عمران خان الزام تراشی کی بجائے متبادل بن کر دکھائیں


پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر یہ الزام دہرایا ہے کہ انہیں شریف خاندان کی طرف سے پاناما کیس کے بارے میں خاموش رہنے پر دس ارب روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ انہوں نے یہ الزام دو روز قبل پشاور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عائد کیا تھا تاہم اس کے بعد حکمران جماعت سمیت ملک کے تمام سیاسی لیڈروں نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ پیشکش ان تک پہنچانے والے کا نام بتائیں۔ آج اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس شخص کا نام عدالت میں بتائیں گے۔ تاکہ عدالت سے اس شخص کی حفاظت کرنے کی استدعا بھی کرسکیں۔ عمران خان کا یہ رویہ ایک طرف ملک کی سیاست میں الزام تراشی اور چہ میگوئیوں کے فروغ اور بنیادی انسانی و جمہوری اقدار سے انحراف کا سبب بنے گا تو دوسری طرف عمران خان کے بارے میں بھی شبہات کو تقویت ملے گی۔ اگر تحریک انصاف کے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسروں پر الزام تراشی کے ذریعے ان کی ساکھ خراب کررہے ہیں لیکن ان کی اپنی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ ہوگا تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عمران خان کے بارے میں ملک میں پہلے ہی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہے جو ملک میں تبدیلی لانے کے نعرے کی وجہ سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین ساڑھے تین برس عمران خان نے جس طرح صرف حکومت کے خلاف مہم جوئی میں صرف کئے ہیں اور انہوں نے جیسے نواز شریف کے استعفیٰ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر اپنی توانائیاں صرف کی ہیں، اس کی وجہ سے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد یہ بھی سمجھنے لگی ہے کہ ان کا واحد مقصد برسر اقتدار آنا ہے۔

2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے پہلے دھاندلی کے نام پر ایک برس تک احتجاج جاری رکھا اور اسلام آباد میں دھرنا کے ذریعے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ اس مقصد میں انہیں فوج کی حمایت حاصل ہوجائے گی لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران خان کے غیر قانونی طریقہ کی حمایت کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد ان کی امپائر کی انگلی اٹھنے کی خواہش نامکمل ہی رہی۔ وہ نواز شریف کے استعفیٰ تک دھرنا دینے کا اعلان بھی کرتے رہے تھے اور یہ تک کہہ چکے تھے کہ اگر انہیں تنہا بھی دھرنا دینا پڑا تو وہ اکیلے ہی احتجاج جاری رکھیں گے لیکن اپنے مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ تاہم دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد پیدا ہونے والی غیر معمولی صورت حال میں انہیں دھرنا ختم کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا۔ اس دوران انہوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے نواز شریف حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم اپریل 2016 میں پاناما پیپرز میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کے طور پر شریف خاندان کا نام سامنے آنے کے بعد انہیں احتجاج کرنے اور حکومت گرانے کا ایک نادر موقع مل گیا۔ اس حوالے سے 20 اپریل کو سپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ سامنے آنے کے بعد وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب نواز حکومت کا خاتمہ صرف ایک ہاتھ کی دوری پر ہے۔ اس لئے ان کا لب لہجہ شدید اور جارحانہ ہو چکا ہے۔

حکومت کی بے اعتدالیوں اور حکمرانوں کی بد عنوانی کے خلاف احتجاج کرنا اور ان کا احتساب کرنے کا مطالبہ کرنا ہر سیاسی لیڈر بلکہ ملک کے ہر شہری کا حق ہے ۔ لیکن قومی رہنماؤں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ احتجاج کرتے ہوئے دلائل سے کام لیں اور اخلاقی اقدار کا خیال رکھیں۔ عمران خان نے سیاست میں مخالفین کے بارے میں بد کلامی کا چلن عام کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے بارے میں توہین آمیز لہجے میں بات کرکے ان کا اپنا قد اونچا ہوتا ہے۔ یہاں بھی وہ ٹھوکر کھاتے ہیں کیوں کہ جو شخص مخالفین کے بارے میں بات کرتے ہوئے مہذب لب و لہجہ اختیار کرنے سے قاصر رہتا ہے ، لوگ اسے بھی عزت و احترام کا مستحق نہیں سمجھتے۔ لیکن اب مخالفین کے بارے میں بد تہذیبی اور سیاسی الزام تراشی سے بڑھ کر عمران خان نے ایک ایسا الزام عائد کیا ہے جس کے بارے میں ثبوت فراہم کرنا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لیکن تمام سیاسی رہنماؤں کے مطالبہ کے باوجود وہ ثبوت سامنے لانے اور اس شخص کا نام بتانے سے انکار کررہے ہیں کہ کس نے شریف خاندان کی طرف سے انہیں یہ پیشکش پہنچائی تھی کہ اگر وہ پاناما کیس سے دستبردار ہو جائیں تو انہیں دس ارب روپے دئیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری سے بچنے کے لئے اب وہ قانونی تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ شریف خاندان انہیں عدالت میں لے جائے تو وہ وہاں اس شخص کا نام ظاہر کریں گے۔ یہ محض عذر خواہی ہے کیوں کہ ملک میں ہتک عزت کے حوالے سے شاذ و نادر ہی کسی معاملہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ایسے معاملات برس ہا برس تک عدالتوں میں پڑے رہتے ہیں بالآخر دعویٰ کرنے والا یا الزام لگانے والا اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ عمران خان اپنی زبان درازی کی وجہ سے ایسے متعدد مقدمات کا سامنا کررہے ہیں لیکن وہ عدالت سے غیر حاضر رہ کر جوابدہی سے انکار کرتے ہیں۔ مستقبل میں سامنے آنے والے مقدمات میں بھی ان سے مختلف رویہ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

انفرادی ہتک عزت کے معاملات کے علاوہ عمران خان 2014 کے دھرنے کے دوران پی ٹی وی پر حملہ کے الزام میں متعدد فوجداری مقدمات کا سامنا بھی کررہے ہیں۔ وہ ان مقدمات کی پیروی کے لئے عدالت میں حاضر ہو نا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں لیکن وہ ان کی پرواہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ ان کے ساتھی بڑی رعونت سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہم تو یہیں ہیں، کسی میں حوصلہ ہے تو آکر گرفتار کرلے‘ ۔ ملک کی عدالتوں اور عدالتی نظام کے بارے میں یہ طرز عمل اختیار کرنے والے لیڈر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے ملک کے وزیر اعظم کے خلاف انصاف کرنے او ر انہیں ان کے عہدہ سے معزول کرنے کی توقع کررہے ہیں۔ وہ ملک کے نظام میں حکمرانوں کی بالادستی کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ خود اپنے رویہ پر غور کریں کہ انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ صرف لوگوں میں مقبولیت کے بل بوتے پر خود کو عدالتوں اور ملک کے قانون سے بالا سمجھنے لگے ہیں۔ انہیں نہ عدالتوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ پولیس کو خاطر میں لاتے ہیں۔ اس پر ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کو بھی قانون کا پابند کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک کے تمام اہم ادارے حکمرانوں کے اثر سے آزاد ہو جائیں۔ جب اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان خود کسی قانون کے پابند نہیں تو وہ کس طرح یہ توقع کر سکتے ہیں کہ تیس برس تک ملک میں حکومت کرنے والے لوگ آسانی سے نظام پر اپنی گرفت ڈھیلی کردیں گے۔ اس مقصد کے لئے عمران خان اور ان جیسے لیڈروں کو خود بہتر مثال قائم کرنا پڑے گی۔ لیکن ابھی تک تحریک انصاف کے قائد دعوؤں اور اعلانات کے علاوہ کچھ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

شریف خاندان پررشوت کی پیشکش کا الزام عائد کرنے کے بعد اب ثبوت فراہم کرنے کی بجائے عدالت میں اس شخص کا نام بتانے کا اعلان کرنا جس کے ذریعے یہ پیشکش عمران خان تک آئی تھی، دراصل اس دعویٰ سے فرار حاصل کرنے کا بہانہ ہے۔ اگر شریف خاندان یا پنجاب حکومت عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرتے ہیں تو عمران خان اول تو عدالت میں حاضر نہیں ہوں گے ۔ اگر گئے تو اس وقت تک وہ کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ لیں گے۔ ان کا اصل مقصد اس وقت ملک میں نواز شریف کے خلاف موجود بد اعتمادی کی فضا کا زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔ لیکن اس مقصد کے لئے بعض اخلاقی حدود کو پار کرنے سے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت پر بھی عوام کا اعتماد کمزور ہوگا۔ یہ صورت حال ملک میں عوامی طریقہ حکومت کے استحکام کے لئے خوش آئیند نہیں ہے۔

عمران خان سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ اگر اب نواز شریف سے استعفیٰ نہ لے سکے تو بھی عدالت انہیں معزول کردے گی یا پھر وہ آئندہ انتخابات میں ججوں کے ریمارکس کا حوالہ دے کر بہت بڑی کامیابی حاصل کرسکیں گے۔ لیکن معروضی حالات میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف آئیندہ انتخابات میں بھی وہ سونامی لانے میں کامیاب ہو سکے گی جو انہیں بلا شرکت غیرے اقتدار کا حقدار بنا دے۔ اب بھی پنجاب پر مسلم لیگ (ن) کو کافی مقبولیت حاصل ہے اور پاناما کیس سے ہونے والے نقصان کے باوجود وہ اس صوبے سے بڑی کامیابی حاصل کرنے کی امید کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں انتخابی نتائیج پرعمران خان ایک بار پھر شدید مایوسی کا شکار ہوں گے اور دھاندلی کا شور مچا کر خود کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ وہ حقیقت حال سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔ پاناما کیس سے انہوں نے جتنا سیاسی فائدہ اٹھانا تھا وہ اٹھا چکے۔ اب انہیں متبادل سیاسی قیادت کے طور پر خود کو سامنے لانا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے انہیں پارٹی کا ڈھانچہ استوار کرنے اور عوام کے سامنے خود کو بہتر متبادل کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کام الزام تراشی اور سیاسی ہیجان پیدا کرکے حاصل نہیں کر سکتے۔ انہیں زیادہ سنجیدہ سیاسی رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی ان کی اپنی سیاست اور ملک میں جمہوریت کے لئے بہترین راستہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali