ٹک ٹک اور بوم بوم قومیں


شاہد خان آفریدی۔ جب کھیلنے پر آئیں تو ان کی اننگز دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اوسطاً ہر دسویں ون ڈے میں ففٹی بناتے ہیں۔ قوم میں ان سے زیادہ مقبول کوئی دوسرا کرکٹر نہیں ہے۔ ان کی دھواں دھار بیٹنگ کی وجہ سے ان کو بوم بوم آفریدی کہا جاتا ہے۔ ون ڈے میں ان کی ایوریج تئیس ہے اور سٹرائیک ریٹ ایک سو سترہ ہے۔ اور مصباح الحق۔ اوسطاً ہر چوتھے میچ میں ففٹی بناتے ہیں۔ ان کی ایوریج تیتالیس ہے اور سٹرائیک ریٹ تہتر ہے۔ جب آفریدی بیٹنگ کے لے آتے ہیں تو قوم کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں کہ بھیا کچھ دیر وکٹ پر ٹھہر جائیں سہی۔ اور جب مصباح بیٹنگ کے لیے آتے ہیں تو قوم میں سے بہت سوں کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں کہ دوسرے اینڈ پر بھی کوئی ٹھہر جائے سہی۔ نتیجے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آفریدی پر ہار جیت کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی ہے۔ اسے ”ٹلا پلئیر“ سمجھا جاتا ہے کہ ”اگر چل گیا“ تو میچ جیتنے کا کافی امکان ہے۔ اور مصباح سے یہی امید لگائی جاتی ہے کہ جب باقی ساری ٹیم واحد ہندسے کا سکور بنا کر واپس جا رہی ہو تو وہ کھڑا رہے گا اور سکور بنا لے گا۔ باقی دنیا میں مصباح کو تاریخ کے عظیم ترین ٹیسٹ کپتانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اور ہمارے ہاں وہ ایک قابل نفرت ٹک ٹک ہے۔

ان دو کھلاڑیوں کے تقابل میں ہی ہمارا مزاج چھپا ہوا ہے۔ ہمارے لیے پرفارمنس اور نتائج اہم نہیں ہوتے ہیں، بلکہ دھوم دھڑکا اہم ہوتا ہے۔ وہ شخصیات ہمارے لیے اہم ہیں جو ہیجان پیدا کر دیں اور وہ ہمارے نزدیک صفر ہیں جو میانہ روی سے کام لے کر نتائج حاصل کرنے پر توجہ دیں۔ عطا اللہ شاہ بخاری سے بہتر مقرر کسی کو نہیں مانا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ وہ ساری ساری رات تقریر کرتے تھے۔ مجمع سحر زدہ ہو کر ان کی خطابت کو سنتا تھا۔ لیکن یہ پوچھا جاتا کہ شاہ صاحب نے کیا اہم نکات اٹھائے ہیں تو ساری رات کی تقریر میں سے کچھ بھی نہیں نکلتا تھا۔ ہمارے لیے مقرر کی سیادت سے زیادہ اس کی شعلہ بیانی اہم ہوتی ہے۔

لیڈر ہمیں وہ چاہیے جو کہ قوم کو کوئی منطقی لائحہ عمل دینے کی بجائے اپنی تقریر میں مخالف کو سڑکوں پر گھسیٹے، اسے پھانسی پر چڑھا دے اور اس کے سارے مخالف غدار اور کرپٹ قرار پائیں۔ اسی وجہ سے ہم شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں اور منشور کو نہیں کہ ہماری سیاسی جماعت ایک ادارہ نہیں ہوتی ہے، بلکہ ایک شخصیت کا فین کلب ہوتی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ہمیں وہ مسلم لیڈر پسند نہیں ہے جو بہتر نتائج دے رہا ہو، بلکہ وہی پسند ہے جو کہ زبانی بیان میں فلانے کو منہ توڑ جواب دے دے اور ڈھمکانے کو بے عزت کر دے۔ فلم ہمیں مظہر شاہ اور سلطان راہی کی چاہیے ہوتی ہے جس میں بڑھکوں کے علاوہ کچھ اور ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالیں، تو وہ قومیں ہمیشہ تباہ اور بد حال ہوئی ہیں جنہوں نے منطقی استدلال کی بجائے جذباتیت کو اپنا شعار بنایا ہے۔ فوراً آنے والا جذباتی انقلاب تبدیلی نہیں لا پاتا ہے بلکہ حالات کو پہلے سے کہیں زیادہ بدتر کر دیتا ہے۔ فرانس کے خونریز انقلاب کے بعد دوبارہ نیپولین کی بادشاہت آ گئی جس نے کئی برسوں تک فرانسیسیوں کو بے مقصد جنگ و جدل میں مشغول کر دیا۔ ہٹلر کی نازی پارٹی نے قوم کو جذباتی ہیجان میں مبتلا کر کے جیسی تباہی کا سامان کیا، وہ سب کو یاد ہے۔ ایرانی انقلاب کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ چینی جب تک شدت پسند کمیونسٹ انقلابی رہے، تباہ و بد حال رہے۔ جب ڈینگ ژیاؤ پنگ نے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے خاموشی سے ایک دوسرے طویل المدتی معاشی انقلاب پر کام شروع کیا، تو پھر ہی چین ایک سپر پاور بننے کے قابل ہوا اور اب دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہے۔

کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو دیکھ لیں۔ کامیاب وہی ہیں جنہوں نے جذباتیت کو ترک کر کے منطقی انداز میں لائحہ عمل ترتیب دیا۔ اپنے اہداف مرتب کیے۔ اور ان اہداف کے حصول کے لیے منصوبہ سازی کی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارے جذباتی نعرے اور احتجاجی جلوسوں کی توڑ پھوڑ ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی ہے، بلکہ ہمیں اس سے صرف نقصان ہی پہنچے گا۔

ہماری جذباتی قوم شیر کی ایک دن کی زندگی کی قائل ہے اور نتیجے میں دوسرے دن قوم غلام بنی ہوتی ہے۔ منطقی استدلال سے کام لینے والی قوم کا مقولہ ہے کہ ”جو لڑتا ہے اور بھاگ جاتا ہے، وہ اگلے دن واپس پلٹ کر لڑ سکتا ہے۔ لیکن جو جنگ میں مارا جاتا ہے، وہ کبھی بھی دوبارہ لڑنے کے لیے نہیں اٹھ پائے گا“۔ دانشمند اپنے نصاب میں شاہ بروس کی ٹرائی ٹرائی اگین کی تلقین کرتے ہیں اور جذباتی لوگ ایک دن میں ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اور بعد میں دو سو سال کی غلامی کی تاریخ لکھتے ہیں۔

نتیجہ یہی ہے کہ دانشمندی سے حکمت عملی ترتیب دینے والی اور اس پر مستقل مزاجی سے ٹک ٹک لگی رہنے والی قوم آقا ہوتی ہے اور شیر کی ایک دن کی زندگی کو اپنی تقریروں اور تحریروں کا محور بنانے والی بوم بوم قوم ناکام ہو کر گیدڑ کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔

اس بات پر غور کریں کہ اچھے نتائج بہتر ہیں یا وقتی ہیجان۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar