(انجینئر ) فرید اختر صاحب سے ایک گفتگو


\"aasimبرادرم ذیشان ہاشم کا اہم مضمون ’سب میرے ایک لیکچر کی مار ہے‘ نظر سے گزرا۔ سماج میں رد عمل کی نفسیات کے بارے میں ان کا تجزیہ نہایت متوازن معلوم ہوا۔ خاص طور پر ان کا یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ یہ خود پسندی اور حتمی سچائی جاننے پر بے جا اصرار کا عارضہ ترقی پسند اور رجعت پسند طبقات دونوں میں پایا جاتا ہے۔ ان کی بات کو بڑھایا جائے تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سماجی تصورات کے بارے میں دونوں انتہاو¿ں پر موجود طبقات اپنی اپنی جگہ ’تنقید برائے تنقید‘ کے محاذوں پر ڈٹے ہیں۔ اور ردعمل کی یہ نفسیات اپنے اپنے طرزِ فکر کو مستند ترین ماننے کی وجہ سے سماج میں پوری طرح جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔ بہرحال ذہن بھٹکتے بھٹکتے دور نکل گیا۔ سہ پہر کا وقت تھا، طبعیت کچھ مضمحل تھی تو سوچا کیوں نہ دل بہلانے کی خاطر (انجینئر ) فرید اختر صاحب سے معلوم کیا جائے کہ وہ کیا واقعہ تھا، کونسی گھڑی تھی جب ان کاذہن کائنات میں کششِ ثقل جیسی مفید نعمت سے متنفر ہو گیا۔یاد آیا کہ ان کا فون نمبر اخباری اشتہار میں موجود تھا۔ فوراً گوگل کیا تو اشتہار مل گیا۔فون کرنے سے قبل یہ سوچ کر اشتہار پر درج ای میل گوگل میں ڈالا کہ کہیں اپنے شناسا ہی نہ ہوں۔ معلوم ہوا کہ تقریباً گمنام ہی ہیں ، لیکن ایک پرائیویٹ فرم کا پتہ مل گیا۔ گمان ہوا کہ اسی فرم میں شاید ملازمین کو فزکس وغیرہ پڑھاتے ہوں گے۔ خیر جب مزید معلومات کی بجائے لطائف ملناشروع ہو گئے جہاں کچھ من چلے طالبعلموں نے فرید اختر صاحب سے اس قسم کے اقوال منسوب کر رکھے تھے کہ ”جس دن میں نے پہلی دفعہ گیس کا غبارہ ہاتھ سے چھوٹ کر فضا میں معلق ہوتا دیکھا، اسی دن کششِ ثقل سے میرا اعتبار اٹھ گیا“ تو بہت افسوس ہوا کہ لوگ اہل علم و تحقیق سے بھی کیسی کیسی ہفوات منسوب کر دیتے ہیں۔ خیر دل مائل تھا، رہا نہ گیا تو انہیں فون کر دیا۔ سلام دعا اور تعارف کے بعد ان کے دعوی تحقیق کے بارے میں استفسار کیا۔ کسی صورت راز افشا کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔ یہی اصرار تھا کہ دو یا تین دن میں لاہور پریس کلب میں اعلان کروں گا۔گمان ہے کہ اتنی اہم تحقیق چوری ہو جانے کا ڈر ہو گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ فرید صاحب ایسے ’انجینئر‘ نہیں ہیں جو کسی انجینئرنگ یونیورسٹی یا کالج سے فارغ التحصیل ہوتا ہے۔ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ شاعر بھی ہیں اور وہ بھی صاحبِ کتاب۔ بہرحال ہمیں ان کی ذات سے زیادہ ان کے دعوے میں \"zpage071\"دلچسپی تھی لہٰذا کچھ سوالات کے ذریعے اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ ان کا بنیادی استدلال کن بنیادوں پر کھڑا ہے۔کچھ سرسری اشاروں کنایوں میں صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ ان کے پاس کچھ روحانی اور نیم سائنسی سی کہانی ہے جسے عرف عام میں pseudoscience کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ اس سے زیادہ کچھ بتانے پر تیار ہی نہیں ہوئے لہٰذا اب جب تک پورا قصہ سامنے نہیں آتا دلچسپی بدستورقائم ہے۔ ہمارے شہر لاہور نے بہت بڑے بڑے اداکار پیدا کئے ہیں۔ امید ہے کہ یہ بھی اپنا لوہا منوا کر ہی رہیں گے۔ شہرت ان کے دروازے پر پہلے ہی دستک دے چکی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فرید اختر صاحب کے دعوے کا اسلوب کسی بھی شخص کو اگر تمسخر پر نہیں تو کم از کم حیرانی پر ضرور ابھارتا ہے، دوسرے لفظوں میں ان کی بات سننے سے قبل فلک شگاف قہقہے کو نہیں تو زیرِ لب مسکراہٹ کو ضرور دعوت دیتا ہے۔ لیکن اس پر آنے والا ردعمل کئی دلچسپ زاویوں سے ہمارے سماجی رویوں کا عکاس بھی ہے۔ اس قسم کے دعوے مغربی معاشروں میں بھی کئے جاتے ہیں لیکن وہاں نہ صرف ایسے دعووں کا اسلوب بلکہ نقادوں کا ردعمل بھی کافی مختلف ہوتا ہے۔ ہماری رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی ترقی یافتہ سماج میں کم سے کم درجے میں ایک لائقِ اعتنا سائنسی طرزِ فکر پر اتفاق پایا جاتا ہے گو اس سے ہرگز انکار نہیں کہ وہاں بھی کسی نہ کسی درجے میں تعصبات موجود ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم اس طرز ِ فکر کو جستجو کا ایک ایسا لاانتہا دائرہ سمجھ سکتے ہیں جس میں ہر ایک کو سنگ باری کے خوف کے بغیر سوال اٹھانے کی مکمل اجازت ہو۔ ہمارے ہاں مزید دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ کھینچا تانی سماجی تفریق کے دونوں طرف برابر ہوتی رہتی ہے۔ آئیے اس مسئلے کی گرہیں کھولنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔

\"Sir-Isaac-Newton-HD-Wallpaper\"ہمارے سماج میں کچھ مابعدالطبیعاتی مفروضوں کو عقلِ عامہ یا عرف عام میں ’کامن سینس‘ کا درجہ حاصل ہے۔ گمان یہی ہے کہ یہ’ کامن سینس ‘ جینیاتی طور پر نسل در نسل سماج کی رگوں میں دوڑتی رہتی ہے اور اس کی بنیاد پر قائم کئے گئے مفروضوں میں سست رفتاری سے تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں ایک اوسط آدمی کے ذہن میں فطرت کے پرشکوہ مناظر کو دیکھ کر ایک ناملفوظ سا سرّی ( آپ موہوم اور پر اسرار کہہ لیں )تاثر قائم ہوتا ہے جو ذہن میں پیدا ہونے والے ’کیوں‘ یا ’کیسے‘ پر مبنی سوال کو فوراً الٰہیات پر مبنی کسی مابعدالطبیعاتی مفروضے سے مطمئن کر دیتا ہے۔ گھر میں بچہ ابھی پاو¿ں پاو¿ں چلنا بھی شروع نہیں ہوتا تو اس کی نفسیات میں اس قسم کے وجدانی مفروضے پوری طرح جڑ پکڑنے لگتے ہیں کہ کائنات، انسان، حیات، موت وغیرہ کا تعلق کسی نہ کسی طرح عالمِ غیب سے ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ ہر ممکنہ سوال کا پہلا اور آسان ترین جواب کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی ٰ کی ذات و صفات کی صورت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔یہی کیفیت بلوغت تک ساتھ چلتی ہے اور چھوٹی عمر میں کمرہ جماعت میں پہنچ کر بھی جستجو کو ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ جامعات کا معاملہ بھی کچھ خاص مختلف نہیں اور کئی عوامل کی بنا پر جن میں ہم جیسے استادوں کی نالائقی سرِ فہرست ہے، سوال کو پوری کوشش سے دبایا جاتا ہے یا اس کے گرد چکر کاٹ کر کوئی چور راستہ پکڑنے میں عافیت محسوس کی جاتی ہے۔ خالص فلسفیانہ تناظر میں چونکہ خدا کا نام لینے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کسی مخصوص تصورِ خدا پر اصرار لازم آتا ہے لہٰذا اہلِ فلسفہ اس مابعدالطبیعاتی مفروضے کو حقیقتِ مطلق بھی کہہ دیتے ہیں۔خود مذہب کا مقدمہ بھی یہی ہے کہ ایمان بالغیب تو لازم ہے جس کے بعد اسے معقول بنیادیں فراہم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ یعنی کم از کم ہمارے سماج میں رائج مذہبی تعبیرات کی حد تک ملفوظ اقرار سے معقول اقرار کا سفر تو جائز ٹھہرتا ہے لیکن انکار سے اقرار کا نہیں۔

\"einstein\"اس وضاحت کے بعد ہم اس نکتے کو یوں پیش کر سکتے ہیں کہ ہمارے سماج میں کائنات کے مشاہدے اور انسانی نفسیات میں موجود فطری جستجو کے نتیجے میں اٹھنے والے سوالوں کو بہت آسانی سے حقیقتِ مطلق کے کسی غیبی تصور کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔اگر ہمارا معاشرہ کسی دورافتادہ الگ تھلگ جزیرے پر موجود ایک قدیم معاشرہ ہوتا تو سہل فکری پر مبنی انسانی جستجو کی تسکین کا یہ طریقہ یقیناً معقول تصور کیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور ہم زمانہ جدید کے باقی تمام معاشروں کی طرح ’پرآسائش زندگی ‘ کے مفروضوں سے نہ صرف پوری طرح متفق ہیں بلکہ اپنے روز مرہ عملی استدلال سے ترقی کا ایک ایسا تصور بھی قائم کئے ہیں جس کی بنیادوں میں ہماری ذات کی طبعی آسودگی کے حصول پر ایمان واضح نظر آتا ہے۔ ہم میں سے جن کا اس حقیقت پر ایمان ہے کہ دنیا ایک سراب ہے اور اس کی اصل آخرت کی کھیتی ہے، وہ ساتھ ہی اس حقیقت پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ زندگی خدا کی نعمت ہے اور اسے کچھ رسوم وقیود کے دائرے میں رہتے ہوئے بہتر سے بہتر گزارنے کی کوشش نہ کرنا کفرانِ نعمت ہے۔ چونکہ اس طبعی آسودگی کے حصول کا بنیادی تعلق فطرت کے مظاہر کو سمجھنے اور انہیں اپنے قابو میں لا کر انسانی فائدے کے لئے استعمال کرنے سے ہے لہٰذا ہمارے سماج میں سائنس کے عملی مظاہروں پر اس طرح ایمان لانے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ جستجو کے اس دائرے کو جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا کسی حد تک محدود رکھنے پر اتفاق کیا جاتا ہے۔ سماجی رویوں کے باب میں اگر بغور دیکھا جائے تو جستجو کے دائرے کی یہ تحدید بھی کچھ ایمانی مباحث کی طرح کی جاتی ہے یعنی سماج میں مکالمے کی ماہیت کو اس طرح بدلنے پر اصرار کیا جاتا ہے کہ خارج سے دیکھا جائے تو کچھ ایمان بالغیب کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ یہ اصرار ترقی پسندوں کی جانب سے بھی کیا جاتا ہے اور رجعت پسندوں کی جانب سے بھی گو دونوں جانب سے اس جبر کی نوعیت مختلف ہے۔

\"l_99475_091746_updates\"جبر کی یہ نوعیت مختلف ہونے کے باوجود نتائج یہی ہیں کہ جستجو کا دائرہ سکڑ جاتا ہے اور جستجو پر مائل ذہن یا تو اس سماج سے فرار میں عافیت پاتا ہے یا بصورتِ دیگر مجبوراً خاموش ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ ہمارے سماج میں پانی سے گاڑی چلانے یا کششِ ثقل کو مسترد کرنے کی للکار کا اسلوب کن نفسیاتی مسائل کا شکار ہے اور کس قسم کے تعلیمی پس منظر کا مرہونِ منت ہے، ہم کم از کم اس پر تو اتفاق کر ہی سکتے ہیں کہ بہرحال یہ فکر کی ایک ندرت ہے۔یہ ایک الگ بات ہے کہ جس ندرتِ فکر کا ظہور ہمارے سماج میں بچوں اور نوجوان طلبا کے ذریعے ہونا چاہئے وہ ذرا بالغ اور عمر رسیدہ افراد کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اور یہ بچگانہ سادہ لوحی بھی اپنی جگہ چشم کشا ہے کیوں کہ جستجو کے تناظر میںہمارے تعلیمی نظام اور سماجی تربیت گاہوں میں موجود خطرناک خلا کی نشاندہی کرتی ہے جو یہ سکھانے سے قاصر ہیں کہ کسی بھی دائرہ علم میں کئے گئے دعوے بہرحال کچھ طے شدہ ضوابط کے تحت ہی کئے جاتے ہیں۔ اخباروں اور پریس کانفرنسوں میں مناظرے کے لئے تو ضرور للکار دی جا سکتی ہے لیکن سائنسی دعوے تو بہرحال سائنسی اسلوب میں ہی قابلِ التفات مانے جا سکتے ہیں۔ فرید اختر صاحب سے بات ہوئی تو ان کا جوش کسی بارہ تیرہ سالہ بچے کی طرح تھا اور اخبار میں دئیے گئے اشتہار سے بھی کچھ اسی قسم کا ولولہ نظر آتا ہے۔ مجھے بے اختیار محترمہ نرگس ماول والا سے ٹیلی وڑن انٹرویو میں کیا گیا وہ سوال یاد آیا کہ انہیں نظری فزکس کے موضوع سے دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟ ان کا جواب یہ تھا کہ بہت بچپن میں ہی میں نے آسمان کے بارے میں جاننا شروع کر دیا تھا، کلفٹن میں اپنی رہائشی عمارت کی چھت پر شہابیوں کو گرتے دیکھتی اور کائنات کا مشاہدہ کرتی، مجھے دلچسپی تھی کہ کائنات کا آغاز کیسے ہوا کیوں کہ میں کائنات کی مذہبی توجیہات پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ \"56bee84c913cd\"یوں محسوس ہوا کہ فرید اختر صاحب کو بھی کسی اسی قسم کے وجدانی مشاہدے سے کچھ مسلمہ سائنسی توجیہات پر شک و شبہ ہوا۔

چونکہ دو یا تین دن میں یہ قصہ تفصیلی طور پر سامنے آنے کا امکان ہے اور وہ یقیناً کچھ نیم سائنسی و روحانی یا دوسرے لفظوں میں ’شاعرانہ‘ استدلال فرمائیں گے، لہٰذا تحریک ہوئی کہ اسی کو بطور تمہید استعمال کرتے ہوئے سائنس اور سماجی مباحث کو لے کر مضامین کے ایک سلسلے کا آغاز کیا جائے۔راقم کی رائے میں ہمارا سماج اگر بارہ سالہ نرگس ماول والا کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ اپنی جستجو کا دائرہ بڑھاتے ہوئے کچھ ’مسلمہ‘ مابعدالطبیعاتی مفروضوں پر سوال اٹھایا جائے تو بالکل اسی طرح تیس پینتیس سالہ فرید اختر کو بھی اجازت نہیں دیتا کہ کچھ ’مسلمہ‘ طبیعاتی مفروضوں پر سوال اٹھایا جائے۔ واضح رہے کہ دونوں صورت میں استدلال کے ضوابط اور دائرہ کار یقیناً مختلف ہیں لیکن سماجی طور پر پیدا ہونے والے نتائج میں کوئی خاص فرق نہیں۔ ہمیں یقیناً اس تلخ حقیقت کا اعتراف ہے کہ اگر آج کسی جامعہ کا طالبعلم سراسر سائنسی تعبیرات کی بنیاد وں پر تمام مابعدالطبیعاتی ’حقائق‘ کا انکار کرنا چاہے تو اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے لیکن فرید اختر صاحب کے دعوے کو بس ہنسی میں اڑانے سے زیادہ انہیں اور کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں۔ لیکن ہمارے استدلال کی نوعیت یہ ہے کہ فرید اختر صاحب کی جگہ اگر ہم کسی پاکستانی اسکول کا بارہ پندرہ سالہ بچہ تصور کر لیں جو اپنی ’کامن سینس‘ کی بنیاد پر زمین کے ساکن ہونے کا اعلان کر دے تو ہمارے تعلیمی اداروں کے کتنے اساتذہ اس قابل ہیں جو اس بچے کو تجرباتی اور مشاہداتی اعتبار سے زمین کی گردش پر قائل کر سکیں؟ ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے ان کا مطالبہ بھی کم و بیش کچھ کتابوں میں لکھی تفصیلات پر ایمان بالغیب کا ہی ہوتا ہے۔کم و بیش یہی حالت ہم جیسے والدین کی بھی ہے۔ کسے پڑی ہے کہ چھٹی والے دن بچوں کے ساتھ مل کر آسمان کا رنگ نیلا ہونے کی توجیہہ دریافت کرنے کے لئے تجربے وضع کرتا رہے؟ اس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ دنیا کے تمام سائنسدانوں کو مغرب نامی کسی فرضی مقام میں بیٹھے جادوگروں کی جماعت مان کر ان پر ایمان لے آیا جائے۔

\"Massachusetts

اس پس منظر میں اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں طبیعات اور مابعد الطبیعات کے درمیان اس ناگزیرفاصلے کو تعلیمی نظام میں اس طرح زیرِ بحث لا نا ممکن ہے کہ جستجو کے دائرے پر ہر قدغن مشترکہ طور پر غیرمعقول مانی جائے؟ ہم اپنے سماج میں سہل فکری پر مبنی رویوں کو بدلنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ہمیں اب شاید یہ تسلیم کر لینے کی ضرورت ہے کہ فلسفہ ہو یا سائنس، ’معلوم‘ اور ’نامعلوم‘ یکساں طور پر دلچسپ ہیں اور ان کے درمیان وہی نامیاتی وحدت ہے جو سوال اور جواب کے درمیان ہوتی ہے۔ اور دونوں کی زد بہرحال اپنی حتمی شکل میں مذہب پر ہی پڑتی ہے۔ایسے میں یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی طرزِ فکر کو اپنے ہاں رواج دینے کے لئے سائنس کی تاریخ سے ابتدا کی جائے اور کچھ ایسے مباحث کی جانب نشاندہی کی جائے جن پر اردو میں بہت کم مواد موجود ہے۔ ایسے میں ہمیں ایک طرف تو مشترکہ طور پر ان ژولیدہ فکر اور عقل دشمن عناصر کو اس وقت تک یکسر نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے جو سرے سے سائنس کے ہی خلاف ہیں اورفلسفہ سائنس سے کشید کی ہوئی تنقیدوں کو کلمہ پڑھا کر سائنس کو مذہب کے مقابل دکھا نے یا کسی استبدادی فکر کے تابع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مذہبی اور غیرمذہبی روشن خیال طبقات کو سائنسی روایت کے تناظر میں سائنسی طرزِ فکر کو اس طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کچھ ایسے ناگزیر مابعدالطبیعاتی مفروضے واضح ہو جائیں جن کی بنیادی یا تو منطقی ترجیحات پر ہے یا مخصوص ریاضیاتی استدلال کی ماہیت پر۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments