شکریہ احسان اللہ احسان، ہم احسان مند ہیں


 جب 2007 میں بینظیر بھٹو مرحومہ واپس آئیں، تو میرے اک دوست اسلام آباد سے کراچی جا پہنچے۔ میں نے انہیں بہت منع کیا کہ مت جاؤ، جیالے تھے، چلے گئے۔ لمبے استقبال کے بعد جب بی بی محترمہ کا فلوٹ، کارساز پہنچا تو دو بم دھماکے ہوئے۔ میرے وہ دوست، ان دونوں بم دھماکوں سے محفوظ رہے، مگر انہی کی زبانی بتاتا ہوں کہ “مبشر، آس پاس خون، کٹے پھٹے انسان، اور بکھرے ہوئے اعضاء تھے۔ مجھے شدید قے کی کیفیت تھی، مگر قے آ نہیں رہی تھی۔ میں گرتا پڑتا، جان بچاتا اپنے ہوٹل پہنچا، تو کمرے میں جا کر معلوم ہوا کہ میرا پیشاب خطا ہو چکا تھا۔ مگر وجود پر کپکپی اور ذہن پر خوف ایسا طاری تھا کہ میں بستر پر گرا، اور بےہوش ہو گیا۔ اگلے دن کہیں دوپہر کے بعد مجھے ہوش آیا تو اپنا آپ سمیٹا۔”

پھر شاید 2008 میں اسلام آباد ضلع کچہری میں بم دھماکہ ہوا۔ یار لوگوں نے کہا کہ ٹرانسفر پھٹ گیا ہے۔ اس دھماکہ میں میرے اک عزیز جاننے والے جو اس وقت کے بڑے شدید جیالے تھے، اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھے۔ میں نے اک صحتمند اور زندگی سے بھرپور انسان کو صرف تین دن کے فرق سے مکمل سے آدھے ہوتے ہوئے دیکھا۔ اپنی تمام تر دلیری کے باوجود، میں جب ان سے چند مرتبہ ملا تو دلیری کے پردے کے پیچھے، مجھے وہ تمام جسمانی و نفسیاتی عوارض سے لڑتا وہ جنگجو نظر آیا، جو باہر سے، اور اندر سے بھی آدھا کٹ چکا تھا۔

16 دسمبر، 2014 کو جب ماؤں کے معصوم، اے پی ایس پشاور میں قتل کر دئیے گئے، میں انہیں شہید نہیں سمجھتا، وہ قتل کیے گئے، وہ قتل کیے گئے، وہ قتل کیے گئے، اور ناحق قتل کیے گئے۔ میں اس وقت 42 سال کا تھا۔ اس درندگی کے اک عجب سے مردنی اور بےبسی طاری کی۔ میں بےاختیار ہوکر اسلام آباد چھوڑ، ملکوال روانہ ہو گیا۔ میری والدہ حیات ہیں۔ میں اگلے تین دن ملکوال میں رہا، اور اپنی والدہ کے پہلو میں ہی سکڑا سوتا رہا۔ 42 سال کی عمر اور زندگی میں سینکڑوں حوادث بھی مجھے اپنی ماں کی کوکھ کی قربت کی جانب کھینچ کر لے گئے اور مجھے وہیں سکون ملا۔ ماں تھی تو اسکے پاس چلا گیا۔ وہ بزرگ ہو گئی ہیں۔ سوچتا ہوں کہ انکے بعد کہاں جایا کرونگا؟ اے پی ایس کے قتل عام میں جن ماؤں نے اپنی گودوں کے لعل مٹی کے حوالے کر ڈالے، انکا سوچ کر اب بھی دل میں ہول اٹھتے ہیں۔

احسان اللہ احسان کے بہت احسان ہیں، پاکستان پر، مجھ جیسے عام شہریوں پر، میری ماں جیسی عام ماؤں پر، میری بیٹیوں جیسی بیٹیوں پر۔ اتنے احسان ہیں کہ انکو عوام کے سامنے اک ٹی وی انٹرویو میں بٹھا کر انہیں شاعر، ادیب اور اعلیٰ کلاکار ثابت کرنا بہت ضروری تھا۔ سوچنے والے “صحافیوں “اور فیصلہ کرنے والے “حساسیوں” کی بزرجمہری اور نوشیروانی تو اک لمبا عرصہ سے سوچنے والے پاکستانیوں سے ڈھکی چھپی نہیں، مگر ماؤں کی کوکھوں میں احسان اللہ احسان کے دمکتے چہرے کی مسکراہٹیں بھر دینا، پیدا کرنے والے کی قسم، برداشت نہ ہوسکا۔ آواز اٹھانی پڑی، اور دیگر بھی کئی سینکڑوں ہزاروں ہونگے، تو جیو نیوز اور حساسیوں سے دلی معافی کہ عامیوں کو محترم کی بجلی گراتی مسکراہٹوں سے محروم ہونا پڑا۔ آپ سرکار “صافی صحافی” اور “بزرجمہر حساسی” اگر برا محسوس نہ کریں تو ڈیڑھ دو سوال چھوڑے جاتا ہوں:

1۔ ٹی وی کی ریٹنگ کی چوہا دوڑ کیا اتنی اہم ٹھہری تھی کہ انٹرویو کیا،اور کوارٹر پیج کا اشتہار بھی دےدیا تاکہ زمین پر رینگنے والی عام عوام فرمودات احسانیہ سے محروم نہ رہ سکے۔ عوام کی نباضی کے دعویدار ہیں، آپ جناب صحافتی ٹولہ والے، اتنی نباضی نہ کر سکے، یا ٹی آر پی، ماؤں کی آہ و بکا سے زیادہ اہم ٹھہرے؟

2۔ حساس سرکار سے ہاتھ باندھ ، اپنے کان پکڑ کر، مرغا بن کر، گزارش یہ کرنا ہے کہ جناب، آپکی قربانیوں کا ہی طفیل ہے کہ پاکستان میں امن و امان کی بہتری محسوس ہوتی ہے، کچھ قدر 2004 سے قتل کر دئیے جانے والوں کی قربانیوں کی بھی اگر کر لیتے تو کیا برا ہوتا؟ احسان اللہ احسان پر اس “صافی احسان” کی کیا حکمت تھی، یہ تو نیلے رنگ کی دھاگے والی کسی فائل میں موجود کوئی سمری ہی بتا سکتی ہے، مگر آقاؤ، اے میرے آقاؤ، اے میرے سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں گریڈ کے آقاؤ، یہ تم کیا ہی کرتے چلے آتے ہو، اور کیا ہی کرتے چلے جاتے ہو؟ یہ کیا بزرجمہری ہے، یہ کیا سیانت ہے، یہ کیا ذہانت ہے، یہ کیا فطانت ہے، یہ کیا حکمت ہے، یہ کیا خدمت ہے، یہ کیا ہے کہ تم جو چاہے کیے چلے جاؤ، اور ہم جیسے وصول کنندہ اپنے ملک میں زندگی کے درجنوں برس گزارتے ہوئے، اس ملک سے محبت کرتے ہوئے اپنے وجود و ذہن کی مسلسل قیمت ہی دیتے چلے جائیں؟

بہرکیف، احسان اللہ احسان کا یہ احسان ہی کافی ہے کہ صافی صحافت اور حساسی ذہانت کی اصلیت کچھ پردے ہٹا کر تو سامنے نظر آئی۔

شکریہ احسان اللہ احسان، بے حد شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).