اب نہ مریم ہوا کرے کوئی


مریم بیٹا! قصور تمہارے والدین کا ہے۔ اور کچھ تمہارا بھی۔

بیٹا! ٹھیک ہے تمہارا ابھی کوئی مذہب اور عقیدہ نہیں تھا لیکن تمہارے والدین کا تو تھا ناں! اب یہ نہ کہہ دینا کہ ایمان ایک ذاتی معاملہ ہے۔ نہیں بیٹا! ایسا کافروں کے دیس میں ہوتا ہو گا۔ ہمارے ہاں تو دوسروں کا عقیدہ بھی ہمارا ہی مسئلہ ہے۔ تمہیں پتہ ہے تمہارے والدین کیا کرتے تھے؟ مصائبِ آلِؑ محمدؐ پر گریہ کیا کرتے تھے۔ ماتم داری بھی کرتے تھے۔ عزاداری امام حسینؑ کی وجہ سے ہی تو جماعت الاحرار والے انہیں ”اسلام کے بد ترین دُشمن“ کہتے ہیں۔

بیٹا تم آج ہمارے درمیان ہوتی اگر تمہارے والدین ہی پاڑہ چنار میں رہنے کی ضد چھوڑ دیتے۔

بیٹا تمہارے اس دُنیا میں آنے سے پہلے کے سانحوں کو نہ بھی یاد کریں تو جنوری تو ابھی کل کی بات ہے۔ تب تمہارا سِن تین ماہ کا تھا نا! اس دھماکے میں تمہارے شہر کے پچیس لوگ زندگی کی قید سے چھٹکارا پا گئے تھے۔ نوے کے قریب زخمی یا معذور ہو گئے تھے۔ مارچ کے مہینے میں پھر ایک بار بتایا گیا کہ عقیدہ نہیں چھوڑنا تو پاڑہ چنار چھوڑ دو۔ بیٹا تب بھی زندگی سے رہائی کم و بیش اتنے لوگوں کو ہی ملی تھی، البتہ زخمی کچھ زیادہ ہو گئے تھے۔ تب تم پانچ ماہ کی ہو گئی تھی نا۔ تب آخری موقع تھا تمہارے والدین کے پاس، تمہیں اس دنیا میں رکھنے کا۔ عقیدے پر قائم رہتے، شہر ہی چھوڑ دیتے۔

بیٹا، موقع تمہارے ہاتھ سے بھی نکلا ہے۔ دیکھو تمہاری عمر کے کتنے بچے بیمار رہتے ہیں۔ ! تمہیں چوبیس اپریل کی شام تیز بُخار ہو جاتا یا دست لگ جاتے تو کم از کم تمہاری ماں تمہیں لے کر گھر بیٹھ جاتی اور تم صبح چھے بجے والی وین میں تو نہ ہوتی۔ بیٹا صبح گھر سے روانگی سے قبل تم بلاوجہ رونا بھی تو شروع کر سکتی تھی نا! کچھ تاخیر کروا دیتی۔ تب بھی، کم از کم، تمہیں اگلے دھماکے تک کی مہلت تو مل ہی جاتی۔

مریم بیٹا تم وین میں ماما کی گود میں تھی نا۔ نہیں شاید، بابا کے کندھے سے لگی سو رہی تھی۔ گھڑی ساڑھے چھے کا وقت بتا رہی تھی نا! اور پھر۔

بیٹا جب بابا کی گرفت سے نکلی تو وین کی جلتے دروازے پر تمہارا رخسار لگا تھا؟ بیٹا روؤ نئیں نا! مجھے بتاؤ تو، زیادہ جلن تو نئیں ہوئی تھی؟ پھر سر پتھر پر بھی لگا تھا! اچھا بیٹا، نہ بتاؤ لیکن روؤ بھی نئیں۔

مریم بیٹا! تمہیں اب یہ بھی شکوہ ہے کہ تمہارا مرثیہ کوئی نہیں لکھ رہا؟ اچھا، میں تمہیں وجہ بتا دیتا ہوں۔ دیکھو، ہم نے مظلوم بانٹے ہوئے ہیں۔ جب ترقی پسندوں پر جبر ہو گا تب اور لوگ آواز اٹھائیں گے۔ جب مذہبی رجحان رکھنے والے لُٹیں گے تب بَین کی آوازیں اور گھروں سے آئیں گی۔ بیٹا ابھی تم تو کم سِن تھی، لیکن تمہارے والد نے بھی تو کسی ایک طبقے میں پہچان نہیں پیدا کی تھی نا! تو ایسے مغالطے میں کوئی تمہاری آواز کیوں بنے؟ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے تمہاری لاش اٹھائی ہے۔ انہوں نے بھی ٹھیک نہیں کیا۔ وہ تمہیں سیدھا امام بارگاہ کیوں لے کر گئے؟ اگر کسی کو ابہام تھا بھی تو دور ہو گیا کہ تم کس قبیلے سے ہو! اب ایسے اپنی جان کون داؤ پر لگا کے تمہارا نوحہ پڑھتا پھرے؟ اور میڈیا ایسی خبریں تفصیل سے بھی نہیں دیتا۔ اور واقعے کی کوئی ویڈیو بھی تو نہیں تھی۔ یہ جو میں لکھ رہا ہوں، مجھے بھی برادرم ریاض علی طوری نے بتایا ہے۔ جب بھی تم لوگوں پر کربلا گذرتی ہے نا! وہی سب کو بتاتا ہے۔ بیٹا ایک بار سوچو، اگر یہ بھائی بھی تمہاری طرح کسی دشت نینوا میں کام آگیا تو پھر پاڑہ چنار کی مریم کی خبر کون دیا کرے گا! اور حسنِ ظن رکھتے ہوتے ہیں بیٹا۔ ابھی مشال بھائی کی قبر کی مٹی بھی تو گیلی ہے۔ ابھی اس کا ماتم ہو رہا ہے۔ تم نے بھی تو جاتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کیسے ظلم کا موسم ہے۔ اب یہ لکھنے والے بھی کس کس کا دُکھ روئیں۔ ! یہ کیا؟ تم پھر رونے لگ گئی، بیٹا؟

اچھا، اب رونا نہیں۔ ایک بات اور بھی ہے۔ تم نے جانے کے دِن اچھا انتخاب کیا۔ ستائیس صفر۔ بیٹا اگلے روز، اٹھائیس صفر کو ہی امامِ عالی مقامؑ نے مدینہ چھوڑنا تھا۔ تمہارا سِن چھ ماہ کا ہے نا۔ سکینہؑ بنت الحسینؑ کو علی اصغرؑ کے بعد ساتھ میسر آ جائے گا۔ بیٹا یہ سعادت کوئی کم ہے؟ مریم بیٹا، اب رونا نہیں ہے۔ ٹھیک ہے نا!

بیٹا بات تو کرو۔ مریم۔ ! بیٹا۔ ! مریم بیٹا۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).