جرمنی میں خواتین سرکاری ملازمین کے نقاب پہننے پر پابندی


جرمنی کے ایوانِ زیریں میں منظور کیے جانے والے ایک بل کے تحت اب سرکاری ملازم خواتین پر دورانِ ملازمت چہرے کا مکمل نقاب پہننے پر پابندی ہوگی۔

یہ مجوزہ قانون اب ایوانِ بالا میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

جرمنی کے وزیرِ داخلہ تھوماس دی مےئیزیر کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے یہ واصخ ہو جائے گا کہ جرمنی میں دیگر ثقافتوں کے لیے رواداری کس حد تک جائے گی۔

یاد رہے کہ جرمن چانسلر نے دسمبر میں کہا تھا کہ جہاں قانونی طور پر ممکن ہو سکے وہاں پر چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی لگا دی جائے۔
تاہم جرمنی اور ہمسایہ ملک فرانس میں دائیں بازو کی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ عوامی مقامات پر نقاب پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔

جرمنی میں حکام پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نقاب پہننے پر مکمل پابندی جرمن آئین کے خلاف ہے، اس لیے مکمل پابندی کے لیے کوشش نہیں کی جائے گی۔

گذشتہ دو سالوں میں لاکھوں مہاجرین مشرقِ وسطیٰ سے جرمنی منتقل ہوئے ہیں جن میں سے بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔

خیال رہے کہ یورپ کے دیگر ممالک میں بھی خواتین کے نقاب پہننے کے حوالے خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے اور کچھ حلقوں میں اسے مسلمان خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

فرانس، آسٹریا، بیلجیئم، اور ترکی میں پہلے ہی چند خصوصی مقامات پر نقاب پہننے پر پابندی ہے۔ ہالینڈ میں بھی اس سلسلے میں قانون سازی جاری ہے جبکہ ڈینمارک، روس، سپین اور سوئٹزرلینڈ میں مقامی سطحوں پر ایسے قوانین موجود ہیں۔

تاہم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ نقاب پہننے کے حوالے سے قانون سازی بھی خواتین کے حقوق پر ریاست کی جانب سے ایسی ہی ضرب ہے جیسے کہ انھیں نقاب پہننے پر مردوں کی جانب سے مجبور کیا جانا۔ تنظیموں کی رائے ہے کہ اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرنے کا حق صرف خواتین کو خود ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).