ترکی میں گولن کے حامیوں کی گرفتاریاں: انسانی حقوق پر حملہ


ترکی میں حکومت نے ملک کے72 صوبوں میں چھاپے مار کر 1009 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ مزید اڑھائی ہزار افراد کو پکڑنے کے لئے فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں۔ ملک کے وزیر داخلہ سلیمان سوئیلونے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کو گولن تحریک کے دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے یہ کارروائی ضروری ہے۔ انہوں نے گرفتار ہونے والے لوگوں کو گولن کے خفیہ امام قرار دیا جو ملک کے اہم اداروں میں داخل ہو کر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور یورپی ملکوں نے اس کارروائی کو سیاسی مخالفین کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ترک حکومت کا مخالفین پر یہ نیا کریک ڈان گزشتہ اتوار منعقد ہونے والے ریفرنڈم کے بعد کیا گیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں معمولی اکثریت سے ان آئینی ترامیم کی منظوری دی گئی تھی جن کے تحت اب ملک کا پارلیمانی نظام ختم ہو جائے گا اور صدر رجب طیب اردوان کو وسیع اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔

مخالفین کا کہنا ہے صدر اردوان ملک پر اپنی آہنی گرفت سخت کرنا چاہتے ہیں اور سب مخالف آوازوں کو دبا دینا چاہتے ہیں۔ حکومت کو گزشتہ برس ناکام فوجی انقلاب کی کوشش کے بعد مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے اور بنیادی حقوق معطل کرنے کا بہانہ مل گیا تھا۔ ملک میں گزشتہ سال جولائی کے بعد سے اب تک 47 ہزار افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں جن میں پولیس، فوج اور عدلیہ کے ارکان بھی شامل ہیں۔ صدر اردوان کا دعویٰ کہ ملک کے مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نے ، جو اس وقت امریکہ میں رہتے ، ملک کے تمام اداروں میں اپنے لوگوں کو داخل کردیا ہے اور اس طرح وہ ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ گولن نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے لیکن ترک حکومت اپنے دعوے پر قائم ہے اور گولن تحریک سے وابستگی کے شبہ میں ہزارہا لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ اس تحریک کے زیر انتظام چلنے والے سینکڑوں اسکولوں اور رفاہی اداروں کو بند کیا جا چکا ہے۔

یورپ میں ترکی میں انسانی حقوق کی صورت حال پرتشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدر اردوان ملک میں شخصی حکومت قائم کرکے ملک کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دو روز قبل کونسل آف یورپ نے ایک قرارداد میں ریفرنڈم کے مخالفین کے خلاف ترک حکومت کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے ترکی میں انسانی حقوق کی صورت حال پر شدید تشویش ہے اور کونسل اس حوالے سے ترکی پر نظر رکھے گی۔ یورپین کونسل کی اس قرارداد کے نتیجے میں یورپین یونین میں ترکی کی رکنیت کی درخواست کو مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تاہم ترکی نے کونسل کی قرارداد پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور اسے اسلام فوبیا کا مظہر قرار دیا تھا۔ ترکی کا کہنا تھا کہ یورپین کونسل کا رویہ جمہوریت کی توہین ہے حالانکہ یہ ممالک جمہوریت کے دعویدار ہیں۔

آج ترکی میں ہونے والی گرفتاریوں کے بعد یورپ کے ساتھ ترکی کی دوری میں اضافہ ہوگا۔ صدر اردوان البتہ فی الوقت اس مخالفت کی پرواہ کرنے کی بجائے ملک کے اندر اپنے اقتدار کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو سختی سے دبانا چاہتے ہیں۔ 16 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم میں صدر اردووان اپنے مقصد میں کامیاب ضرور ہوگئے ہیں لیکن یہ کامیابی متوقع اکثریت سے حاصل نہیں ہو سکی۔ نظام میں تبدیلی کے حق میں 51,3 فیصد ووٹ آئے تھے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انتخابی کمیشن نے آخری وقت میں لکھوکھ ہا غیر تصدیق شدہ ووٹوں کو گنتی میں شامل کرکے شدید دھاندلی کی تھی اور ریفرنڈم کے نتائج کو تبدیل کردیا تھا۔ کیوں کہ غیر تصدیق شدہ ووٹ بلا تخصیص ’ہاں‘ کے لئے دیئے گئے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے علاوہ صدر اردوان بھی اس مطالبہ کو مسترد کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ معمولی اکثریت سے ایک متنازعہ ریفرنڈم جیتنے کے بعد وہ سیاسی مخالفین کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔

ریفرنڈم کے خلاف ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا کہ اب حکومت ملک دشمن دہشت گردوں کو پکڑنے کے بہانے ہر مخالف آواز دبانے کے لئے سرگرم ہے۔ ترکی سنہرے دور سے گزرنے کے بعد اقتصادی اور سیاسی ابتری کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali