ہوم ورک، چورن اور ڈاھڈا وکیل


آپ گاڑی سڑک پر اپنی لین، اور ہوش و حواس، میں چلاتے ہیں۔ ادویات بنانے والے بھی پابند ہیں کہ اگر کسی دوا سے غنودگی طاری ہونے کا امکان ہو تو لیبل پر استعمال کے بعد گاڑی نہ چلانے کی ہدایت کریں۔ ہم سب ایک دوسرے کی جان و مال کا احترام کرتے ہیں۔ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ رات کو ٹیلی ویژن کی آواز آہستہ رکھتے ہیں۔ چھوٹے دکان دار سے لے کر کسی بڑی ملٹی نیشنل تک کوئی ہم سے، کم از کم اعلانیہ، دھوکا نہیں کرسکتا۔ اگر آپ مالک مکان ہیں تو آپ کا کرایہ دار آپ کی پراپرٹی کو معاہدہ کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا۔ اگر آپ کرایہ دار ہیں تو آپ کا مالک مکان آپ کو معاہدے سے ہٹ کر نہیں نکال سکتا۔

معمولی زحمتوں کے حل سے لے کر جان و مال کے تحفظ تک، یہ سب آسانیاں ہمیں کوئی نہ کوئی قانون دیتا ہے۔ ہم قانون کے باقاعدہ طالب علم نہ سہی، اپنے صفر برابر علم کے باوجود قانون اور قانون دانوں سے متاثر ضرور ہیں۔ کوشش کے باوجود قانون کی کتابوں سے کچھ نہ سیکھ سکے۔ یقین کیجیئے، انکساری نہیں حقیقت ہے۔ جو قانون کے بارے میں جانتے ہیں، اس کی ابتداء فکشن یعنی فلموں اور ناولوں سے ہوئی۔ شیکسپیئر کی پورشیا سے تو تقریباً عشق ہو گیا، لیکن وہ شاید ہمارے سِن کا اثر تھا۔ مارٹیمر کے کردار ‘رمپول’ نے بھی محظوظ کیا۔ ٹیلی ویژن شو’باسٹن لیگل’ سے بھی لطف اٹھایا۔

لیکن بات صرف محظوظ ہونے کی نہیں۔ یہ مقدس پیشہ اپنے عمل پیراؤں کی شخصیت پر کچھ خاص اثر کرتا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ہر پیشہ اپنے عامل کی ذات پر اثر چھوڑتا ہے۔ مثلاً اساتذہ آپ کو زیادہ تر حلیم اور شفیق ملیں گے۔ ہمیں وہم ہے کہ بلاگر خودپسند ہو جاتا ہے۔ سیلزمین مکھن کی زبان رکھتا ہے۔ فوجی ریٹائر ہو کر بھی روٹین کا پابند رہتا ہے۔ شادیوں پر سلامیوں کا حساب لکھنے کے لیے کسی بینکر کو چنا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ باتیں جو قانون اور وکلاء میں اچھی اور قابل تقلید دیکھیں، وہ عرض ہیں کہ یقیناً عام زندگی میں قابل عمل ہیں۔

سب سے پہلے قانون کا ایک اصول جو ہمیں لگا کہ ہم سمجھ پائے۔ اسے غالباً Blackstone’s Formulation  کہتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ قانون ایسا ہونا چاہیے کہ بے شک اس کی وجہ سے دس گنہگار بھی چھوٹتے ہوں لیکن اس بات کا ہر گز، ہرگز کوئی امکان نہ رہے کہ کوئی بے گناہ گرفت میں آ جائے۔شاید اسے Benefit of doubt بھی کہ سکتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ آپ کو ہر شائستہ تہذیب اس کی تائید کرتی ملے گی۔ لوگوں کو شک کا فائدہ دیجیئے۔ ایک موقع اور دیجیئے۔ کسی کی خطا کو اس کی بد نیتی نہیں بلکہ اس کی نالائقی پر قیاس کریں۔ دس میں سے نو لوگ آپ کو یقیناً دوبارہ بھی مایوس ہی کریں گے، لیکن جو دسواں ہیرا آپ حاصل کریں گے، وہ انمول ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔

دوسرا، اور آخری اصول جو ہم سمجھ پائے، وہ ہے judicial restraint۔ اگر آپ سزا دینے کا اختیار رکھتے ہیں تو نرمی اختیار کریں۔ Justice, tempered with mercy۔ ثم سبحان اللہ۔ جہاں ہاتھ اٹھا نے پر قادر ہیں، وہاں شیر کی نگاہ سے دیکھنے پر اکتفا کریں۔ جہاں گُھور کر دیکھنا بنتا ہے، وہاں تاسف کی نگاہ برتیں۔ ہم نے تو اپنے ناقص تجربے سے یہ سیکھا کہ اپنی نرمی پر پچھتانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ اپنی سختی پر شرمندہ ہوں۔ آپ کو ہلاکو خان کا کوئی نام لیوا نہ ملے گا۔

قانون کے علاوہ اس شعبہ کے پیشہ ور بھی ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ نعیم بخاری صاحب سے بسم اللہ کرتے ہیں۔ ہمہ جہتی کے اس دیو کو محض وکیل کہنا نا شائستگی ہے۔ نعیم بخاری صاحب سے ہم نے ہوم ورک سیکھا۔ بھر پور تیاری۔ جیسے وکیل حضرات اپنے کیس کی فائل، قانون کی متعلقہ کتب اور اس کیس کی جیسی نظیریں ڈھونڈتے ہیں، ایسا ہی ہوم ورک بخاری صاحب کے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے انٹریوز میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ نظر آتا ہے کہ میزبان اپنے موضوع یعنی مہمان کے بارے میں پڑھ کر آیا ہے۔ اس کے سوالوں کی ترتیب گواہ ہے کہ یہ محض خانہ پُری نہیں، وہ واقعی جاننا چاہتا ہے۔ مہمان خوش قسمت ہے کہ سوال کیے جاتے ہیں، جرح نہیں ہوتی۔ خوش مزاجی اس سب پر ناک آوٹ وار کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہماری دوسری مثال ڈاکٹر بابر اعوان ہیں۔ قانون آپ کو بات کی صحیح تشریح سکھاتا ہے۔ مثلاً ڈاکٹرصاحب کے تفسیر کے پروگرام میں ایک نقطہ سنا، کہ سائل کو جھڑکنا کیوں منع ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے تشریح یوں کی کہ ہو سکتا ہے آپ کی طبیعت سخاوت پر مائل ہو، لیکن اتفاق سے آپ کی جیب اس وقت خالی ہو۔ لہذا آپ کو ہر حالت میں کچھ نہ کچھ لازمی خیرات کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن، نرمی سے گفتگو ہر شخص کے، ہر وقت اختیار میں ہے۔ اس لیے حکم نرمی سے بات کا ہے، خیرات کرنا لازم نہیں۔یہ تشریح ایک قانون دان ہی کرسکتا تھا۔

ہماری تیسری مثال وکلاء کی معاملہ فہمی ہے۔ اصل مدعے کی جانب اشارہ کرنے کی صلاحیت۔ کچھ ماہ قبل کسی امتحانی پرچے میں طلباء سے اپنی بہن کی جسامت بیان کرنے کا فضول سوال آیا۔ کئی دوستوں نے اس بحث پر لبیک کہا اور روشن خیالی کی مثال قائم کرنے کی کوشش کی۔۔ تب ہمارے وکیل دوست انعام رانا نے چورن کو چورن کہنے کا فرض ادا کیا۔ ہمیں بتایا کہ ہمارا زیادہ بڑا مسئلہ یہ سوال نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ججا نامی بدمعاش ایک خواجہ سرا پر وحشیانہ تشدد کیسی آزادی سے کر سکتا ہے۔ نعیم بخاری صاحب نے اپنے مشہورِ زمانہ خط میں لکھا تھا کہ ہم سب وقت کی کوکھ میں زندہ ہیں اور آنے والا وقت ہی فیصلہ کرتا ہے کہ ہم صحیح تھے یا غلط۔ وقت کا فیصلہ انعام کے حق میں ہے۔ خواجہ سرا کو آج تک انصاف ملا یا نہیں، ہم نہیں جانتے۔ ہاں، گزشتہ کل کی شہ سرخی میں لپٹا چورن آج بھی زور و شور سے بک رہا ہے۔ (نہ جانے کیوں بالی وُڈ کی دو اداکاراؤں کا انٹرویو یاد آتا ہے۔ میزبان کرن جوہر نے دونوں مہمانوں سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی ایک اور ساتھی اداکارہ سے بیزار رہتی ہیں۔ دونوں مہمانوں نے جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ وہ اداکارہ دنیا کی ہر چیز پر کوئی نہ کوئی رائے رکھتی بھی ہے اور اس رائے کا اعلان بھی کرتی ہے۔ ہر چھوٹی بڑی بات پر کومنٹ کی یہ عادت کسے بھاتی ہے؟)

حاضر جوابی بھی وکلاء کا خاصہ ہے۔ لائیو پروگرام میں اپنے نام کا بگاڑ ‘اعتراض احسن’ سن کر اگلے ہی لمحے، انگریزی محاورے کے مطابق اسی کرنسی میں حساب برابر کرنا، ایک وکیل ہی کے لیے ممکن تھا۔

سخت گیر والد تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ آخر میں ایک سخت گیر بابا جیسے وکیل کا ذکر، جو ہمیں دنیا کی مشکل ترین وصیت کر گئے ہیں: اتحاد، ایمان، تنظیم۔ آپ ہی بتائیں، اس پر کون عمل کرے؟ کس سے منصفی چاہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).