یہ کیا کر دیا، جنرل صاحب؟


 میرے والد صاحب حیات ہیں۔ بہت بزرگ ہو گئے ہیں مگر۔ وہ سات سال کے تھے جب پاکستان بنا اور وہ مجیٹھہ، امرتسر، سے دھکے کھاتے، اپنے خاندان کے لوگ قربان کرتے اور خون میں نہائے لاہور پہنچے تھے۔ میرے مرحوم تایا جان بتاتے تھے کہ ہمارا خاندان، مجیٹھہ میں اک مڈل کلاس اور مناسب سی زندگی گزار رہا تھا، اور میرے دادا ابو، محمد حنیف بٹ، مگر پاکستان کے حق میں تھے، اور گھر میں بہت محبت، خلوص اور چاہت کے ساتھ نئے بننے والے ملک کے منتظر تھے۔ نامعلوم کہ وہ ہمارے رشتہ دار تھے یا نہیں، مگر مجیٹھہ سے ہی تھے کہ جو تحریک پاکستان کے سب سے پہلے شہید ہوئے تھے۔ میرے اک رشتہ کے تایا جان، صدیق بٹ صاحب کو، غلام حیدر وائیں مرحوم نے 1991 میں اسی حوالے سے اک یادگاری گولڈ میڈل بھی دیا تھا۔

میرے دادا، میرے والد اور تایا کے سوالات پر، کہ نئے ملک میں کیا ہوگا، جواب دیا کرتے تھے ، اور میں پنجابی میں ہی تحریر کروں گا کہ اردو چاشنی چھین کر لے جائے گی: او پاغلو، اوتھے امن ہووے گا، سکون ہووے گا، ساڈا اپنا ملک ہونا، اپنی دھرتی ہونی، اسی اوتھے بداماں دے بُوٹے لایا کراں گے، سانوں ایتھے انصاف نئیں لبھدا، اوتھے لبھیا کرے گا۔ اور اللہ کی قسم، کہ یہ سچ ہے کہ  ہجرت اور سات سال کی عمر میں خون کا دریا عبور کرکے آنے والے میرے ابو، اور وفات پا جانے والے، میرے تایا ابو نے یہ باتیں، مجھے کم و بیش انہی الفاظ میں بتائی ہوئی ہیں۔

میرے والد، جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے زخم گزیدہ ہیں۔ میرے والد صاحب نے 33 سال، اپنے ہی مکان کی ملکیت کا مقدمہ لڑا، پھر رشوت دے کر بیلف لانا پڑا۔ وہ بیمار ہوئے تو ان کے علاج کے لیے اپنی شدید غربت میں خود سے ہی انتظام کرنا پڑا۔ کڑے وقت گزارنے کی اک طویل داستان ہے، اور اس میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں کڑیا ں ہیں کہ جن پر میں پوری اک کتاب تحریر کر سکتا ہوں۔ وطن عزیز سے مسلسل معاشرتی و معاشی مایوسی کے باوجود میں نے اپنے والد صاحب کو رجائیت میں عمومی گُندھا ہوا ہی پایا۔ میں خود اپنی نوجوانی اور جوانی میں کئی سیاسی سوچوں کے مدوجزر سے گزرا، مگر بالآخر اپنی ریاست، ملک اور قوم سے محبت کرنے کا شعوری فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کیا کہ آپشن ہونے کے باوجود پاکستان میں رہنا ہے، اور اپنی تمام خامیوں اور کجیوں کے باوجود، اس ریاست، معاشرے اور لوگوں کے لیے سودمند کردار ادا کرنا ہے۔ کبھی ممکن ہو سکا، کبھی ممکن نہ ہو سکا۔

زندگی، جنرل صاحب، سہولیات اور ریاست کی جانب سے معاشی تحفظ کے بغیر، مشکلات کی کڑی دھوپ میں چھتری کے بغیر ہی گزاری، اور اب بھی مسلسل محنت اپنا شغل ہے، مگر کم مائیگی اور کمتر پاکستانی ہونے کا وہ احساس، جو 1977 میں، کہ میں جب پانچ برس کا تھا، اور وہ مسلسل 2013 تک جاری رہا، اب کچھ کم ہونے کو تھا۔ خیال تھا کہ میرا ملک، اپنے جیسے دیگر ممالک کی طرح، سیاسی جمہوریت کی بنیاد پر وہ معاشی اور معاشرتی بیانیہ بنانےکی جانب بڑھ رہا ہے کہ جہاں اک فطری بہاؤ میں، ریاست اپنے شہریوں کے لیے مزید مواقع تلاش کرےگی، پیدا کرے گی، اور چلو، باداموں کے نہ سہی، کیکر ہی کے سہی، مگر “بُوٹے” تو اگیں گے۔ خیال تھا کہ بحیثیت پاکستانی، آمریت جو میرا مذاق، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل بناتی چلی آئی ہے، اب اس میں کمی واقع ہوگی، اور میرے ملک کے “وقار” میں اضافہ ہوگا۔  گو کہ اس بات پر اک ریسرچ بہت لطف دے گی کہ کتنے جنرلز کی کتنی اولادیں مغرب میں جا بسیں، اور مجھ جیسے کم نشین، یہیں محاذ پر ڈٹ کر رہنے پر قائم رہے!

بوجوہ کہ اک لمبی داستان ہے کہ جس کے ریشوں میں بڈابیر سے لے کر شمسی ہوائی اڈے، حالیہ دھرنوں کے ساتھ ساتھ  طرح طرح کی کہانیاں ہیں، فوج کے ادارے اور اپنی ریاست کی تحریم خود پر  قائم کیے رکھی، اس خیال میں کہ ادارے کے نیوکلئیس میں بھی اک مثبت تبدیلی بہرحال نمودار ہو رہی ہے۔ کچھ وقت ملا تھا  کہ سیاست و معاشرت کے نفسیاتی اشارئیے بہتر محسوس ہونے لگے تھے کہ آپ کی اک ٹویٹ آ گئی۔

مناسب سا مضبوط، اور رجائیت پر رہنے والا ضدی آدمی ہوں، مگر جناب، یہ آپ نے کیا کہہ اور کیا کر ڈالا؟ منظم ریاست  کے اک ادارے کے اک اہلکار نے سوشل میڈیا، کہ جہاں فتاویٰ سے لے کر پورن فلمز تک، سب چلتا اور ملتا ہے، آپ نے سٹیٹ کرافٹ کے حوالے سے اک حکومت، جو بھلے جیسی بھی ہے، مگر عوام کے ووٹس سے منتخب ہے، پر اپنی اس نفسیات کا اظہار کر دیا، جو میری نادانی کے مطابق اب آہستہ آہستہ گم اور کم ہورہی تھی۔ یہ آپ نے کیا کہہ اور کر دیا جناب، کہ تھکن کا احساس ہے جو ختم ہی نہیں ہو چک رہا، اور نامعلوم کب تک جاری رہے گا۔ میں 45 برس کی اس عمر میں، اپنے ملک کا مذاق بنتے دیکھ دیکھ کر تھک اور اُکتا چکا ہوں، مگر کیا یہ سلسلہ مزید جاری رہے گا؟ مجھے آج سے اک دن پہلے کا اعتماد نہیں رہا، جنرل صاحب۔ آپ غلط کر گئے۔ آپ زیادتی کر گئے۔ آپ میرے اور مجھ جیسے لاکھوں کے خواب اور خیال توڑ گئے۔

میرے دادا، اور میرے والد صاحبان کو تو امن، سکون نہ ملا۔ اپنے ملک میں ہونے کے باوجود دھرتی نہ ملی۔ باداموں کے بُوٹے نہ ملے۔ انصاف نہ ملا۔ تو کیا، مجھ مسمی، محمد مبشر اکرم بٹ، حالیہ سکنہ اسلام آباد، پر اپنے دادا ، محمد حنیف بٹ، کی طرح، اک اور ہجرت فرض ہو چکی؟ کیا میں ان زمینوں  کی جانب جا نکلوں کہ  جہاں باداموں کے بوٹے بھلے نہ ہوں، مگر اک ملک کی دھرتی تو اپنی ہو؟

کیا آپ ٹویٹ کرکے مجھے بتا سکتے ہیں؟ میرا ٹویٹر ہینڈل @mkw72 ہے۔

(ترجمہ: او پاگلو، وہاں امن ہو گا۔ سکون ہو گا، ہمارا اپنا ملک ہو گا، اپنی دھرتی ہو گی، ہم وہاں بادام کے پودے اگایا کریں گے، یہاں ہمیں انصاف نئیں ملتا، وہاں ملا کرے گا۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).