کیا احسان اللہ احسان اور کیا اس کے انکشافات


فرمایا گیا

جن لوگوں نے احسان اللہ احسان کو نشانے پہ رکھا ہوا ہے، وہ انڈیا اور افغان انٹیلی جنس کے اس کردار پر بات کیوں نہیں کرتے جس انکشاف احسان اللہ احسان نے کیا”

عرض کیا

نہیں، بات یہ نہیں ہے۔ بھارتی اورافغان انٹیلی جنس کا کردار کوئی انکشاف نہیں ہے. یہ تو سامنے کی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کے سرے مگر ہمارے گریبان میں ہیں۔ ہم نے ملاعمر کو افغانستان میں اقتدار سونپا۔ اس اقتدار کی تشکیل میں عوامی رائے کو کوئی دخل نہیں تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ مقامی رائے کا کوئی دخل نہیں تھا۔ ملا عمر کی ایک شوری کابل میں تھی جو پلٹنے جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے میں طاق تھی۔ دوسری شوری کراچی کے ایک دارالافتا میں تھی، جو من کی ہر مراد کو کتاب کے بیچوں بیچ سے ثابت کرنے میں یگانہ تھی۔ دونوں شوراوں کا آسمان راولپنڈی میں کچہری کے دائیں بائیں کہیں سائبان کیے رہتا تھا۔ فلک سے فرمان آتا، دارالافتا ازروئے شرع اس کی توثیق کرتا، طالبان شوری اڑن چھو کا نعرہ لگاتی، معصوم لڑاکے رات کا بچا ہوا آدھا نان کھا کر ہدف پر پل پڑتے۔

طالبان نے اوپر سے آنے والے احکام کے مطابق افغانستان کی ترقی پسند قیادت کا خون کیا. چوک چوراہوں میں انہیں لٹکاتے تھے، ہر آتے جاتے سے اصرار کرتے کہ لاش کو ایک طمانچہ رسید کرے، کئی دنوں تک لاشوں کی بے حرمتی کرتے تھے، پاکستان کے دو روزنامے، دو ہفت روزے اور دو ماہنامے ان رہنماوں کی لاشوں کی تصاویر فتح مبین کے عنوان کے ساتھ شائع کرتے تھے۔

گلبدین حکمت یار، جو منتخب عوامی نمائندے رہے، رفقا سمیت ملک بدر کر دیے گئے۔ رشید دوستم کو اپنے علاقے سے فرار ہونا پڑا۔ صدر ربانی وغیرہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا. احمد شاہ مسعود کو کفار کا ایجنٹ کہہ کر آٹھ برس تک اس کے خلاف جہاد کرتے رہے. یہاں جہاد کا لفظ رواروی میں استعمال نہیں کیا گیا۔ اسی عنوان کے تحت پنج شیر کے مسلمانوں پر طالبان حملے کرتے رہے۔ احمد شاہ مسعود واحد لیڈر تھا جس نے آخری لمحے تک طالبان کے خلاف، بالفاظِ دیگر خارجی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی۔ کراچی کا ایک ہفت روزہ ہر جمعرات کی شام ملا عمر کا خواب شائع کرتا کہ نبی پاکؐ نے بشارت دی ہے کہ ایک ماہ میں احمد شاہ مسعود پسپا ہوجائے گا اور پنج شیر فتح ہوجائے گا۔ پنج شیر تو فتح نہ ہوا، کابل ہاتھ سے نکل گیا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جس طاقت کو معصوم لڑاکوں نے نصرتِ خداوندی سمجھ رکھا تھا، وہ طاقت پیچھے سے ہٹ گئی۔

ایک ملک کی پوری سیاسی مذہبی قیادت اور مشران کی تذلیل ایک غیر معمولی جسارت ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے افغان قوتیں اسلام آباد میں اپنا نمائندہ بٹھائیں،اس نمائندے کو زمین پر خدا کی آخری نشانی قرار دے دیں، پھر وہ نمائندہ بے نظیر بھٹو، نوابزاہدہ نصر اللہ خان، میاں نواز شریف  اورعمران خان کو خدا کا دشمن کہہ کر ملک سے نکال دے۔ ولی خان، میر بخش بزنجو، محمود خان اچکزئی اوراسفندیارولی خان کو سرعام پھانسی دیدے۔ مولانا فضل الرحمن کو ایران اور قاضی حسین احمد کو ترکی میں پناہ لینے پر مجبور کردے۔ پھر اس ساری صورت حال کو قندھار کا کوئی دارالافتا اسلام کی سربلندی سے تعبیر کرے۔ بتلایئے کیسا لگے گا؟

آپ کو علم ہے ہوگا کہ پشاور اسکول سانحے کے اگلے روز جب راحیل شریف تیز رفتار دورے پر افغان صدر اشرف غنی کے پاس ملا فضل اللہ کی حوالگی مطالبہ لے کر گئے تھے تو انہوں نے سفارتی زبان میں کیا جواب دیا تھا؟ ان کے کہے کا مطلب یہ تھا کہ “یوں تو ہمارے بھی بہت سارے مقروض آپ کی سرزمین پہ بیٹھے ہیں کیا ہم ان کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟”

بات یہ ہے کہ افغان انٹیلی جنس کو ہم نے مداخلت کا باقاعدہ جواز فراہم کیا ہوا ہے. جب آپ کسی کو مظلوم بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپنا مقدمہ کمزور کردیتے ہیں۔  ہم چونکہ اپنے تناظر میں اس کو دیکھتے ہیں تو معمولی بات لگتی ہے. لیکن کچھ دیر کے لیے آپ افغان شہری بن کر دیکھیے تو آپ کو اول قیامت کی گھٹن محسوس ہوگی پھر رفتہ رفتہ خطے میں اپنی تنہائی کے اسباب سمجھ آنا شروع ہوجائیں گے۔ یعنی کبھی فرصت کے لمحوں میں آپ غور کیجیے گا کہ اس وقت افغانستان کی سیاسی قیادت ہی نہیں، مذہبی قیادت تک بھی ہندوستان کو پاکستان پر ترجیح کیوں دیتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم شبرغان کے نان بائی تک کے دل میں اپنی محبت کا بیج بنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ محتاط سے محتاط الفاظ میں بھی یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ نتائج سامنے آنے کے بعد ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے افغان قوم کو احسان فراموش نسل کہہ کر انہیں مزید مشتعل کرتے ہیں۔ اچھا احسان فراموشی کا طعنہ بھی کس بات پر؟ اس بات پر کہ افغان قوم ہم سے سوال کرتی ہے کہ ہمیں ہجرت کا داغ کیوں دیا؟ حالانکہ انہیں ہمارا احسان ماننا چاہیئے کہ ہم نے اپنی سرزمین پر انہیں مہاجر کیمپوں میں رہنے دیا۔ کیا کہنے بھئی کیا ہی کہنے۔

اب احسان اللہ احسان پر آیئے۔ انکشافات؟ ارے چھوڑیے صاحب، احسان اللہ احسان کیا اوراس کے انکشافات کیا۔ احسان اللہ احسان جیسے بہکائے ہووں سے تو ہمیں ہمدردی ہے۔ یہاں اختلاف نقطہ نظر کا آن پڑا ہے، جس میں احسان اللہ احسان بس علامت کے طور پر زیر بحث ہے۔ ورنہ احسان اللہ احسان سے تو مکالمہ نہیں ہوسکتا۔ اب منہ احسان اللہ احسان کا ہے تو نام بھی اسی غریب کا لیا جائے گا۔ یہ غلط بھی نہیں ہے۔ اداکار کا کردار ڈائریکٹر کی صلاحیتوں کا عکس ہوتا ہے۔ انڈیا پاکستان میں مداخلت کررہا ہے، یعنی یہ انکشاف ہے؟ بات پتہ ہے کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ احسان اللہ احسان کے ذریعے ہمیں یہ باور کروایا جارہا ہے کہ قتل وغارت گری کے پیچھے انڈیا نہ ہو تو قتل وغارت گری نہیں ہوسکتی. بتلایئے، اب اتنے سستے میں بھلا کوئی کیسے کسی کی جان چھوڑ دے؟ آج نہیں تو کل ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس ملک میں ہونے والی خونریزی ہو یا پڑوسیوں کی کیاریوں میں بوئے ہوئے نفرت کے بیج، سیاسی عدم استحکام ہو یا سرحدوں پرتناو، صالح اورغیر صالح کی تقسیم کرکے فروغ دی جانے والی شدت پسندی ہو یا عقیدے کی بنیاد پر شہریوں کے بیچ تشکیل دیا جانے والا امتیازی رویہ، اس سب کے پیچھے وہ پرائیوٹ جہادی بیانیہ ہے جو بہت محنت سے ہم نے خود تخلیق کیا ہے۔

بات سنیے، احسان اللہ احسان کی یہ مہمان نوازی اگر سول قیادت کررہی ہوتی تو؟ اب تک سماجی ذرائع ابلاغ کے پراسرار گوشوں سے سول قیادت کے شجرہائے نسب میں مودی کا نام ٹانک نہ دیا گیا ہوتا؟ ظاہر ہے۔ اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ مگر تم غور نہیں کرتے۔

28 اپریل 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).