خان صاحب نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا


(پردہ اٹھتا ہے)
آپ کون ہیں؟
میں ایک شاعر ہوں، بڑے معرکہ آرا شعر کہتا ہوں۔ مشاعروں میں جب پڑھتا ہوں تو بڑے بڑے شاعر اٹھ اٹھ کر داد دیتے ہیں۔ سامعین حالوں بے حال ہو جاتے ہیں۔ یوں کہو کہ جب شمع میرے سامنے آتی ہے تو باقی چہار سو اندھیرا چھا جاتا ہے، مشکل ہے کہ پھر کسی اور کا چراغ جل جائے۔
مگر آج کل تو شمع نہیں ہوتی غالباً؟
ارے بھئی محاورتاً کہہ رہا تھا۔ بال کی کھال کیوں نکالتے ہو۔ ہاں تو بھئی جب میں پڑھ چکتا ہوں تو کئی بار ایسا ہوا کہ کتنے ہی شعرا اٹھ کر چلے گئے اس چکر میں کہ مشاعرہ تو لوٹ لیا اس نے، اب عزت سادات بچا لی جائے۔ پچھلے دنوں مجھے ایک بہت بڑی ادبی تنظیم نے کمال فن ایوارڈ بھی دیا ہے۔ اس وقت ہر قابل ذکر ادبی رسالہ میرا کلام شائع کرتا ہے۔ بلکہ جن کو میں کسی وجہ سے غزلیں نہیں بھیج پاتا وہ تو باقاعدہ شکایت کرتے ہیں۔ لوگ بڑے احترام سے ملتے ہیں، پچھلے دنوں مجھے ایک ادبی فورم نے شاعر برصغیر کا اعزاز بھی دیا۔ بس یار بڑا کرم ہے اوپر والے کا۔
اچھا خاصا کما لیتے ہوں گے آپ؟
(ایک طویل خاموشی۔ پان پراگ کا ایک پیکٹ منہ میں انڈیلا گیا، ایک سگریٹ سلگایا گیا) دیکھو یار، یہ سب جو کام ہیں نا، یہ بس دل پشوری کے ہیں۔ کمانا ومانا کیا ہے۔ منتظمین تو بھئی روانگی کے وقت اکثر غائب ہو جاتے ہیں۔ مشاعرہ پڑھنے کے پیسے تو کجا، واپسی کے اسباب مہیا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو بے چارے زیادہ فقرے فقٹے ہوں وہ تو باقاعدہ مانگ تانگ کر گھر پہنچتے ہیں۔ یہ بس لوگوں کا پیار ہے محبت ہے جو ہم شاعر لوگ دن رات تازہ بہ تازہ کلام کہتے چلے جاتے ہیں۔
آپ کون ہیں؟
میں ایک مصور ہوں یار۔ تصویریں بناتا ہوں، زیادہ تر آئل پینٹنگ کرتا ہوں۔ جب میرے کام کی نمائش لگتی ہے تو یقین کرو سب سے زیادہ رش میری تصویروں پر ہوتا ہے۔ کتنے ہی اخبار اور رسالے اگلے دن میری بنائی ہوئی تصویریں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ کتنی ہی لڑکیاں محو کھڑی رہتی ہیں میری تصویروں کے آگے۔ طالب علم لوگ تو باقاعدہ میری پوجا کرتے ہیں۔ اور میری بنائی نیوڈز تو باقاعدہ بین الاقوامی رسائل میں جگہ پاتی ہیں۔ ان پر کافی علمی بحث چھڑتی ہے۔ پھر میں گھوڑے بھی بہت خوبصورت بناتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ ایک مصور کے لیے گھوڑے کی اناٹومی انسان کی اناٹومی سے زیادہ مشکل ہے؟
ہو گی۔ گھوڑا گھوڑا ہوتا ہے، انسان انسان ہوتا ہے۔ شاید لمبے منہ کی وجہ سے گھوڑا بنانا مشکل ہو۔
نہیں یار، دیکھو ہر مصور گھوڑا بنانے میں اپنی پوری جان لڑا دیتا ہے۔ یوں سمجھو کہ گھوڑے کی ران سے مصور کا شجرہ پہچاننا یار لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اور پھر جیسے کچھ مصور تمام عمر عورت اور کبوتر بناتے رہتے ہیں، کچھ لال رنگ اور بیضوی چہرے بناتے ہیں، کچھ اپنی تصویروں کی جڑیں زمین تک جاتی دکھاتے ہیں، کچھ شوخ رنگوں کے تجرد میں مبتلا رہتے ہیں، کچھ ہندو صنمیات بناتے بناتے حالات کی مجبوری کے تحت پنجاب کے لینڈاسکیپ پر اتر آتے ہیں ویسے ہی میں جو ہوں، میں پرانی عمارتوں کی تصویریں بناتا ہوں لیکن ان کے رنگ بہت شوخ رکھتا ہوں، یہ میری پہچان ہے۔ بڑے بڑے ناقدین میرے کام کو سراہتے ہیں۔
پھر تو آپ مالی طور پر کافی مستحکم ہوں گے؟
(پائپ میں تمباکو بھرتے ہیں، ایک دو بار جلانے کی ناکام کوشش کے بعد اسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں) بھئی، بات ایسے ہے کہ یہ فن کی قدر دانی اپنی جگہ، لیکن میری تصویریں کچھ خاص بکتی نہیں ہیں۔ بس ہر نمائش میں ایک آدھ بک جاتی ہے تو اتنی یافت ہوتی ہے کہ گیلری کے مصارف پورے کیے جا سکیں۔ ویسے میں ایک سکول میں بچوں کو آرٹ سکھاتا ہوں۔ (خلاوں میں گھورنے لگتے ہیں)
آپ کون ہیں؟
میں میوزک کمپوزر ہوں۔ بہت سی مشہور دھنیں جو آپ آئے دن سنتے ہیں وہ میری ہی بنائی ہوئی ہیں۔ کئی نئے فن کار میرے پاس آ کر دھنیں بنواتے ہیں۔ ابھی وہ نیا گانے والا لڑکا جو مشہور ہوا ہے، فے میم، اس کے گانوں کی دھنیں بھی میں نے بنائی تھیں۔ پیانو، اکارڈین، طبلہ، ہارمونیم، گٹار، ستار، ڈرم، اکوسٹک گٹار، بینجو، بانسری سب کچھ بجا لیتا ہوں۔ بڑے بڑے مشہور گانے والوں کے ساتھ سنگت کی ہے میں نے۔ ان میں سے ہر ساز پر مشکل سے مشکل راگ بھی بجا سکتا ہوں اور پاپ موسیقی میں بھی مہارت ہے۔ کئی بار استادوں سے رات رات بھر طبلے پر جگل بندی کی ہے۔ لوگوں نے اٹھ اٹھ کر داد دی۔ فارغ وقت میں آرام سے اپنے گھر بیٹھ کر گانوں کی دھنیں بناتا رہتا ہوں۔
شہنائی نہیں بجاتے آپ؟
یار شہنائی کے عظیم ترین استاد کون تھے، جانتے ہو؟ استاد بسم اللہ خان کا نام تو جانتے ہی ہو گے۔ کبھی ان کے آخری دنوں کا وہ انٹرویو دیکھو جو انڈیا میں این ڈی ٹی وی نے لیا تھا۔ ایک جھلنگا چارپائی پر بیٹھا تھا شہنائی کا وہ عظیم گنی۔ اور آس پاس کائی لگی دیواریں تھیں۔ تو وہ شہنائی جو ہے اس کا ویسے بھی اب کون قدر دان رہ گیا ہے۔ اس لیے اس کی طرف کبھی توجہ نہیں کی۔ ویسے بھی خدا کا فضل ہے، بڑی بڑی گاڑیوں میں لوگ آتے ہیں اپنے گانے کی دھن بنوانے کے لیے۔
واہ بھئی، تو آپ پر تو پیسہ بارش کی طرح برستا ہو گا؟
(بیڑی کا ایک طویل کش لیتےہیں، نتھنے کھینچ کر اور ابرو چڑھا کر جواب دیتے ہیں) بیٹے، مراثی جتنا بھی اوپر چلا جائے، رہتا مراثی ہی ہے۔ لوگ اس کو اس کی اوقات میں رکھتے ہیں۔ مرسیڈیز سے اتر کر دھن بنوانے یہ جو ٹیڈی قسم کے لڑکے آتے ہیں، اتنا ایک وقت کے کھانے پر اڑا دیتے ہوں گے جتنا ہمیں ایک گھنٹے کی بحث کے بعد دیتے ہیں۔ پھر یہ طبلہ، اکارڈین، ہارمونیم، ستار، بینجو، بانسری، ان کو جانتا کون ہے آج کل؟ لوگ کہتے ہیں اسی ہارمونیم سے سب کچھ بجا دو اور پیسے کم سے کم لو، تو بیٹے بس سمجھ لو کہ ایسی گت بج رہی ہے کہ بے آواز ہے۔
آپ کون ہیں؟
میں ایک نامی گرامی ادیب ہوں۔ کمال ہے، آپ میرا نام نہیں جانتے۔ بھئی میرے ناول اس وقت اردو کے بیس بہترین ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ میرے افسانے اعلیٰ معیار کے ادبی رسالوں میں چھپتے ہیں۔ کراچی، لاہور، دلی، لکھنﺅ، ہر جگہ میرے نام کے ڈنکے ہیں۔ جہاں جہاں کوئی بڑا ادبی رسالہ نکلتا ہے وہاں وہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہوں۔ لوگ میرے ساتھ شامیں مناتے ہیں۔ مجھے پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز بھی ملنے والا ہے۔ ابھی پرسوں میرے اعزاز میں ایک تقریب پذیرائی تھی جس میں مجھے سونے کا تاج پہنایا گیا۔ میں اس وقت….
سونے کا تاج؟
یار بات مت کاٹا کرو، سونے کا تاج بس ایسے ہی کہتے ہیں۔ اس میں سے تو تانبا بھی نہیں نکلتا، یقین کرو اسے بیچ کر آدمی ڈیڑھ کلو امرود بھی نہیں خرید سکتا، لیکن یہ کم ہے کہ لوگوں نے مجھے اتنی محبت دی، اتنی عزت دی۔ بھئی یہ شہرت کی معراج ہے کہ لوگ آپ سے اتنی محبت کریں اور آپ کو سونے کا تاج پہنائیں۔ میں اب تک آٹھ کتابیں لکھ چکا ہوں۔ ملک کے موقر روزناموں میں ان پر تبصرے آتے ہیں، لوگ بحثیں کرتے ہیں میری کتابوں پر۔ پچھلے مہینے حلقے نے میرے اعزاز میں پورا اجلاس میرے نام کر دیا۔ بس یار، بڑی عزت دی ہے مولا نے، بڑا شکر ہے۔
آپ کی تو کتابوں کی رائلٹی ہی اتنی بن جاتی ہو گی کہ آپ کی سات نسلیں عیش کریں؟
(کے ٹو سگریٹ آدھا پی کر آخری کش کے بعد قینچی سے کاٹ کر ڈبی میں رکھتے ہیں) دوست، پہلی چار کتابیں تو میں نے خود پیسے دے کر چھپوائی تھیں، پھر انہیں بغل میں دبائے دبائے گھوما۔ کئی لوگوں کو تحفے میں دیں۔ جواب میں شکریہ کا ایک فون تک نہیں آیا۔ اور آخری چار کتابیں ایک مہربان ہیں جو چھاپ دیتے ہیں، تیس کاپیاں مجھے مل جاتی ہیں، باقی چار سو ستر کتابیں بکنے میں دو سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔
آپ کون ہیں؟
میں ایک تھیٹر آرٹسٹ ہوں۔ ہر تین مہینے بعد میرا ایک نیا ڈراما سٹیج ہوتا ہے۔ سنجیدہ تھیٹر کرنا پسند کرتا ہوں۔ اخباروں میں میرے ڈراموں پر بہت اچھے ریویوز آتے ہیں۔ ڈرامے کے دوران کئی بار بڑے بڑے بیوروکریٹ مجھے کھڑے ہو کر داد دیتے ہیں۔ ملک کے تمام سینئیر فن کار مجھے پہچانتے ہیں۔ بڑی عزت سے ملتے ہیں۔ کئی کردار تو صرف مجھے سوچ کر بنائے جاتے ہیں۔ ہر ڈرامے کے بعد لوگ مجھے گھیر لیتے ہیں۔ میرے ساتھ تصویریں بناتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ بیٹا دیکھو یہ تھیٹر میں ہمارے ملک کی پہچان ہیں۔ میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں۔ آرٹس کونسل کا سارا عملہ میری بڑی عزت کرتا ہے۔ میں اپنی موٹرسائیکل اندر لا کر ہال کے باہر کھڑی کرتا ہوں، حرام ہے جو کوئی مجھے پوچھ بھی لے۔ بیس سال سے اداکاری کر رہا ہوں، بڑا نام کمایا ہے اس فیلڈ میں۔ بڑا کرم ہے بھائی۔
واہ واہ، آپ تو بھائی پھر صحیح کی اسامی ہوں گے؟
(صوفی منرل واٹر کا ایک گھونٹ لے کر بات کرتے ہیں) میاں، یہ سب شوق کے کھیل ہیں۔ چار سو کا ٹکٹ تو کوئی خریدتا نہیں ہے۔ پہلے آٹھ دس شو ہم انتظار کرتے ہیں کہ لوگ خرید کر آئیں۔ وہ برابر والے ہال میں ہزار روپے کا ٹکٹ خرید کر جاتے ہیں جہاں فحش جگتوں والے ڈرامے چل رہے ہوتے ہیں۔ پھر ہم سفارت خانوں اور بڑی کتابوں کی دکانوں پر مفت پاس دیتے ہیں۔ تو وہ جو بڑے بڑے بیوروکریٹ اٹھ کر داد دیتے ہیں، وہ وہیں سے پاس لے کر آتے ہیں۔ روزی کمانے کو تو بھائی میں نے ایک سٹیشنری کی دکان کھول رکھی ہے، بس وہیں سے کام چلاتا ہوں۔
آپ کون ہیں؟
(کرنڈی کا سوٹ، سنہری راڈو گھڑی، چمکتا پیٹنٹ لیدر کا جوتا) میں پڑاپڑٹی ڈیلڑ ہوں جی۔ میں یاڑ دوستوں کو جمع کڑ کے مشاعڑے وغیڑہ کڑوا دیتا ہوں۔ شاعڑ ماعڑ بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ تھوڑا بہت چائے پانی کا خڑچہ ہوتا ہے۔ باقی ستے ای خیڑاں۔ لوگوں سے اس چکڑ میں رابطے شابطے بن جاتے ہیں جی۔ بس دال ڑوٹی ہماڑی بھی چلتی ڑہتی ہے۔
آپ؟
ہمارا شوروم ہے جی۔ ادھر سے ہی کما کر شوگر ملیں بھی لگا کر دیں ہیں بچوں کو۔ میری چھوٹی بیٹی کو یہ آرٹ وارٹ کا بڑا شوق ہے۔ اس کے لیے ہر مہینے دو مہینے بعد کوئی سستی سستی تصویریں خرید لیتا ہوں، کریک ہے جی وہ، خوش ہو جاتی ہے۔
آپ؟
سبزی منڈی میں آڑھت ہے جی اپنی۔ پائی یان، دن بھر کم کرن دے باد، بندہ اب تھکا ہوا گھر جاتا چنگا تو نئیں لگدا۔ تو آپاں رات کو دو ٹکٹ تھیٹر کے لیتے ہیں۔ اک ساڈے یار میم گاف دا تے اک ساڈا۔ قسمے سرکار، کشش شہزادی ابھی ابھی دوبارہ آئی ہے، حج کرن دے بعد توبہ کر لئی سی، تے اب دوبارہ آ گئی ہے۔ تو اس کا ڈانس شانس دیکھ کر فریش فریش گھر جائیدا ہے جی۔ باقی او چھوٹے بیٹے کو گاون کا شوق ہے تو اسے استاد جی کے پاس بھیج دیتا ہوں۔ بچہ ہے جی اور پھر ہزار دو ہزار کی بات ہے، ورنہ تسی جاندے ہو، مراثیوں کے پاس کون بھیجتا ہے جی اپنے نیانوں کو؟
آپ؟
(اعلیٰ سوٹ، نفیس چشمہ، پاوں میں مکیشن جوتے، ہاتھ میں مہنگا سگریٹ کا ڈبہ) میں پبلشر ہوں۔ ادب کو فروغ دینے میں میرا بہت اہم کردار ہے۔ یہ سلیقے سے کتابیں چھاپنا اور انہیں گوداموں میں رکھ کر آہستہ آہستہ بیچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ الحمدللہ ہماری کتابیں پاکستان کی ہر لائبریری میں جاتی ہیں۔ جہاں نہیں بھی جاتیں وہاں بل تو جاتا ہی جاتا ہے۔ کتاب کی قیمت ہم اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ دس سال بھی نہ بکے تو نقصان نہ دے۔ اوئے وہ ڈرائیور کو بلاو، بھائی جی کو گھر چھوڑ کر آئے۔
آپ؟
آلاکا، خو پہلے تم ام کو بتاو کہ تم کون اے؟ یہ دس بندہ تمارا چھاچے کا بیٹا لگتا اے جو ان سے ییک ایک بات پوچتا اے۔ ام کو بتاو تم کون اے؟
میں ایک کالم نگار ہوں جی۔ کبھی کبھی ادیب بھی بن جاتا ہوں۔ موسیقی کا شوق بھی رکھتا ہوں، تھیٹر اور مصوری سے بھی شغف ہے۔ تو ان سب کا انٹرویو کر رہا تھا۔
پئیسا مئیسا کتنا بناتا اے؟
وہ جی ان کاموں میں تو کچھ نئیں ملتا خان لالہ۔
تو جو گر (گھر) پر تمارا بی بی اے، بچہ لوگ اے، وون کو کدر سے کھلاتا ہے؟
نوکری کرتا ہوں جی، بیوی بھی کرتی ہے، مل جل کر کام چل جاتا ہے۔
ایسا مرد کے لیے پشتو میں بوت برا لفظ ہے مڑا! ام نے کوئی انٹھرویو میو نئیں دینا۔ ابی جاو ایدھر سے!
(پردہ گرتا ہے)
(یونانی کورس کی پس پردہ آواز سنائی دیتی ہے )
ادب، موسیقی، مصوری اور تھیٹر بھرے پیٹ کے کھیل ہیں۔ جیب میں پیسہ نہ ہو تو انا کا غبارہ پچکائے رکھنے میں ہی عافیت ہے۔ شوق کام کی موت ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments