پاناما کیس کا سبق اور عمران خان کا کردار


پاناما کیس کا فیصلہ اگرچہ ایک طویل انتظار کے بعد سامنے آیا ہے لیکن اس میں کئی مثبت پہلو پنہاں ہیں۔ ایک تو پہلی دفعہ برسر اقتدار وزیر اعظم کی مبینہ کرپشن اور ان کے بچوں کی بے تحاشا دولت کے بارے میں جائز و ناجائز کے سوالات اٹھائے گئے اور دوسری جانب عوامی سطح پر یہ احساس اُجاگر ہوا کہ بدعنوانی سے حاصل ہونے والی ناجائز دولت اب چھپانا ممکن نہیں رہا۔ اس کے علاوہ پاناما کیس کے دوران نواز شریف اور ان کے بچوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے کئی دفعہ متضاد بیانات دینے پڑیں جس سے ان کے موقف کی کمزوری واضح ہوئی اور مخالف فریق کو ان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کا موقع ملا۔

پانامہ کیس میں پانچ ججوں میں سے دو سینئر ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ یقیناً تاریخ کا حصہ ہے۔ دوسرے تین ججوں نے بھی میاں نواز شریف کو کلین چیٹ نہیں دی ہے بلکہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے مزید تفتیش کے لیے مخصوص وقت مقرر کیا ہے۔ اس کیس نے پوری قوم میں بدعنوانی کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا کی ہے۔ تمام سیاست دانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے اگر قومی خزانہ لوٹیں گے تو میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا پہ اس کی تشہیر لازماً ہوگی اور نئی نسل سوشل میڈیا پہ کرپٹ سیاست دانوں سے نفرت کا برملا اظہار کرے گی۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب صحافت پہ مخصوص اور محدود ادارے حاوی تھے اور حکمران طبقے کے لیے انھیں چپ کرانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔

جو لوگ ججوں کے اس فیصلے کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ستر سال سے جاری رہنے والا وطن عزیز کا نظام راتوں رات تبدیل ہوکر پاک اور شفاف بن جائے۔ عدالتیں حکمرانوں، سیاست دانوں اور فوجی آمروں کا بے دردی سے احتساب کریں اور ملک و قوم کا خزانہ لوٹنے اور اسے نقصان پہنچانے والی قوتوں کو زمین بوس کریں لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ہمارا نظامِ مملکت دھیرے دھیرے ہی بہتری کی جانب گامزن ہو گا۔ ہمیں موجودہ نظام کی اصلاح کے حوالے سے کسی ایسے انقلاب کی ضرورت نہیں جس کے نتیجے میں ملک میں مزید ابتری اور انتشار جنم لے اور اچھا برا جو نظام چل رہا ہے، وہ بھی نہ چل سکے۔

سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے حوالے جس جے آئی ٹی کا فیصلہ کیا ہے، اس میں یقیناً نواز شریف اور ان کے بچوں کے حوالے سے بعض سوالات کا جواب ڈھونڈا جائے گا اور اس کے نتیجے میں براسر اقتدار وزیرا عظم کی مبینہ کرپش کے حوالے سے مزید حقائق سامنے آئیں گے جس سے نواز شریف کی اخلاقی حیثیت مزید گر ے گی۔ یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے بطن سے بھی کوئی نہ کوئی بہتری کی ہی راہ نکل آئے گی اور آئندہ کسی بھی حکمران کو بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہوئے کئی بار سوچنا پڑے گا۔

ہم فرض کرلیتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے قابل احترام جج نواز شریف کے حوالے سے متفقہ فیصلہ کرتے کہ انھوں نے بدعنوانی کی ہے اور ان کی دولت اور آمدن کے ذرائع وہ نہیں ہیں جو عدالتِ عالیہ کو بتائے جا رہے ہیں بلکہ اس کے لئے ناجائز اور غیرقانونی طریقے اپنائے گئے ہیں، اس لیے وزیر اعظم صادق اور امین نہیں ہیں اورعدالت انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا اہل نہیں سمجھتی، چناں چہ انھیں اپنا عہدہ چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہیے۔ شاید اس طرح کے فیصلے کے کچھ مہلک مضمرات بھی سامنے آتے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس سے جمہوریت (خواہ لولی لنگڑی ہی سہی) کے تسلسل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی تھا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی روشنی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے نتیجے میں عدالت کے متعین کردہ 13 سوالات کی تحقیقات کے بعد اس کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ امید رکھنی چاہیے کہ تحقیقاتی ٹیم کا فیصلہ شفافیت کی طرف سنجیدہ پیش قدمی کا ہی حامل ہوگا۔

وطن عزیز میں مبینہ بدعنوانیوں میں محض شریف فیملی کا نام سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی کابینہ کے کئی ممتاز وزراء اور سیاست دانوں کے علاوہ کئی بیوروکریٹس کے نام بھی مستقل لیے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض سابق فوجی جرنیلوں پر بھی کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں جن میں سے گیارہ فوجی افسران، جن میں ایک میجر جنرل، پانچ بریگیڈئیر، تین کرنل اور ایک میجر شامل تھا، کو سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے الزامات میں برطرف کردیا تھا اور ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ بدعنوانی کے خلاف مہم صرف نواز شریف کی فیملی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ ان تمام حلقوں اور شخصیتوں کے خلاف مقدمے دائر کرنے چاہئیں جنھوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قوم و ملک کی دولت لوٹی ہے اور عوام کا استحصال کیا ہے۔

پاناما کیس کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ عوام میں اب سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے خلاف ایک شدید ردِ عمل پیدا ہوچکا ہے اور یہ ردِ عمل اور دباؤ سیاست دانوں کو کسی نہ کسی حد تک دفاعی پوزیشن میں لے جائے گا اور ا ن کے لیے کرپشن کے راستوں پر مزید چلنا بتدریج مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سیاست سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے، بجا لیکن انھوں نے شریف فیملی کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے پاناما کیس کے دوران عوام کو شعور و آگہی کی روشنی ضرور دی ہے اور اہل وطن میں سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کے خلاف نفرت اور بیداری کا جذبہ اُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).