میری اپنی زندگی


\"inam-rana\"

اپنی پیدائش اور پرورش کے دور سے، جہاں تک میری شعوری و لاشعوری یادداشت ساتھ دیتی ہے، میں ’میری اپنی‘ زندگی جینے کی خواہش میں رہا ہوں۔ میرا جنم، میرا نام، میرا مذہب، تعلیم اور یہاں تک کہ بچپن کے دوست بھی کسی اور کی مرضی اور چناؤ کا نتیجہ تھے۔ مگر میں پر یقین تھا کہ ایک دن بالآخر میں ایسی زندگی جیوں گا جو میری اپنی ہو گی۔

وقت کے ساتھ ساتھ میں پروان چڑھا، تعلیم یافتہ ہوا اور شاید باشعور بھی۔ میں نے اپنی مرضی سے دوست بنائے، محبتیں کیں، نفرتیں پالیں، فیصلے کیے، شادی کی، بچے پیدا کیے، اپنے کام میں بہترین بنا، ترقی پائی، مرضی سے کھایا، پیا، خوشی سے ناچا، غم میں رویا، سیاحت کی،کمایا اور جی بھر کر خرچ کیا۔ اور مجھے لگتا تھا کہ میں ’اپنی‘ زندگی جی رہا ہوں، ایک بھرپور زندگی جو ’میری‘ ہے۔

پھر ایک دن جب میری بیوی نے مجھے میرا چاؤ سے خریدا سویٹر پہنے دیکھ کر ناگواری کا اظہار کیا تو یکدم مجھے احساس ہوا کہ میری زندگی کبھی میری اپنی ، خود کے لئے توتھی ہی نہیں۔ میری ہنسی، قہقہے، آنسو، کام، سیاحتیں، کمانا اور خرچنا تو فقط ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے تھا جو مجھ سے وابستہ کر دی گئیں تھیں۔ مجھ سے توقع کی گئی کہ ایک اچھا بیٹا، بھائی، محبوب، دوست، شوہر، اپنے دوستوں کے لئے کسی کا دشمن، محنتی ورکر، سخی باس، وضع دار میزبان، تمیز دار مہمان، محب وطن اور مہذب شہری اور دنیا کا بہترین باپ بنوں۔ ہاں میں بہت کامیاب رہا یہ سب پا کر ایک ایسی زندگی جینے میں جو دوسروں کی توقعات کے عین مطابق تھی۔ ’میری اپنی‘ کبھی تھی ہی نہیں۔ یہ سب تو وہ انعامات ہیں جو ہمیں توقعات پر پورا اتنے کے صلے میں ملتے ہیں۔

ہماری زندگی دراصل ’ہماری اپنی‘ کبھی ہوتی ہی نہیں۔ خاندان، سماج، مذہب اور ریاست ہماری زندگی کے اصول طے کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ہم ان اصولوں کے تحت زندگی بسر کریں۔ ان توقعات پر پورا اترنا ہی ہماری زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا معیار ٹھرتا ہے اور ہم ان توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کو زندگی پکارتے رہتے ہیں۔ حتی کہ ہماری موت کے وقت اور طریقے سے بھی کچھ توقعات وابستہ ہوتی ہیں، جو پوری نا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ غیر متوقع موت مر گیا۔

مگر ’میری اپنی‘ زندگی ہے کیا؟ اگر زندگی سے وابستہ یہ سب جذبات و توقعات نہ ہوں تو کیا زندگی، جسے ہم زندگی سمجھتے ہیں، واقعی زندگی کہلائے گی؟ ’میری اپنی‘ زندگی تو ان سب توقعات سے بغاوت کا نام ہو گی۔ ایک ایسی زندگی جو دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، اشکوں اور قہقہوں جیسے انعامات اور ان سے وابستہ توقعات سے بغاوت ہو گی، کیا زندگی کہلانے کے قابل بھی ہو گی؟ یہ انعامات ہماری ضرورت ہیں اور ہر انعام کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ توقعات پر پورا اترنا ہی ان انعامات کی قیمت ہے۔ ہم ’ہماری اپنی‘ زندگی جی ہی نہیں سکتے۔

ہم صرف ’ہمارے اپنے لمحات‘ جی سکتے ہیں۔ سو ان پَلوں کو پانے اور جینے کی کوشش کیجیے۔ لمبی واک، عبادت، سونے سے قبل کوئی اچھی کتاب خواہ پڑھتے ہوے بیوی کی بڑبڑاہٹ سنائی دے رہی ہو، محبوب کی آنکھوں میں جھلکتی محبت قبل اسکے کہ وہاں نفرت و بیزاری جنم لے، بے تکلف دوست کا سنایا فضول لطیفہ، اپنے بچے کی معصوم مسکان، کسی ضرورت مند کی آنکھوں سے امڈتے تشکر، خود سے خاموشی میں کی چند باتوں، ان سب میں وہ پل تلاش کر لیجیے جو صرف ہمارے ’اپنے پَل‘ ہیں۔ آخری بار آنکھیں بند کرنے سے قبل فقط ان چند لمحات کا مجموعہ ہی ہے جسے ہم ’ہماری اپنی زندگی‘ کہ سکیں گے۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments