھتی ہے۔ آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے۔ جس ہم سب نے ان کی رہائی کے لئے جس ادارے کے خلاف لکھا، حیرت ہوئی کہ انہی لوگوں نے جب ہم سب کو اپنے قائم کردہ دائرے سے تجاوز کرتے دیکھا تو اسی ” ہم سب ” پر آبپارے سے تعلق کا الزام لگا ڈالا۔ محض الزام لگانا کافی نہیں سمجھا تو باقاعدہ ایک مہم شروع کر دی گئی۔

جن لوگوں کو لکھنا ہم سب نے سکھایا ، جن کے نام سے پاکستانی شناسا ہوئے ، جن کے کالم اخبارات میں شائع ہونے لگے ، جو ہم سب کی بدولت مشہور ہوئے اور پھرکسی بہانے اپنا رستہ الگ سے متعین کیا ، وہ سب ہم سب کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے ، یہ سب کون لوگ ہیں ، یہ ہم سب جانتے ہیں ، حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے ایشو پر ہم سب کو نشانہ بنایا جو بظاہر کوئی بہت بڑا ایشو نہیں ہے۔ البتہ شدت پسندوں کے لئے، بعض مسالک کے لوگوں کے لئے یہ ایک متنازع امر ضرور بن سکتا تھا اور انہوں نے اسے متنازع بنایا ، لیکن یہ لوگ وہ ہیں جو اپنے مسلک پر سختی سے کاربند ہیں ان کے یہاں کسی دوسرے مسلک یا اس کے کسی رہنما کی تعریف آپ کو دائرہ اسلام سے خارج کر سکتی ہے۔ مگر جو لوگ خود کو لبرل کہتے اور لبرلزم کا پرچار کرتے رہے ان کی جانب سے ایک جماعت کے رہنما کے خیالات پبلش کرنے پر ایک سائٹ کو ہی متنازع بنا دینا عجب ہے۔ اگر کوئی محترم دوست شرم و حیا کا پاس رکھتے ہوئے مدیر ہم سب پر تنقید نہ کر پائے تو معاون مدیر کو نشانہ بنا ڈالا، ان کو متکبر کہا ، وجوہات تو ہم سب جانتے ہیں۔ یہاں ان کا تذکرہ بالکل بھی مناسب نہیں۔ حیرت ہوئی کہ سات سمندر پار بیٹھ کر وہ یہ نہیں جان پائے کہ مدیر اور معاون مدیر کا تعلق کس طرح کا ہے۔ مدعا ان کا بہرحال انٹرویو کا شائع کرنا نہیں بلکہ معاون مدیر کے بارے میں لکھنا تھا۔

کوئی ٹی وی چینل اسی رہنما کا انٹر ویو نشرکرتے تو کوئی مسئلہ نہیں، اخبارات میں انٹر ویو شائع ہوں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ، اس جماعت کے رہنما قومی و صوبائی اسمبلی سے منتخب ہو جائیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، لیکن ہم سب پر انٹر ویو شائع ہو گیا ہے تو پھر یہ انٹر ویو نشر کرنے والے آب پارے کی پے لسٹ میں شامل کر دو۔ ان کو دہشت گردوں کا ترجمان بنا دو ، ان کو بزدل بنا دو ، یہ بھی بھول جاو کہ یہی وہ ہم سب ہے جہاں سے بہت طاقتور اداروں کے خلاف لکھا گیا ، محض آپ کی ہمدردی میں ، یہ بھی بھول جاو کہ یہ وہ سائٹ ہے جس نے آپ کو لکھنا سکھایا ، اس کا مدیر آج بھی وہی شخص ہے جس کو استاد محترم کہتے کہتے آپ کی انگلیاں تھک جاتی تھیں ،

آپ اس بات کا رونا روتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی و تنگ نظری بڑھ گئی ہے لیکن ہم اس بات کا رونا روتے ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسندی و تنگ نظری بڑھ چکی ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، اس کا تعلق آپ کی سوچ سے ہے آپ کی سوچ تنگ نظر ہو چکی ہے ، آپ میں اور بغداد کے ان علماء میں کوئی فرق دکھائی دیتا جب ہلاکو خان اپنے لشکر کے ساتھ بغداد کے قلعے پر دستک دے رہا تھا تو علمائے بغداد یہ طے کرنے میں مصروف تھے کہ طوطا حلال ہوتا ہے یا حرام۔

دنیا میں تلوار آج تک کوئی بھی جھگڑا طے نہیں کر سکی ، تلوار نیام سے نکلے تو سانحہ کربلا وجود میں آتا ہے۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ خونیں جھگڑوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ تلوار نیام سے باہر رہے ؟ کیا آپ یہ نہیں چاہتے کہ ممالک کے درمیان / شدت پسندوں گروپوں کے درمیان / مسالک کے درمیان مکالمے کی کوئی راہ نکالی جائے ؟ جن جماعتوں یا رہنماؤں کو لوگ شدت پسند کہتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ ان کی رائے عوام کےسامنے لائی جائے۔ ایسا کیوں نہ کیا جائے ؟ کیوں نہ عوام کو بتایا جائے کہ جو کچھ آپ پڑھتے رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ درست نہ ہو ، ایک پہلو یہ بھی ہے اسے بھی پڑھئے ، ایک صاحب جن کی جماعت آج تک متشدد خیالات کی حامل سمجھی جاتی رہی ہے وہ اعتدال کی جانب آنا چاہتی ہے ، آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ وہ اعتدال کی جانب نہ آئے ، وہ بدستور تلوار اٹھائے رکھے ؟

کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ دائروں کے قیدی بن چکے ہیں ؟ آپ نے بھی چند دائرے قائم کر لئے ہیں ، ستم تو یہ ہوا ہے کہ آپ نے انٹرویو پر تنقید کی ہی نہیں۔ آپ نے انٹر ویو پبلش کرنے والی سائٹ پر تنقید کی ہے۔ اگر آپ کو انٹر ویو سے کچھ تحفظات ہیں یا آپ نے انٹرویو کو ناکافی پاکر کچھ سوال اٹھائے تو بہتر ہوتا کہ آپ سوالات اٹھاتے۔ وہ رہنما ایک حقیقت ہیں۔ آپ اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں اسی طرح آزاد ہیں جس طرح آپ آزاد ہیں کہ جس پر جو چاہیں الزامات لگا دیں۔ اگر آپ کی نظر میں وہ رہنما اچھے نہیں ہیں تو آپ کس طرح سے اچھے دانشور ہیں ؟ میں سمجھتا ہوں تنقید کرنے والوں سے بہتر مولانا احمد لدھیانوی ہیں کہ جنہوں نے مثبت انداز میں اپنی بات کی۔ بہتر لوگ وہ ہیں جنہوں نے مولانا کا انٹرویو اپنی سائٹ پر پبلش کیا۔ ان لوگوں کا طرز عمل کسی طور بھی بہتر نہیں جنہوں نے اس انٹرویو پر اعتراضات کم لیکن ہم سب پر اور اس کے مدیران پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ ایسا کرنے سے انہوں نے خود کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے ظاہر کیا کہ جب وہ کسی پر تنقید کرتے ہیں تو اس پر ویسے ہی الزامات لگا سکتے ہیں جو مدرسے کے پڑھے ہوئے طلباء لگایا کرتے تھے۔

لیکن یہ ایک آغاز ہے ، عمدہ آغاز۔ جب مولانا ساجد نقوی کا انٹر ویو چھپے گا تب دوسری طرف کا رد عمل سامنے آئے گا۔ تب ہم سب پر ایرانی پیسا لینے کا الزام لگایا جائے گا۔ کیمپ تبدیل کرنے کے طعنے بھی ملیں گے۔ جب نجم سیٹھی یا امتیاز عالم کا انٹر ویو چھپے گا تو را کی فنڈنگ کا الزام بھی سہنا ہو گا۔ جب ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چینائے کا انٹرویو چھاپا جائے گا تو سی آئی اے کی چھتری کی بات بھی ہو گی۔ لیکن اگر کارواں چلتا رہا تو یہ اڑائی ہوئی گرد بے اثر جائے گی۔ کارواں چلتے رہنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).