امریکہ کا سب سے طاقتور بم افغانستان میں کتنا کارگر ثابت ہوا؟


رواں ماہ کی 13 تاریخ کو امریکہ نے مشرقی افغانستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے زیرِ استعمال سرنگوں کے نیٹ ورک پر اپنا سب سے طاقتور غیر جوہری بم گرایا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس بم کو میدانِ جنگ میں استعمال کیا گیا۔ یہ بم کتنا موثر ثابت ہوا ہے اسے دیکھنے کے لیے حال ہی میں بی بی سی کے نامہ نگار اولیا اطرافی نے اس علاقے کا دورہ کیا۔

وادی مومند قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ ہے۔ اس پہاڑی علاقے میں افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر واقع ’سفید پہاڑ‘ کہلانے والا پہاڑ کافی نمایاں ہے۔

جب میں نے اس علاقے کا دورہ کیا تو اس وقت بھی میں آسمان پر امریکی جہازوں کو چکر لگاتے دیکھ سکتا تھا۔ ان میں سے کچھ اس وقت بھی مختلف اہداف پر بمباری کر رہے تھے۔
وہاں موجود ایک نوجوان افغان فوجی نے مجھے اشارے سے بتایا کہ ’بموں کی ماں‘ کہلانے والا یہ امریکی بم اس جگہ گرایا گیا تھا۔

میرا خیال تھا کہ اس بم نے علاقے میں موجود شدت پسندوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا ہوگا یا وہ تتربتر ہو گئے ہوں گے۔

اس حوالے سے ایک افغان افسر نے میری تصحیح کرتے ہوئے کہا ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بم اتنا طاقتور نہیں تھا جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ جہاں یہ بم گرا تھا اس سے سو گز کے فاصلے پر ابھی بھی سر سبز درخت صحیح سلامت کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘

اگرچہ یہ بم بہت سے شدت پسندوں کی موت کی وجہ بنا لیکن مرنے والوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

اس علاقے کے گورنر کے مطابق کم از کم 90 شدت پسند مارے گئے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ کتنے شدت پسند مارے گئے حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

افغان افسر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’دولت اسلامیہ کہیں نہیں گئی، امریکیوں نے جس طرح کے غار کو نشانہ بنایا ہے اس طرح کی کئی سو غاریں علاقے میں موجود ہیں۔ اس طرح ان کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

اس پہاڑی علاقے میں جنگ جاری تھی اور وادی سے بمباری کا دھواں اٹھتا دیکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں دولتِ اسلامیہ کو جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پولیس کے ضلعی سربراہ میجر خیر نے ہمیں شدت پسندوں کی لاشوں کی تصاویر دکھائیں۔ ان کے لمبے بال اور داڑھیاں تھیں۔

میجر خیر نے بتایا کہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے آپریشنز کے دوران ان کے قبضے سے ملنے والے ٹیلی فون نمبروں کی فہرست بھی دکھائی۔ اس فہرست میں کچھ نام دیکھنے میں عرب یا پاکستانی لگ رہے تھے۔

میجر کے اس دعوے کی ایک مقامی شخص حکیم مومند نے بھی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شدت پسندوں میں ازبک، تاجک، عرب اور کنڑ صوبے کے وہابی بھی شامل ہیں۔ ان کے پاس اب بھاگنے کے لیے راستہ نہیں ہے، بہتر یہی ہو گا کہ جن غاروں میں وہ چھپے ہوئے ہیں انھی غاروں میں ان کو دفنا دیا جائے۔‘

طالبان کے مختلف علاقوں میں بہت سے حامی موجود ہیں لیکن اس کے برعکس دولتِ اسلامیہ سے مقامی لوگ ناخوش نظر آتے ہیں۔

محاذِ جنگ سے تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔ عورتوں کو پانی کے گھڑے اٹھائے، بچوں کو کرکٹ کھیلتے اور لوگوں کو اپنے معمولاتِ زندگی سرانجام دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم لوگوں میں بے چینی بھی محسوس کی جا سکتی تھی۔

ایک مقامی شخص خالد نے مجھ سے کہا کہ ’امریکہ بم گرا کر دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو رہا ہے۔ یہ بم ویسا نہیں تھا جیسا ذرائع ابلاغ میں دکھایا گیا۔ اس بم نے کچھ بھی نہیں کیا۔‘

میں نے ان سے پوچھا کیا دولتِ اسلامیہ واپس آ جائے گی؟

’جی بالکل جونہی حکومت اس علاقے سے جائے گی، مقامی لوگ دولتِ اسلامیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت یہاں مستقل اڈے بنائے گی اور ہماری مدد کرے گی تو ہمیں خوشی ہو گی۔‘
ایک اور مقامی شخص کا کہنا تھا کہ ’امریکیوں کو اس سے بھی بڑا بم گرانا چاہیے، یہ تو چھوٹا بم تھا۔‘

مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران سرحدی پولیس فورس کے ایک جوان نے بلند آواز میں کہا کہ دولتِ اسلامیہ کا تب ہی خاتمہ ہو سکتا ہے جب صدر ٹرمپ کا عزم بھی اتنا ہی مضبوط ہو جتنا دولتِ اسلامیہ کا ہے۔

پولیس جوان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم جتنے شدت پسند مارتے ہیں، سرحد کے اس پار پاکستان سے اس سے بھی زیادہ تعداد میں مزید شدت پسند آ جاتے ہیں۔‘
اگلے روز ہم جب دوبارہ اس علاقے میں گئے وہاں لڑائی رک چکی تھی۔
ہمارے پوچھنے پر افغان فوجی اہلکار ہمیں وہ مقام دکھانے پر رضامند ہو گئے جہاں یہ بم گرایا گیا تھا۔

ہمارے ساتھ جانے والے فوجی کمانڈر حاجی بیگ نے ہمیں پہلے وہ جگہ دکھائی جہاں دولتِ اسلامیہ نے کمانڈ ہیڈ کوارٹر بنا رکھا تھا۔
اس چھوٹی سی غار میں تقریباً دس بندوں کی گنجائش ہوگی۔ یہ غار پتھر کاٹ کر بنائی گئی تھی اور دیکھنے میں انتہائی مضبوط نظر آرہی تھی۔

اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ان پہاڑوں میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کو ڈھونڈنے اور ان کے خاتمے میں اتنی مشکل کیوں پیش آئی۔
اس غار میں قیدیوں کو بند کرنے کے لیے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے پنجرے بھی دیکھے جا سکتے تھے۔

حاجی بیگ کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے ان غاروں کو نشانہ بنانا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ ان کے بقول مختلف ادوار میں مختلف شدت پسند گروہ یہ غاریں استعمال کرتے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں یہاں سے تقریباً 20 لاشیں ملی تھیں۔ غاروں کا یہ سلسلہ اب تباہ کر دیا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ زیادہ تر مرنے والے انھیں غاروں میں دفن ہوں۔‘
جب ہم اس مقام پر پہنچے جہاں یہ بم گرا تھا تو اس وقت بھی امریکی جہاز علاقے میں پروازیں کر رہے تھے۔

ہمیں عین اس جگہ پر قدم رکھنے کی اجازت تو نہ ملی جہاں یہ بم گرا تھا لیکن ہم اتنے قریب تھے کہ سب کچھ واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔
اس بم کی وجہ سے ہونے والا نقصان غیر متاثرکن تھا۔ زمین میں کوئی بڑا گڑھا بھی نہیں پڑا تھا۔ کچھ جلے ہوئے درختوں کے ساتھ کچھ تباہ شدہ کمرے نظر آ رہے تھے۔
جس جگہ یہ بم گرایا گیا تھا اس سے کچھ فاصلے پر ابھی بھی گھر محفوظ حالت میں تھے اور اس کے ساتھ سرسبز درخت بھی محفوظ کھڑے دیکھے جا سکتے تھے۔

پہاڑی علاقہ ہماری جیپ کے لیے بپی دشوار ازار تھا۔ اور ہم جیسے ہی اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں امریکہ نے بھاری بھرکم بم گرایا تھا اسی وقت ہم سے 200 میٹر دور ایک راکٹ آ کر گرا۔
ہمارے گائیڈ نے آگے نہ جانے کا فیصلہ کیا اور ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔

جب ہم وادی سے واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو اس وقت بھی بمباری کا سلسلہ جاری تھا۔

یہ واضح تھا کہ 13 اپریل کو جو بم گرایا گیا تھا وہ دولتِ اسلامیہ کا علاقے سے مکمل خاتمے میں ناکام رہا اور مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ ابھی یہ جنگ جاری رہے گی۔
میرے لیے یہ بات واضح ہے کہ ’بموں کی ماں‘ کہلانے والا یہ بم اپنے نام کی لاج رکھنے میں ناکام رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp