دہشت گردوں سے اتنقام یا عام معافی؟


روس کے ارادے ناکام بنانے کے لیے سی آئی اے کی مدد سے جس ”تحریک“ کو پروان چڑھایا گیا، اس کا نام ”مجاہدین“ تھا۔ امریکا نے دس بلین ڈالر سے لے کر جدید اسلحہ، عالمی برادری کی حمایت، سعودی عرب سے تیل اور ریال تک دلوائے۔ دنیا بھر سے امداد کی صورت آنے والا مال و اسباب پاکستانی لنڈے بازار میں انتہائی سستے داموں بکنے لگا؛ مفت کے اس مال سے کس نے کتنا بنایا، یہ حساب ہی نہیں۔

پاکستان ٹیلے ویژن ”پناہ“ جیسے ڈرامے بنا کے دکھاتا رہا، کہ افغان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہالی وڈ کی فلموں کی بات کی جائے تو کئی فلموں‌ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، ایک فلم میں جان ریمبو افغانستان میں ”جہاد“ کرنے آتا ہے، فیتے پر مجاہدین کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے، ایک منظر میں یہ تک دکھایا جاتا ہے، کہ مجاہدین نے روسی افواج کے سپاہیوں کو گھیر لیا ہے، اور نہایت فراخ دلانہ سلوک کیا۔ یہ تاثر دینا مقصود تھا، کہ روسی افواج ہٹلر ثانی ہیں، چنگیز خانی ہیں اور مجاہدین صبر میں، درگزر کرنے میں ہمالیہ سے بھی بلند مقام پر تشریف فرما ہیں۔ جی جناب، جنگیں آتش و بارود ہی سے نہیں لڑی جاتیں، اس دور میں پروپگنڈا سب سے موثر ہتھیار ہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ جنگیں لڑنے کے لیے سپاہی درکار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے تعاون سے جن مدرسوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ان مدرسوں میں روٹی کپڑا اور چھت کی ضمانت ہی بہت بڑی کشش تھی، مستزاد تعلیم بھی دی جاتی۔ لیجیے انھی مدرسوں میں پڑھنے والے غریب بچے ”مجاہد“ بھی ہوئے۔ غریب کا بال مرنے ہی کے لیے ہوتا ہے، حرام موت مرنے سے اچھا ہے کسی مقصد پر قربان ہو جائے۔

سوویت یونین کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں، امریکا یہ جنگ جیت جاتا ہے، اور اس کا اتحادی پاکستان دشت تنہائی میں‌ آن کھڑا ہے۔ امریکا کو پاکستان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں رہتا، الٹا یہ کہ پاکستان سے شکایات پیدا ہو جاتی ہیں، کہ افغان جنگ کے لیے جو اسلحہ فراہم کیا گیا، وہ زیریں زیریں یا بالا بالا عراق ایران جنگ میں کیوں کر استعمال ہوا؛ خالصتان کی تحریک کو جلا بخشنے کے لیے ہندو پاک سرحد سے آٹا اسمگل کرنے والوں کی بوریوں میں کیسے اسلحہ سکھوں تک پہنچا؛ وغیرہ۔ اوجڑی کیمپ کی تباہی کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے، اس کا پاکستانیوں کو تا پاکستان سلامت کچھ نہیں معلوم ہونا۔ بہ ہر حال پاکستان پر معاشی پابندی کے لیے پریسلر ترمیم منظور ہو جاتی ہے، یہی نہیں امریکیوں کی جانب سے یہاں‌ تک کہا جاتا ہے، کہ پاکستانیوں کو قیمت ملے تو ماں کو بیچ دیں۔

امداد بند ہو جانے کے باعث ایک تو پاکستان کی ”اسٹیبل اکانومی“ کو جھٹکا لگا، تو دوسرا مسئلہ یہ تھا، کہ ”مجاہدین“ نامی ایک فورس بے یار و مددگار ہوگئی۔ جنھوں نے ہوش سنبھالتے کھیل کا میدان نہیں جنگ کا کارزار دیکھا ہو، وہ اب کیا کریں، انھیں کہاں‌ کھپایا جائے۔ اسلحہ تو ان کے ہاتھ میں تھا، اب ان کے پاس راستہ ہی کیا بچا تھا؟ یہ کہ وہ اس اسلحے کے زور پر بسیں، ٹرینیں، بنک لوٹیں، اغوا برائے تاوان کریں، یا پھر کسی غار میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے باقی عمر گزار دیں؟ ایک اور راستہ بھی تھا، اسی کا انتخاب سود مند دکھائی دیا۔ راتوں رات کشمیر کی آزادی کی تحریک میں ابال آ گیا۔ یہ تو ماہرین ہی بتا سکتے ہیں، پھر کیا ہوا کہ ”تحریک طالبان“ تخلیق کی جاتی ہے۔ ہمارے ذمہ داران فخریہ اعلان کرتے رہے کہ طالبان ہمارے بچے ہیں۔ یہاں بھی امریکا ہی کا تعاون دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ سال ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ انھیں ہمی نے بنایا، جو بویا سو کاٹا۔

گیارہ ”ستم بر“ کے بعد عالمی سیاست یک سر پلٹا کھاتی ہے۔ کل کے ہیرو یک دم زیرو قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف جنگ کی جاتی ہے۔ یہ نیا منظر نامہ ہے، اس منظر نامے کا ہدایت کار بھی امریکا بہادر ہی ہے۔ یہاں وہاں ہر جگہ ایسی پروپگنڈا فلمیں تیار ہوتی ہیں، جن میں مسلمان دہشت گرد، طالبان دہشت گرد کی دہائی دی جاتی ہے۔ نیا زمانہ ہے تو ایسی وڈیو وائرل ہوتی ہیں، جن میں دکھایا جاتا ہے کہ گردنیں کاٹی جا رہی ہیں، عورتوں کو ڈنڈوں کوڑوں سے پیٹا جا رہا ہے۔ اس پروپگنڈا مارٹ میں اصلی نقلی ہر طرح کا مال بیچا جاتا ہے۔ گونتانامو بے جیسی جیلیں بنائی جاتی ہیں؛ تواریخ میں پہلی بار سفیر کو گرفتار کرنے کا داغ لیا جاتا ہے۔ ظلم یہ کہ انسانیت کا درس دینے والوں کے سپاہی، جنگی قیدیوں کو کنٹینر میں بند کر کے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، جنھیں ہم آزاد ملک کہتے ہیں، وہاں اپنی ہی حکومت کے خلاف اس بربریت کی مذمت کی جاتی ہے، جب کہ غلام ملک دم سادھے وہی بیانیہ نشر کرتے ہیں، جو آقا نے لکھ کر دیا ہوتا ہے۔

اس سارے عرصے میں شیعہ سنی فساد کا ذکر بھی ہے۔ ایک طرف لشکر جھنگوی ہے، جیش محمد ہے، تو دوسری طرف کا دامن بھی صاف نہیں۔ سپاہ محمد بھی تبلیغ کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ ایک گروہ پہ سعودیہ کی حمایت کے الزامات ہیں، تو دوسرے گروہ پر ایران کی پشت پناہی کا الزام۔ کوئی ایسا نہیں جو کَہ سکے اس کا دامن داغ دار نہیں۔

نوے کی دہائی میں بمبئے (موجودہ ممبئے) کا جو احوال تھا، اس پر ہندستانی فلم نگری نے بہت سی کہانیاں فلمائی ہیں۔ ان میں دکھاتے ہیں کہ محلے کا اوباش کیسے آگے بڑھتا شہر کے سب سے بڑے بدمعاش کا ساتھی بن جاتا ہے، بالآخر اپنے گرو کو ٹھکانے لگا کر شہر بھر کا دادا بن جاتا ہے۔ اس کے سر پر کسی سیاست دان کسی وزیر کا سایہ ہوتا ہے، ایک وقت آتا ہے، شہر میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اتنی بڑھ جاتی ہے، کہ جنتا حکم رانوں‌ کے خلاف بولنے لگتی ہے۔ اب وزیر کی کرسی کو خطرہ لاحق ہونے لگتا ہے۔ تب وہ اس نامی گرامی غنڈے کے موت کے فرمان جاری کرتا ہے۔ وہ غنڈا اور اس کے ساتھی مقابلہ کرتے ہیں، چھپتے پھرتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ ریاستی مشینری پیچھے ہے دوسرا یہ کہ اس غنڈے کو اپنے مخالف غنڈے سے بھی خطرہ ہے تو جائے امان ملنا ممکن نہیں۔ اس کو ہر صورت مارنا ہے اگر یہ زندہ بچ گیا تو اپنے آقا کو رسوا کر دے گا۔ فلم کے اس حصے میں ناظرین کو سیکڑوں معصوموں کے اس قاتل پر رحم آنے لگتا ہے، کیوں کہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ اس غنڈے کو یہاں تک لانے میں انھی کا ہاتھ تھا، جو اب اس کو مارنے کے درپے ہیں۔

ہماری آپ کی حالت اس جنتا کی سی ہے، جو شہر کے اس دادا کی موت کا متمنی ہے، جس نے کبھی زک پہنچائی تھی، مال لوٹا تھا۔ وہ غنڈا مارا بھی گیا، تو غنڈے پالنے والے نئے غنڈے پال لیتے ہیں۔ کیا ان عناصر سے نجات پائی جا سکتی ہے؟ جی نہیں! کیوں کہ جنتا ہر بار اسی کے گیت گانے لگتی ہے، جس نے غنڈے کو پالا پوسا، اور پھر اپنی گردن بچانے کے لیے اس غنڈے کو مار کے ہیرو بن بیٹھا۔

اب آپ ہی فرمائیے، ہزاروں پاکستانیوں، لاکھوں افغانیوں کے ”اصل“ استعماری قاتل سے نفرت کی جائے، یا اس کے پالے ہوئے غنڈوں سے؟ آپ فرمائیے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والوں سے نفرت کی جائے تو کیوں نہ ایک گناہ گار کو مارنے کے لیے پوری پوری بستیاں ملیا میٹ کر دینے والوں، سیکڑوں معصوموں کو نگل جانے والے ڈرون حملے کرنے والے کو مطعون کیا جائے؟

دوسری طرف ریاست بھی جھوٹ کے سہارے امن نہیں لا سکے گی۔ اس کو سچ بولنا ہوگا۔ مجاہدین سے طالبان تک؛ پاکستانی ریاست کا بھی ایک کردار ہے۔ بین الاقوامی کھیلوں کا حصہ بننے والی ریاست نے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، برا وقت آنے پر ان سے نہ صرف منہ پھیر لیا، بل کہ جائے امان نہ دی۔ وہ ریاست کے دشمنوں کی مدد سے ریاست کی طرف پلٹے تو جو ہوا سب نے دیکھ لیا۔ اب دو ہی راستے ہیں، ایک یہ کہ پانچ، دس، پندرہ، بیس سال ان سے لڑتی رہے، لاشیں دے اور لاشیں اٹھائے۔ عوام کو نوید دیتی رہے کہ دشمن کی کمر توڑ دی ہے، فتح مبین قریب ہے۔ دوسرا یہ کہ ریاست شہریوں سے ماضی کی غلط پالیسیوں کی معافی مانگتے ان جنگجووں کے لیے امان کا اعلان کرے، جو ریاست کے دستور کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں۔ یہ دوسری صورت ایسی ہے کہ بہت سوں کی پیشانی پر بل پڑجائیں گے؛

آرمی پبلک اسکول یاد آئے گا، مون مارکیٹ دھماکا یاد آئے گی، لال مسجد کی داستان دہرائی جائے گی، اور سیکڑوں سانحے یاد دلائے جائیں گے۔ یک طرفہ میڈیا پر چند سو ایسی خبریں ملیں گی جو ظلم شہریوں پر ہوئے؛ کئی ہزار خبروں کا گلا نہ گھونٹا گیا ہوتا، تو آپ جانتے ان کے زخم آپ کے دکھوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ انتقام انتقام کی رٹ لگانے سے پہلے سوچ لیجیے، جنھیں آپ دہشت گرد کہتے ہیں، وہ بھی انتقاماً ہی ریاست کی طرف پلٹے تھے۔ فلمی مکالموں ہی کی رہی، تو یہ سنیے، ”انتقام کی کوکھ سے انتقام ہی جنم لیتا ہے۔ “

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran