مشال خان کے بعد سول سوسائٹی کا احتجاج کس کے لئے ہوگا؟


جواں سالہ مشال خان کے بہیمانہ قتل نے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں بسنے والے ہر انسان کے ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔ خوب احتجاج کئے گئے، شمعیں روشن ہوئیں، مذمتی بیان جاری ہوئے اور خلاف توقع عدالتِ عظمٰی نے بھی اس قومی سانحے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سو موٹو ایکشن لے ڈالا۔ کئی سیاسی قائدین بھی صحیح ڈگر پر چلتے نظر آئے اور بے باکی سے توہینِ رسالت کے محض الزام پر ہونے والے اس قتل کو سفاکی کا نام دیا۔ یہ یقیناً ایک غیر روایتی پیش قدمی تھی کہ ایک کثیر تعداد ظلم کے خلاف جابجا کمر بستہ اور ثابت قدم دکھائی دی۔ مگر کیا ایسا پہلی بار ہوا تھا؟ ہر گز نہیں! ایسے کتنے ہی احتجاج اور جزباتی و مذمتی بیان پچھلے کئی سالوں سے یکے بعد دیگرے سننے اور دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ کبھی کمسن ملالہ یوسف زئی پر حملہ، تو کبھی آرمی پبلک اسکول کے نونہالوں پر ظلم و ستم ہونے پر آواز احتجاج بلند ہوئی۔ سبین محمود کے قتل پر بھی شور مچا۔ واحد بلوچ کی جبری گمشدگی پر بھی لوگ متحد دکھائی دئیے اور تو اور لاپتہ کئے جانے والے لکھاریوں کے لئے بھی پاکستان بھر میں چھوٹی چھوٹی تحریکوں نے جنم لیا یہاں تک کہ انہیں آزادی میسر آئی۔

بلوچ اور شیعہ نسل کشی کے واقعات کے فوراً بعد لوگ متحرک نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ جلسے جلوس بھی بدستور برپا کئے جاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ حالات ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، احتجاج بھی کچھ ملتا جلتا ہوتا ہے، نعرے بھی کم و بیش وہی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ کراچی، لاہور اور پنڈی میں احتجاج منعقد کرنے والے اور اس کے شرکاء کے چہرے بھی جانے پہچانے ہوتے ہیں۔ بس درپیش مسئلہ وعنوان الگ ہوتا ہے، احتجاج کے آگے لگا بینر تبدیل ہوجاتا ہے، اس پر لگی تصویر دوسری نظر آنے لگتی ہے۔

عقل دنگ رہتی ہے کہ اسے باہمت لوگوں کی جیت کہا جائے یا چند سر پھروں کی مایوس کن ہار؟ حقیقت اکثر تکلیف دہ حد تک تلخ ہوتی اور اس پر مبنی سچ یہ ہے کہ پاکستان کا معاشرہ مستقل ایک تاریک گڑھے میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر سانحے یہ حادثے کے بعد سڑکوں پر نکل کر آجانا اور نعرے لگا کر گلا خشک کر لینے سے دل میں بھڑکنے والے جزبات کو تو ٹھنڈا کر سلایا جاسکتا ہے مگر ایسا کرنے سے جاری و ساری مظالم کا سدِباب ہرگز ممکن نہیں۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی تو بات ہے کہ چند بلاگرز کے غائب ہوجانے پر ایک ملک گیر تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کا کا نام بہت کچھ سوچ سمجھ لینے کے بعد Recover All Activists رکھا گیا جس کے معنٰی یہ تھے کہ تحریک کا مطالبہ تھا کہ تمام گمشدہ کارکنان خواہ ان کا تعلق کسی سیاسی گروہ سے ہو ان کو بازیاب کروایا جائے۔ خوب احتجاج ہوئے، تصادم بھی دیکھے گئے، سوشل میڈیا میں آہ و فغاں برپا ہوئی لیکن جوں ہی 5 بلاگرز کو چھوڑا گیا، تحریک دھڑام سے زمین پر آگری۔ حالانکہ کلُ غائب ہونے والوں میں سے ایک ثمر عباس اب تک لاپتہ ہیں اور اس سے بدتر خبر یہ کہ چند ہفتوں پہلے ہی ان کے دو سالوں کو بھی جبری طور پر گمشدہ کردیا گیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ سیاسی کارکنان کی ایک بڑی تعداد ہے جو نہ جانے کہاں کہاں کن عقبت خانوں میں پڑی ہے مگر اب اس مسئلے پر لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہر روز احتجاج کرنے کے لئے ایک نیا موضوع جو با آسانی مل جاتا ہے۔ گویا ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر دفعہ ایک قدم آگے بڑھ کر دو قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور ایسا کرنے سے صرف اور صرف ہمارا دشمن ہی کامیاب ہوتا ہے، ہم انسان دوست نہیں!

اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی و ریاستی لاقانونیت کے خلاف ایک ایسی سیاسی منظم تحریک کھڑی کی جائے جو ان تمام مسائل کے خلاف بر سرِ پیکار ہو۔ حادثاتی تحریکوں نے نہ کل کچھ تبدیل کیا تھا نہ اب کر پائیں گی۔ راقم السطور کا ماننا ہے کہ یہ تحریک یا محاذ صرف بائیں بازو کے سیاسی اقدار پر کھڑا کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہی نظریات میں فسطائیت، ریاستی جبر اور مذہبی انتہاپسندی سے لڑنے کی تاریخی قوت دیکھی گئی ہے۔ اگر اب بھی ہم نام نہاد ‘سول سوسائٹی’ والوں نے اپنے طور طریقوں پر غور اور قبلہ درست نہ کیا تو اندھیرا اس خطے کا مقدر بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).