چاند بھی بک گیا!


چندا ماما دور کے، بڑے پکائیں بور کے۔ یہ سنتے سنتے تھوڑی عمر گزاری اور میٹھا برس لگا تو معلوم ہوا کہ چندا ماما اب دور نہیں رہے۔ پھر وہ ایک بڑھیا ہوا کرتی تھی جو چاند پر بیٹھے چرخہ کاتتی تھی، گرمیوں کی راتوں میں چارپائی پر لیٹے لیٹے دادی اچانک ہاتھ سے اشارہ کرتیں، وہ دیکھو، وہ بڑھیا چرخہ چلا رہی ہے، اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے نیند آ جاتی۔ صبح جب چھ سات بجتے تو سورج ادھر ادھر سے جھانک کر کسی نہ کسی طرح اٹھا ہی دیتا۔ بڑھیا اور چندا ماما اگلی رات تک یاد نہ آتے۔

وقت تھوڑا مزید آگے بڑھا تو چاند کی باقی اہمیتوں کا احساس ہوا۔ چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، اس قسم کے گانے ان دنوں کانوں میں پڑتے رہتے تھے، معلوم ہوا کہ چاند جو ہے اس کا رومانوی ہالہ بھی خاصا وسیع ہے بلکہ ابا کی کیسیٹوں میں اچھا خاصا پایا جاتا ہے۔ فلموں اور ڈراموں میں دیکھا کہ اچھا بھلا آدمی چاند کو دیکھتے ہی شاعر بن جاتا ہے یا مجنوں کی طرح سے اسے کچھ ہونے لگتا ہے۔ کچھ اور نہ بھی ہو تو ایک آدھا گانا ضرور گا لیتا ہے۔ کتابوں سے شناسائی ہوئی تو علم ہوا کہ ایک ناصر کاظمی ہوا کرتے تھے، اور کیسے عمدہ ہوتے تھے، چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں / جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا، کون دوسرا شاعر ایسا ایک شعر لا سکتا ہے؟ تو وہ جو رات کا رومانس تھا اور جو چاند کی دیوانگی تھی اس کیفیت سے ناصر نے روشناس کرایا۔ رہی سہی کسر منیر نیازی پوری کر گئے، نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیر / میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا۔

چاند نازک دماغوں اور سمندر پر ایک جیسا اثر کرتا ہے۔ دیوانوں کی دیوانگی اور سمندروں کا جوار بھاٹا دونوں چودھویں کی رات اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ یہ بڑی بڑی لہریں آتی ہیں، سمندر میں سر مارتی ہیں اور کبھی سر کے سمندر میں طوفان مچا جاتی ہیں۔ لیونا چاند کو لاطینی زبان میں کہتے ہیں اور لیونے پشتو میں اسے کہتے ہیں جس کا دماغ چل گیا ہو۔ سارا رولا چاند کا ڈالا ہوا ہے، نہ لیونا ہو اور نہ لیونے ہوں، بس ناصر کاظمی ہوں، میر ہوں، منیر نیازی ہوں اور موج ہو۔ اپنے میر تقی میر صاحب تو آفیشلی چاند کے چکر میں خوار ہوئے تھے۔ انہیں کچھ ایسی ذہنی بیماری ہوئی کہ چاند میں انہیں باقاعدہ کسی کی شکل نظر آتی تھی۔ مثنوی خواب و خیال میں لکھا؛ ہوا خبط سے مجھ کو ربط تمام / لگی رہنے وحشت مجھے صبح و شام / نظر آئی اک شکل مہتاب میں / کمی آئی جس سے خور و خواب میں / اگر چند پرتو سے مہ کے ڈروں / ولیکن نظر اس طرف ہی کروں۔

اب تو ایسا ہے کہ یادگار راتوں میں باقاعدہ چاند کی تلاش رہتی ہے لیکن کبھی کبھار مایوسی بھی قدم چومتی ہے۔ بھئی چاند کا اپنا شیڈول ہے اسے کیا خبر کسے کب اس کی ضرورت پڑ جائے۔ دریا ہو یا سمندر ہو، رت ہو، رات ہو، موقع بھی ہو، دستور بھی ہو، گلاب ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو، اچھا بھلا موڈ ہو اور چاند نہ ہو تو باقاعدہ برا سا لگتا ہے۔

گوروں نے جہاں برصغیر پر بہت سے اور ظلم ڈھائے وہیں ایک ستم یہ بھی کیا کہ چاند کا رومانس چھین لیا۔ دو تین لوگ چاند گاڑی پر بیٹھے اور کم بخت باقاعدہ طور پر وہاں جا کے چہل قدمی کر آئے۔ تصویریں بھی کھینچیں، لائیو وڈیو بھی دکھائی اور بچوں کے بچپن کا کھلونا دور چلا گیا۔ ایک ایسا میدان جو میلوں تک پھیلا ہو اور جہاں ادھر ادھر چھوٹے موٹے پہاڑ ہوں، ٹیلے ہوں، باقی سب ایویں مٹی سی ہو اور جہاں وہ خلا نورد لوگ سلوموشن میں اچھلتے کودتے پھریں وہ چاند اپنا کیسے ہو سکتا ہے۔ چاند پر جاتے ہی پہلے سے تیار کیے گئے بڑے بڑے ڈائیلاگ بولے گئے، چاند پر یہ قدم ایک انسان کے لیے بہت چھوٹا مگر انسانیت کے واسطے بہت بڑا ہے، چاند آدم کے قدموں تلے روندا گیا، عروج آدم خاکی اور مہ کامل ٹائپ مصرعے ان دنوں کے اخباروں نے دہرائے، پھر روس والوں نے یہ پورا واقعہ دہرایا لیکن اس بھیڑ چال سے حاصل کیا ہوا، چاند کی مٹی کے چند نمونے، وہاں کی تھوڑی سی تصویریں، اربوں روپے تیل ہو گئے، معیشت کو زوردار جھٹکا لگا، اور یار لوگ چاند پر چھلانگیں مار آئے، کم آن، گیٹ آ لائف سائنس دانو۔ اور وہ چھوٹا قدم ویسے حقیقت میں کوئی چھوٹا نہیں تھا کشش ثقل کم ہونے کی وجہ سے باقاعدہ چار فٹ کی چھلانگ ان کا پہلا قدم تھا!

بعض خوش عقیدہ آج بھی نہیں مانتے کہ واقعی انسان چاند تک پہنچا، مشرق ہو یا مغرب، دونوں طرف ایسا سوچنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن جو مانتے ہیں ان کے یقین کی سلامتی ہو اور وہ جان لیں کہ چاند باقاعدہ بدبودار بھی ہے، مرے کو ماریں شاہ مدار! نہ صرف خلا میں جانے والوں نے وہاں کا رومانٹک تقدس توڑا بلکہ یہ خبر بھی ان کے ساتھ آئی کہ چاند کی جو مٹی ان کے ہیلمٹ اور خلائی سوٹوں میں رہ گئی تھی اور جو بے چاری چار بلین سال پرانی مٹی تھی، وہ بو دیتی تھی۔ چندا ماما غریب کی باقاعدہ آتما رول دی گئی۔ اس کی بو ایسے تھی جیسے بارود رکھا ہو یا جیسے کسی تازہ بجھے آتش دان میں کوئلوں پر پانی پھینک دیا جائے۔ تو یہ آخری کیل تھا جو نیل آرم سٹرانگ گاڑ گئے۔

چاند کے اس سفر میں ایک دو سین اور بڑے مزیدار ہوئے جو عام طور پر سامنے نہیں آتے۔ جب وہ لوگ چاند پر گھوم پھر کے زمین پر واپس آنے کے لیے چاند گاڑی میں سوار ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک سوئچ جس کا اپالو (چاند گاڑی) کو سٹارٹ کرنے میں بہت اہم کردار تھا، وہ ٹوٹا ہوا ہے۔ ایک دم گڑبڑ ہو گئی۔ زمین سے رابطہ کیا، انہوں نے کہا کہ آپ آرام کیجے اور سونے کی کوشش کریں، ہم لوگ کوئی جوڑ توڑ کرتے ہیں۔ سولی پر نیند شاید آتی ہو، چاند پر کیسے آئے، اور وہ بھی تب جب واپسی کا آسرا ہی چھن رہا ہو۔ اچانک تینوں میں سے ایک کو غصہ آیا اور اس نے سوئچ والی جگہ میں پین اڑا کر اس کو آن کرنے کی کوشش کی، کمال یہ ہوا کہ وہ آن ہو بھی گیا اور یہ لوگ واپس پہنچ گئے۔ اب واپس آئے تو انہیں ائیر پورٹ پر کسٹم والوں نے روک لیا، کسٹم والا کہیں بھی ہو، ہوتا کاکا سپاہی ہے، کہا ہو گا کہ بھئی چاند سے آئے تھے، علاقہ غیر تھا، تو روک لیا۔ ان تینوں نے کسٹم کے فارم بھرے، اوپر لکھا کہ چاند سے کچھ مٹی روڑے کنکر وغیرہ لائے ہیں تب جا کر خلاصی ہوئی۔ تو چاند پر جانے کی یہ ایک سزا تو بہرحال انہیں ملی کہ واپسی کا راستہ بند ہوا اور طبیعت یاروں کی صاف ہوئی۔ چاند کی مٹی اور خراب کرو ظالم لوگو!

میر، منیر اور ناصر کے چاند، دادی کے چاند، بڑھیا کے چاند اور بچپن کے چندا ماما سے ایک اور ہاتھ ابھی آج کل ہی میں ہوا جب باقاعدہ اس کا ایک پرانا ٹکڑا (شہابیہ) بیچنے کے لیے مارکیٹ میں رکھ دیا گیا۔ غضب خدا کا، کہاں شاکر علی چاند پینٹ کرنے کی بات کرتے تھے کہاں یہ گورے باقاعدہ چاند فروخت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چھوٹے سے، صرف ساڑھے چار انچ چوڑے اس ٹکڑے کی شامت آ گئی کہ یہ کہیں صحارا وغیرہ کے ریگستانوں سے نکلا اور سائنسدانوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ تارے توڑنے کی باتیں، وہ سالم چاند لا کر دینے کے وعدے سبھی کے سب ان سرمایہ داروں نے فنا کر دئیے، رومانٹک وعدوں کا آسرا ہی چھین لیا۔ محض چند لاکھ میں یہ چاند کا یہ ٹکڑا کوئی بدذوق کاروباری انسان خرید کر لے جائے گا اور اپنے ڈرائنگ روم میں دیوار برلن کے ٹکڑوں یا شکار کیے جانوروں کے حنوط سروں کے آس پاس کہیں فریم کر کے اسے بھی رکھ دے گا۔ دل والے پکارتے رہ جائیں گے، ’بک‘ گیا چاند، گئی رات، چلو سو جائیں۔
(بشکریہ؛ روزنامہ دنیا)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain