نعرے اور الزام نہیں کارکردگی فیصلہ کرے گی پیارے کپتان


کپتان نے پانامہ پر خاموش رہنے کی صورت میں دس ارب ملنے کی بات کر کے تہلکہ مچا دیا ہے۔ یہ بات کتنی درست ہے اس کا فیصلہ بھی کبھی ہو نہیں سکے گا۔ البتہ یہ ضرور واضح ہوتا جا رہا ہے کہ کپتان اگلا الیکشن کرپشن کے خاتمے کے اکلوتے نعرے پر ہی لڑنے کا موڈ بنا چکا ہے۔ کیا یہ نعرہ اب پاکستان میں چل سکے گا جہاں نعرے پہلے ہی رل چکے ہیں نظریاتی سیاست دم دے چکی ہے۔ یہ دم نکالنے میں اصل کردار خیبر پختون خوا کے ووٹر نے ادا کیا ہے جہاں کپتان ہی کی حکومت ہے۔ یہاں کا ووٹر اپنے صوبے میں‌ تبدیلی اور ترقی کی آس میں لگ بھگ ہر جماعت کو اقتدار دلوا چکا ہے۔ مسلم لیگ نون، پی پی پی پی، اے این پی، مذہبی جماعتوں کا اتحاد، حتی کہ تحریک انصاف بھی اپنی صوبائی حکومت کے چار سال مکمل کر چکی ہے۔ یہ خیبر پختون خوا کا ووٹر ہی ہے جو سب کو آزما چکا ہے۔ یہی ووٹر ہے جس نے پھر ہر حکمران جماعت کا احتساب بھی کیا۔ اس کو سزا دی، نشان عبرت بنایا۔ پاکستان کو شکر گزار ہونا چاہیے اس ووٹر کا، جو سیاسی جماعتوں کو ہانکتا ہوا کارکردگی دکھانے کی جانب لا رہا ہے۔

اگلے عام انتخابات میں مرکزی حکومت بنانے کا فیصلہ خیبر پختون خوا ہی میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا گھر یعنی سندھ بظاہر مضبوط ہے۔ پی ایم ایل این پنجاب کی بڑی پارٹی ہے اور مستقبل میں بھی وہ اپنی طاقت کافی حد تک برقرار رکھتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ دونوں ہی بڑی پارٹیاں اپنی پاور بیس میں مشکلات کا شکار بھی ہوتی جا رہی ہیں۔ دونوں ہی پارٹیوں کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پیپلزپارٹی کو اپنی کارکردگی کا جواب شاید اتنا نہ دینا پڑے۔ اس کو زیادہ مسئلہ ان امیدواروں سے ہو گا، جو ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں آزاد حیثیت میں کھڑے ہوں گے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نون کو تحریک انصاف آگے لگا کر دوڑائے گی۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب سے کچھ تگڑے امیدوار مل جائیں گے۔ اگلے عام انتخابات کے لیے آصف علی زرداری کا گیم پلان سادہ اور قابل عمل ہے۔ بس وہ اتنی نشستیں چاہتے ہیں کہ ان کی حمایت کے بغیر کوئی بھی سیاسی جماعت مرکزی حکومت نہ بنا سکے۔ اکثریتی جماعت تو چھوڑیں، ان کی ترجیح سنگل لارجسٹ پارٹی بننے میں بھی نہیں ہے۔ ستر اسی سیٹیں جیت کر وہ سیکنڈ لارجسٹ بننے کو بھی اپنی فتح ہی مانیں گے۔ اگر وہ اس گیم پلان میں کامیاب رہتے ہیں، تو باقی جو سیاسی سمجھوتے ہیں، وہ زرداری صاحب کو کرنا خوب آتے ہیں۔ جنھیں وہ نہ صرف یہ کہ بڑی دلیری سے کرتے ہیں بلکہ نبھاتے بھی ہیں۔

نوازشریف صاحب کا مزاج، مخلوط حکومت بنانے اور چلانے والا نہیں ہے۔ وہ اکثریت لینے اور زور بازو سے اپنی سرکار چلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ البتہ اس بار ان میں ایک تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، کہ انہوں نے اپنی مخالف جماعتوں کی حکومت کو خوش دلی سے برداشت کیا ہے۔ موجودہ سیاسی لاٹ میں نواز شریف حکومتی تجربہ رکھنے والے ہوشیار ترین سیاستدان ہیں۔ وہ بر وقت بھانپ چکے ہیں کہ انہیں اگلے عام انتخابات میں پنجاب ہی سے کپتان کے ہاتھوں بہت سی سیٹیں ہارنا پڑ سکتی ہیں۔

نوازشریف ہمیشہ اپنا گیم پلان اپنے حریف کو طاقتور مان کر بناتے ہیں۔ الیکشن یہ سمجھ کر لڑتے ہیں کہ ہم ہار چکے ہیں۔ وہ الیکشن سے بہت پہلے اپنی بساط بچھانا شروع کردیتے ہیں۔ اپنی کمزوریاں دور کرتے ہیں، پنجاب میں ایک ایک حلقے پر توجہ دیتے ہیں۔ اپنے انتخابی امیدواروں کو بہترین ٹیم فراہم کرتے ہیں۔ برادریوں کی ایڈجسٹ منٹ کرتے ہیں۔ ناراض ہیوی ویٹ امیدواروں کو راضی کرتے ہیں۔ متحارب امیدواروں میں سمجھوتے کراتے ہیں۔ پہلے وہ ہر امیدوار کو ایسی سیاسی گیم بنا کر دیتے تھے، ایسی ٹیم دیتے تھے کہ وہ یقینی طور پر پچاس ہزار ووٹ پکے کر کے میدان میں اترتا تھا۔ اس کا مد مقابل اگر اناڑی ہوتا تو پولنگ کے دن تک ووٹوں کا اتنا بڑا خسارہ ہی پورا کرنے میں لگا رہتا تھا۔

اتنا کچھ کرکے بھی نوازشریف الیکشن رزلٹ آنے کے بعد ہی آرام سے بیٹھتے ہیں۔ امکان ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن بہت مختلف ہوگا۔ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونا لازم ہے۔ نئے حلقے بنانے، ان میں اضافہ کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی۔ یہ ترمیم نہ بھی ہوئی تو موجودہ حلقہ بندیاں تبدیل ہوں گی۔ بہت سے حلقے دیہی کے بجائے شہری ہو جائیں گے۔ ہر حلقے کی ڈائنامکس تبدیل ہو جائیں گی۔ یہ تبدیل شدہ حلقے نوازشرف جیسے تجربہ کار سیاستدان کے لیے بھی چیلنج ہوں گے۔ یہ تبدیلی بہت سارے نئے امکانات لے کر آئے گی، اور یہ امکانات کپتان کو فائدہ دیں گے۔

کپتان اپنی اگلی یدھ پنجاب ہی میں لڑنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ پنجاب کے بیشتر حلقوں میں مسلم لیگ نون سب سے بڑی پارٹی ضرور ہے لیکن ایسے حلقے کم کم ہیں جہاں پچاس فی صد سے زائد ووٹر ہی اس کے حامی ہوں۔ کپتان کو کرنا ہو تو بس اتنا ہی کام ہے کہ اس ووٹر کو جو مسلم لیگ نون کو ووٹ نہیں دیتا، ایک بلاک کی صورت ترتیب دے۔ کپتان یہ کام کس حد تک کر سکتا ہے، اس کی ٹیم کیسی ہے، وہ اپنے کارکن کو کتنا منظم کر پاتا ہے، کپتان کی جیت کا سارے کا سارا انحصار بس انہیں سوالات کے جواب پر ہے۔

کپتان کے فائدے میں ایک اور بات بھی ہے کہ آصف علی زرداری، اور گجرات کے چودھری، کپتان ہی کی مدد کرنا چاہیں گے۔ اگر ان کا کپتان سے کوئی سیاسی سمجھوتا نہ بھی ہوا، تب بھی وہ پیچھے رہ کے کپتان کی مدد کریں گے۔ کیوں‌ کہ ان کا مقصد نوازشریف کو شکست دینا ہے۔ آصف علی زرداری اس سے بھی ذرا آگے کا سوچتے ہوں گے، وہ انتخابی میدان میں مسلم لیگ نون کو شکست دینے کے بعد اسی جماعت کے ساتھ حکومتی اتحاد بنانے کو بھی تیار ہوں گے۔ جب نوازشریف پنجاب میں ہاریں گے تو انہیں اپنی کھوئی ہوئی نشستوں کا گھاٹا، کہیں سے تو پورا کرنا ہی پڑے گا۔ وہ اپنا یہ نقصان سندھ سے ہی اچھی خاصی سیٹیں جیت کر پورا کر سکتے ہیں، لیکن سندھ وہ سوچ سمجھ ہی کر جائیں گے۔

آصف علی زرداری ان کے سیاسی حریف تو ہیں لیکن جمہوریت بچانے کے لیے ان کے سب سے مضبوط حلیف بھی وہی ہیں۔ نوازشریف اگر سندھ میں اپنی بھرپور سیاسی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں، تو زرداری صاحب ضرورت سے زیادہ کمزور ہوں گے، ایسا کر کے نواز شریف کا دوسری طرح نقصان ہو گا جو زیادہ بڑا نقصان ہوگا۔ یہ وہ ہر گز ہوتا دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ یہ حالات کی مجبوری ہے کہ نوازشریف سندھ سے تھوڑا دور ہی رہیں۔ ان کو اپنا جو بھی سیاسی خسارہ پورا کرنا ہے اس کے لیے خیبر پختون خوا کا رخ ہی کریں۔ انہوں نے کے پی کے میں مسلم لیگ نون کی نئی ٹیم بھی میدان میں اتاری ہے۔ امیر مقام کو صوبائی صدر بنایا ہے، اور مرتضی جاوید عباسی کو جنرل سیکرٹری۔ خیبر پختون خوا کا ووٹر احتسابی مزاج رکھتا ہے۔ یہ حساب کتاب حکومت میں رہنے والوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اس وقت خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، تو حساب کتاب بھی اسی سے لیا جانا ہے۔ کپتان کی ساری کی ساری انتخابی مہم اس کے ارادوں کی تکمیل یا پامالی کا اختیار خیبر پختون خوا کے ووٹروں کے ہاتھ میں ہے۔ خیبر پختون خوا کا یہ ووٹر نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کے ڈیڑھ درجن قومی اسمبلی کے موجودہ ممبران کا فیصلہ کرے گا، ساتھ ہی ساتھ کپتان کے عروج یا زوال پر حتمی مہر بھی لگا دے گا۔ کپتان کے لیے پنجاب کامیدان ہموار ہوتا جا رہا ہے اس ہموار میدان میں سپیڈ بریکر اس کی خیبر پختون خواہ حکومت کی کارکردگی ہو گی۔ ووٹر جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے پر یقین رکھتا ہے۔ نوازشریف کے سارے منصوبے دکھائی دینے والے ہیں۔ کپتان کا سارا انحصار اب صرف اس پر ہے کہ اس نے نوازشریف کو ہی کرپشن زدہ دکھانے پر اپنا سارا زور لگا رکھا ہے۔ فیصلہ ووٹر کرے گا ووٹر ٹرینڈ کی راہنمائی خیبر پختون خواہ کا ووٹر ہی کرے گا جو اب صرف کارکردگی ہی دیکھتا ہے کہ نعرے اور نظریات سے پک چکا ہے ہمارے پیارے کپتان۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi