مجھے “ہم سب” پر مولانا کا انٹر ویو کیوں اچھا نہیں لگا؟


آج کل سوشل میڈیا پر ہم سب پر چھپنے والے ایک انٹر ویو اور پھر اس انٹر ویو پر نہایت قابل احترام استادِ محترم وجاہت مسعود صاحب کی جانب سے اپنے خیالات کے اظہار کو لیکر بہت زیادہ شور شرابا مچا ہوا ہے۔ کہیں ہم سب اور اس کی ٹیم پر لفافے لینے، بِک جانے اور دیگر کئی طرح کے الزامات لگ رہے تو دوسری جانب ہم سب اور اس کی ٹیم کے اس اقدام کی حمایت میں بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ اسی دوران کہیں ہم سب ساکھ کو نقصان پہنچنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں ڈبہ گول ہونے کی بھی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ ان ساری صورتحال میں سوچ بچار کرنے کے بعد کچھ اپنی طرف سے لکھنے کی جسارت کر ڈالی ہے تاکہ مختلف آراء کے اس بہتے دریا میں میں بھی اپنی رائے کو شامل کر سکوں کہ شاید کسی کے دل کو لگ جائے میری بات۔

“ہم سب” نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ مجھ ناچیز” ہم سب” کے لکھنے والوں کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر انتہا درجے کی خوشی محسوس کی۔ “ہم سب” کی ٹیم کی محنت اور اس قافلے میں شامل ہونے والے انمول لکھاریوں کی بدولت اسے بے پناہ پذیرائی ملی اور یہ بلندی کے سفر طے کرتا چلا گیا۔ اس کی وجہ “ہم سب” کا غیر جانبدارانہ انداز، نئے نئے لکھاریوں کے لیے انکی  لکھنے صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے بھرپورمواقع، اور “ہم سب” شائع ہونے والی تحریروں کے معیار رہا ہے۔ میں اگر یہ کہوں تو یہ بات ہرگز غلط نہ ہوگی کہ “ہم سب” نے ہمیں ہمیشہ تصویر کا وہ رخ دکھایا ہے جو کہ عموماََ ہمارے سماج کے لیے دیکھ پانا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ میری تحریر میں ان باتوں کا لکھنا “ہم سب” کی تعریف کے لیے مقصود نہیں ہیں بلکہ “ڈبہ گول” والی بات کے جواب میں یہ بتانا مقصود ہے کہ “ہم سب” ہم سب کے لیے کس قدر اہم ہے اور اس کا ڈبہ گول نہیں ہونا چاہیے۔

 یہ بات واقعی درست ہے کہ مولانا لدھیانوی کا انٹر ویو جس انداز میں شائع ہوا ہے اور اس پر جس طرح استادِ محترم جناب وجاہت مسعود صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ مجھ ناچیز کے خیال میں اگر غلط نہیں تھا تو مناسب بھی نہیں تھا۔ جو انٹرویو یہاں شائع ہوا ہے اس میں شاید سوالات ہی کچھ اس طرح کے تھے کہ جن کے جوابات ایسے آئے اور وہ شائع ہوئے اور پھر اس پر تنقید کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو کہ ابھی تک ختم نہیں ہویا شاید وہ سوالات کہ جو ان کے اصل کردار کو واضح کرتے، وہ کیے تو گئے لیکن ان کو شائع نہیں کیا گیا۔ مولانا لدھیانوی جس نظریے یا عقیدے کے حامل ہیں اس حوالے سے جو بات میرے علم میں ہے، وہ یہ کہ جناب کے نظریے یا عقیدے کے مطابق وہ قطعاَ آئین کو نہیں مانتے اور نہ ہی وہ جمہوری نظام کے چاہنے والے ہیں، وہ طالبان کے ایجنڈا کے بھی حامی ہیں اور ان کے طریقہ کار کو بھی درست مانتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔  میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اور آپ بھی اس کی تصدیق ان کے کسی عام سے پیروکار کے ساتھ کسی غیر رسمی انداز میں گفتگو کر کے کر سکتے ہیں۔ مولانا جس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں اس کے مطابق وہ دیگر عقائد کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں شاید یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں جو کہ کسی سے ڈھکی چھپی ہو اور اگر بالفرض باقی لوگ نہیں بھی جانتے تو کم از کم “ہم سب” کی ٹیم اس سے لاعلم ہرگز نہ ہو گی۔ ایسی بہت ساری باتیں یا حقائق ہیں جو کہ یہاں پر لکھی جا سکتی ہیں تاہم اس لمبی بحث میں جائے بغیر اپنے کچھ مزید خیالات آپ دوستوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے انٹر ویو کا شائع ہونا اور اس پر استاد محترم جناب وجاہت مسعود صاحب کے خیالات کا اس انداز میں شائع ہونا اس لیے بھی غلط یا نا مناسب ہے کیونکہ ایسا کر کے شاید بڑی سطح پر روشن خیال، ترقی پسند اور مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہوا ہے۔ میرے خیال میں غلط اور درست کے تعین کے حوالے سے کنفیوژن میں کو مزید بڑھا دیا گیا جب کہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں، مذہبی منافرت پھیلانے والوں، فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں اور مذہب کے نام پر مارا ماری اور قتل و غارت کو لے کر پہلے سے بہت زیادہ ابہامات کا شکار ہیں۔ موجودہ وقت میں کہ جب وطنِ عزیز ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ اس میں “ہم سب” کو لوگوں کو پُرامن، خوشحال، اور ایسا پاکستان بنانے کے راستے پر چلنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرنی ہے کہ جہاں ہم سب شہری برابر ہوں اور مذہب و مسلک کے نام پر کسی قسم کی تقسیم یا درجہ بندی نہ ہو، کی بجائے ایک انتہا درجے کی متنازع شخصیت جو کہ پاکستان میں جاری مذہبی کشیدگی کی اہم وجہ ہو کی تعریفیں کرنا ایک انتہائی نقصاندہ اور مایوس کن امر ہے۔

میں ذاتی طور پر مذہب اور عقیدے کے نام پر نفرتوں کے شدید خلاف ہوں لیکن ایسے لوگوں کو جگہ دینے کے بھی سخت خلاف ہوں جو انسانوں میں نفرت اور مارا ماری کے فروغ کا باعث ہوں۔ چاہے ان کے اپنے ہاتھوں کسی ایک انسان کی بھی جان نہ گئی ہو لیکن ان کے نظریات اور عقائد اور ان کی زبانوں سے نکلنے والی نفرت کی آگ میں نہ جانے کتنے معصوم جل کے راکھ ہو گئے ہوں۔

تاہم! اس سب کے باوجود “ہم سب” ان اندھیروں میں ہم سب کے لیے ایک روشنی ہے۔ “ہم سب” ہم سب کی امید ہے۔ اور میرے خیال میں “ہم سب” کو اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے اور مستقبل میں ایسے اقدامات سے پہلے یا اس قسم کے فیصلوں سے پہلے بہت زیادہ مشاورت کرنی چاہیے۔ “ہم سب” کے تمام ستاروں کو میرا سلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).