کیا آپ مولوی کو نماز پڑھنا سکھائیں گے؟


وطن عزیز میں کالم نگاروں اور بلاگرز کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ کالموں اور بلاگز کا ایک طوفان روزانہ ہمارے اسمارٹ فونز سے ٹکراتا ہے۔ سب پڑھنا ممکن نہیں۔ پھر کیا کریں؟ فیس بک اپنی مرضی سے جو نیوزفیڈ ہمیں دکھائے، وہ دیکھتے رہیں؟ یا یہ فیصلہ ہم خود کریں؟
کم از کم تین طرح کے رائٹرز ہمیں دستیاب ہیں۔ ایک وہ ہیں جو پیشہ ور صحافی ہیں۔ یہ رپورٹنگ کرچکے ہیں اور باخبر حلقوں سے ان کے تعلقات برقرار ہیں۔ چونکہ ان کا رتبہ رپورٹر اور نامہ نگار سے بلند ہوچکا ہے اس لیے اب یہ کالم نگار ہیں۔ یہ اپنی تحریر میں کوئی نہ کوئی ایکسکلوسیو خبر دیتے ہیں۔ یہی ان کی انفرادیت ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ تجزیہ کار بھی ہوں۔
دوسری طرح کے لکھنے والے وہ ہیں جن کے پاس کوئی ایکسکلوسیو خبر نہیں ہوتی۔ یہ چھپی ہوئی اور نشر کردہ خبروں پر تبصرے کرتے ہیں۔ ان میں سے بعضے اچھی زبان لکھتے ہیں۔ کوئی مزاح سے کام چلاتا ہے۔ کوئی اپنی یادداشتیں لکھتا ہے۔ کوئی اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔ کوئی اپنی کسی ممدوح کی تعریف کرتا ہے۔ کوئی عوامی مسئلے کی نشاندہی کردیتا ہے۔ ان کا بھی تجزیہ کار ہونا ضروری نہیں۔
تیسری طرح کے ماہرین وہ ہیں جو دراصل تجزیہ کار ہیں۔ وہ خبر، اس کے پس منظر اور حقائق کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پھر کوئی نتیجہ نکالتے ہیں۔ لکھنے والا جس فکر کا مقلد ہوتا ہے، وہ اس کی تحریر میں جھلکتی ہے۔ آپ اس فکر سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن تحریر کو پڑھ کر آپ کا شعور بلند ہوتا ہے۔ آپ خود تجزیہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
ایک چوتھی قسم بھی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیشہ ور صحافی نہیں، جن کے پاس کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ان کی تحریر میں کوئی خوبی بھی نہیں ہوتی۔ ان کے پاس تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی۔ لیکن انھیں لکھنے کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی بے شمار خوبیاں ہیں لیکن ایک خامی یہ ہے کہ اس نے سوچنے والوں اور بلا سوچے بولنے والوں کو ایک جیسے مواقع دے دیے ہیں۔ مبشر علی زیدی جیسا ہر وہ جاہل، جسے اسپیس مل جائے، الٹی سیدھی ہانکنے لگتا ہے۔
اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو پہلے یہ سوچیں کہ آپ کے پاس لکھنے کے کیا منفرد شے ہے؟ کوئی خبر ہے؟ کوئی کہانی ہے؟ کوئی یادداشت ہے؟ کوئی مزے کی بات ہے؟ کوئی سوچنے پر مجبور کردینے والا نکتہ ہے؟
اگر یہ سب نہیں ہے اور آپ کسی خبر، کسی واقعے، کسی سیاسی ڈویلپمنٹ کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کو تمام حقائق معلوم ہیں؟ کیا آپ اس کے پس منظر سے اچھی طرح واقف ہیں؟ اور کیا آپ تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے تجزیے اور فٹ پاتھ پر بیٹھے چھابڑی فروش کی گفتگو میں کوئی فرق ہے؟ یا نہیں ہے؟
رضا علی عابدی، غازی صلاح الدین، وجاہت مسعود، ایاز امیر، یاسر پیرزادہ، علی سجاد شاہ، مطیع اللہ جان، عامر ہاشم خاکوانی، رعایت اللہ فاروقی، نذیر ناجی، نصرت جاوید، سہیل وڑائچ، یہ سب الگ الگ فکر کے کالم نگار ہیں۔ یہ سب ایک ہی واقعے کا الگ الگ انداز سے تجزیہ کرتے ہیں۔ میں ان سب کو پڑھتا ہوں اور کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔
اس وقت مجھے بہت تشویش ہوتی ہے جب وہ بچے، جنھیں ابھی اور پڑھنا چاہیے، وہ مجھ جیسے جاہل کو اخبار میں چھپتا دیکھ کر لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ لکھنا تو ضرور چاہیے، میں ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ہوں، لیکن اپنا لکھنا چاہیے، دوسرے کا رد نہیں لکھنا چاہیے۔
اس کے علاوہ امام مسجد کا وعظ، ذاکر کی مجلس، لبڑوچے کا بلاگ، سیاسی رہنما کا خطاب اور ٹی وی اینکر کا لیکچر سن کر دوسروں کو لیکچر نہیں دینا چاہیے۔ آپ کسی مولوی سے اچھی نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتے۔ آپ کسی ذاکر سے زیادہ رقت آمیز مجلس نہیں پڑھ سکتے۔ آپ کسی مبلغ سے بہتر تبلیغ نہیں کرسکتے۔ بیس سال کی عمر میں ماشا اللہ اسی برس کے رضا علی عابدی جیسا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ آپ سہیل وڑائچ کی طرح پنجاب کے سیاسی خاندانوں کے گھروں میں نہیں جھانک سکتے۔ آپ کورٹ رپورٹنگ میں جوتے گھسنے والے مطیع اللہ جان سے بہتر کسی عدالتی فیصلے پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔
آپ اپنی رائے پیش کرسکتے ہیں، اپنی تجویز دے سکتے ہیں، اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن کیا آپ وجاہت مسعود کو جرنلزم سکھائیں گے؟ واقعی؟

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi