نوٹی فیکیشن اور ٹویٹ کے درمیانی پلاٹ پر لکھا اسکرپٹ (1)


ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ پر وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے نوٹی فیکیشن کو آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ایک دوٹوک ٹویٹ سے مسترد کر دیا ہے۔ اس پر مختصر تبصرہ یہ ہے کہ پاکستان اٹھارہویں صدی کا ہندوستان نہیں ہے، پاکستان کی فوج ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں ہے، پاکستان کے عوام کسی کی مفتوحہ رعایا نہیں ہیں اور منتخب وزیر اعظم دہلی کے قلعے میں مقیم پنشن گزار بادشاہ نہیں ہیں۔ آئیے، سیاسی قوتوں اور عسکری ادارے میں بالادستی کی کشمکش کے تاریخی اور اصولی زاویوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان کا قومی سفر آزادی کے بعد ہی سے ہموار نہیں تھا۔ ہندوستا ن کی تقسیم تبادلہ آبادی کے اتنے بڑے ہنگامے کے جلو میں نمودار ہوئی تھی جو معلوم انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی قوم نے زمانہ امن میں دیکھا ہو۔  قائد اعظم محمد علی جناح کی طاقتور شخصیت کے منظر سے ہٹتے ہی پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی کمزوریاں کھل کر سامنے آنے لگیں۔ ہندوستان میں مسلم اقلیت کی سیاسی جدوجہد معروف جمہوری اقدار سے مکمل مطابقت نہیں رکھتی تھی لیکن جن خطوں میں پاکستان قائم ہوا وہ تو سماجی معاشی اور اقتصادی اعتبار سے اور بھی پسماندہ تھے۔ پاکستان کا سفر جمہوریت سے گریز کی حیلہ جوئی سے یوں شروع ہوا گویا گھر کو کسی بھیڑیے کی دراندازی سے روکنا مقصود ہو۔ زرعی اصلاحات پر طول و طویل بحث اسی خدشے کی علامت تھی۔ پاکستان میں جمہوری حکمرانی کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے چار نکاتی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ زرعی اصلاحات سے گریز، آئین سازی کا التوائ، سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں میں شریک ہو کر عالمی سر د جنگ میں سرمایہ دار بلاک سے وابستگی اختیار کرنا تاکہ بین الاقوامی سر پرستوں کی آشیرباد سے اندرون خانہ من مانی کا کھیل کھیلا جا سکے۔ شبیر احمد عثمانی، ابوالا علیٰ مودودی، چوہدری خلیق الزمان اور سر آغا خان جیسے نابغوں کی مدد سے اسلامی نظام بلکہ بین الاقوامی اسلامستان کی ایسی بحث کا آغاز جس کی روشنی میں عوام کو ان کے حق حکمرانی سے محروم کیا جا سکے، اقلیتوں کو قومی دھارے سے کاٹا جا سکے، یک جماعتی آمریت قائم کی جا سکے، سیاسی اور غیر سیاسی طالع آزماﺅں کو اقتدار کا سر چشمہ بنایا جا سکے، چند خطوں کی باقی صوبوں اور علاقوں پر بالا دستی قائم کی جا سکے۔ غرض یہ کہ جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آنے والی جدید قومی ریاست کو مخبوط الحواس مہاراجوں کا رجواڑہ بنایا جا سکے۔ 1958ء تک پاکستان کے جسد نحیف پر چاند ماری کی یہ مشق مکمل ہو چکی تھی۔

جن ممالک میں سیاسی قیادت بلوغت نظر کا مظاہرہ نہیں کرتی اور عوامی حکمرانی کو راستہ دینے پر تیارنہیں ہوتی، وہاں بندوقوں والے خدائی فوجداروں کا آسیب نازل ہوا کرتا ہے۔ 1951ء سے پاکستانی فوج کا سپہ سالار بننے والے جنرل ایوب خان کو گورنر جنرل غلام محمد نے 1954ءمیں وزارت دفاع کا قلمدان دے کر کابینہ میں شامل کر لیا تھا۔ انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ افواج پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے ملازمت میں توسیع دی گئی۔ جس ملک میں پارلیمنت سے اعتماد کاووٹ لینے والے وزیر اعظم چند مہینے نہ نکال سکے وہاں ایوب خان آٹھ برس سے فوج کے سربراہ تھے۔ ان کے ذاتی عزائم اور جاہ پرستی کا راستہ کون روکتا۔ ایوب خان نے سات اکتوبر 1958ءکو پاکستان پر قبضہ کر لیا۔ 1954ءمیں مولوی تمیز الدین بنام وفاق پاکستان نامی مقدمے میں جسٹس منیر کے تکینکی فیصلے سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی قامت متعین ہو چکی تھی۔ ایوب خان کے غیر آئینی اقدام کے خلاف آئینی درخواست کے فیصلے میں ناروے کے ماہر قانون کیلسن کا غیر معروف اور غیر متعلقہ نظریہ ضرورت بروئے کار لایا گیا۔ یہی نظریہ ضرورت ساٹھ برس سے پیر تسمہ پا کی طرح پاکستان میں عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے کندھوں پر سواری کر رہا ہے۔ نظریہ ضرورت قانون کی بجائے طاقت اور اصول کی بجائے مفاد کی بالادستی کا آلہ ہے۔ ایوب خان کی دس سالہ حکومت نے ریاستی طاقت کے سامنے عوام کی بے اختیاری کو سند کا درجہ دیا۔ ملک کے دونوں حصوں میں جمہوری مکالمے کی عدم موجودگی میں عدم اعتماد، بیگانگی اور نفرت نے جنم لیا۔ سیاسی قیادت نے سبق سیکھا کہ عوامی مفادات کی پاسداری کیے بغیر شخص واحد کی چاپلوسی سے اقتدار کی سیڑھیاں کیسے چڑھی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں سیاست کو عوام کا پیدائشی حق سمجھنے کی بجائے ناقابل معافی جرم سمجھنے کی روایت نے جنم لیا۔ پاکستان میں اس قبیح تصور نے جڑ پکڑی کہ سیاسی سرگرمی کا واحد قابل قبول راستہ حکومت کی تائید کرنا ہے جب کہ حکومت کی مخالفت کرنا ریاست سے غداری ہے۔ یہ غداری حسین شہید سہروردی کرے تو گردن زدنی، باچا خان کرے تو نظر بند، فاطمہ جناح کرے تو اس پر زیڈ اے سلہری جیسے خود کاشتہ دانشور چھوڑ دیے جائیں۔

ایوب خان کا عہد ختم ہوا تو فیلڈ مارشل اپنا عطا کردہ دستور بغل میں دبا کر رخصت ہوئے اور مارشل لا کی بندوق جنرل یحییٰ خان کو سونپ گئے۔ جنرل محمد یحییٰ خان کی عسکری حکمرانی بیس دسمبر 1971ءکی رات تب ختم ہوئی جب ملک کا چھپن فیصد حصہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی، خانہ جنگی اور جنگ میں مرنے والے بنگالی یا غیر بنگالی کشتگان کی اصل تعداد اب تک معلوم نہیں ہو سکی۔ 95 ہزار جنگی قیدی بھارت کی تحویل میں تھے۔ مغربی پاکستان کا چھ ہزار مربع میل علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا اور آغا محمد یحییٰ خان کے مرتب کردہ آئین کی کاپیاں قومی اخبارات کے دفاتر میں موصول ہو رہی تھیں جسے جماعت اسلامی کے مولوی طفیل محمد پہلے سے اسلامی آئین قرار دے چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان حالات میں اکیس دسمبر 1971ءکو پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی جب 343 کے ایوان میں صرف 148 ارکان اسمبلی موجود تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلا بندوبست تھا جسے عوام نے اپنے ووٹوں سے حکومت کا اختیار بخشا تھا۔ اس حکومت میں بھی میدان جنگ میں شکست فاش کے باوجود فوج خود کو اس حد تک اقتدار کا سر چشمہ سمجھتی تھی کہ روز نامہ مساوات میں ایک تنقیدی اداریہ شائع ہونے پر فوج کے سربراہ گل حسن غصے میں پھنکارتے ہوئے ایوان صدر پہنچ جاتے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شمیم حسین قادری کسی حاضر سروس فوجی افسر کی سرزنش کرتے تھے تو ٹکا خان سنجیدگی سے وزیر اعظم تک شکایت پہنچاتے تھے۔ پلٹن گراﺅنڈ ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی فلم ٹیلی ویژن پر ایک ہی دفعہ دکھائی جا سکی۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ شائع نہیں ہو سکی گویا بھٹو صاحب کو ملنے والا اقتدار انتقال اقتدار سے زیادہ شرکت اقتدار کے زمرے میں آتا تھا۔ اس کے باوجود یہ جزوی اختیار پانچ جولائی 1977ءکو بندوق کے بل پر چھین لیا گیا۔ آئینی وزیر اعظم کو برطرف کر دیا گیا۔ عوام کے متفقہ آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ معزول وزیر اعظم کو تمام قانونی تقاضوں اور نظائر کے منافی سزائے موت دی گئی۔

چودہ اگست 1973ءکو نافذ ہونے والے پاکستان کے متفقہ دستور کو منسوخ کرنا ملکی وفاق کی جڑوں پر کلہاڑا چلانا تھا۔ یہ فعل دستوری حکمرانی کا خاتمہ اور عوام کے حق حکمرانی سے انکار تھا۔ جنرل ضیاالحق کی حکومت پاکستان کے لیے ایک طویل رات کا آغاز تھا۔ 1977ءکے بعد سے غیر نمائندہ، غیر آئینی اور شخصی طرز حکمرانی نے پاکستان میں گوناگوں بحران پیدا کیے اور مسائل کے پہاڑ کھڑے کیے۔ سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگائے گئے۔ عقوبت خانوں میں ان پر ایذا رسانی کے پہاڑ توڑے گئے۔ حریت پسند اخبارات پر کڑی پابندیاں نافذ کی گئیں۔ دوسری طرف غاصب طالع آزما کے دست جاہ پرست پر بیعت کرنے والے ہر سانس میں سیاسی عمل بالخصوص جمہوریت پر زبان طعن دراز کرتے تھے۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد کی شکل میں پاکستان کے ریاستی تشخص میں جو فتنہ بویا تھا جنرل ضیا الحق نے اس کی بھرپور فصل کاٹی۔ جنرل ضیا الحق کی نظر میں اسلامی نظام کے تین ہی پہلو تھے، جمہوری سیاسی عمل کا قلع قمع کرنا، وحشیانہ سزاﺅں کے ذریعے معاشرے کو انسانی مصائب سے لا تعلق کر کے اجتماعی شعور میں بے حسی کو فروغ دینا نیز اسلام کے نام پر عورتوں، اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کو قومی دھارے سے الگ تھلگ کرنا۔ جنرل ضیاالحق کے عہد حکمرانی کا دوسرا اہم پہلو بھی ماضی میں جڑیں رکھتا تھا۔ سیٹو اور سینٹو میں شرکت کر کے پاکستان نے سرمایہ دار بلاک سے جو تعلق پیدا کیا تھا ضیاالحق نے اسی کو توسیع دیتے ہوئے افغان جنگ میں پاکستان کو امریکا اور سعودی عرب کا ہر اول دستہ بنا ڈالا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی مذہبی قوتوں کو اسلحہ ملا، فوجی تربیت میسر آئی، مالی وسائل ملے۔ جدید امکانات سے بھرپور پاکستانی معاشرہ علمی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے پسماندہ مذہبی گروہوں کے ہاتھوں یرغمالی بن کر رہ گیا۔ 1985ء میں غیر جماعتی اسمبلی سے اپنے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کر اتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے آٹھویں ترمیم کے نام پر ملکی دستور حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔

1988ءمیں ضیاالحق کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد فوج نے سیاسی قوتوں کو اقتدار منتقل نہیں کیا بلکہ شراکتِ اقتدار کی ترکیب وضع کی۔ فوج نے اقتدار کے مرکز کی بجائے عقب نشینی اختیار کر کے سیاست دانوں کو گویا چاند ماری کے لیے پیش کر دیا۔ اگر اقتدار فیصلہ سازی کے اختیار ہی کا نام ہے تو یہ کہنا ظلم ہو گا کہ 1988ءسے 1999ءتک بینظیر بھٹو یا نواز شریف کبھی بھی اقتدار میں تھے۔ اس عرصے میں ایٹمی پالیسی، افغان پالیسی، کشمیر میں در اندازی اور دفاعی بجٹ جسے بنیادی امور پر سیاسی قیادت کو بارہ پتھر باہر رکھا گیا۔ اس کے علاوہ ہر دو سیاسی جماعتوں کو نت نئے بحرانوں میں الجھایا گیا۔ یہ درست ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت نے خود بھی اپنے درمیان قابل عمل رابطے استوار کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی نیم دلانہ کوششوں کو بھی فیصلہ کن انداز میں سبوتاژ کر دیا گیا۔

نیم جمہوری شراکت اقتدار کے اس تجربے سے بھیانک نتائج برآمد ہوئے۔ ملک میں سیاسی عمل کی بنیاد یعنی تربیت یافتہ سیاسی کارکنوں کی جنس ہی ناپید ہو گئی۔ مذہب کے نام پر کارروائیاں کرنے والے غیر سیاسی عناصر نے معاشرے کو یرغمال بنا لیا نیز جرائم پیشہ گروہوں اور نادیدہ قوتوں سے گٹھ جوڑ کر کے ریاست پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ شہری انتظامیہ کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ صحت اور تعلیم جیسی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ مسلسل عبوری عہد اور مناسب سیاسی جوابدہی کی عدم موجودگی میں شہری خدمات کے ڈھانچے منہدم ہو گئے۔ اس تاریک تصویر کا مجموعی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ 1999ءسے 2008ءتک پرویز مشرف کی غیر آئینی اور غیر اخلاقی طرز حکمرانی نے ہنگامی حالت کو دوامی پالیسی کا درجہ دے دیا۔ قوم کی اخلاقی بے حسی، عوام کی بیگانگی اور انفرادی مفاد کی دوڑ نے ان اندیشوں کو صحیح معنوں میں ہوا دی کہ پاکستان ایک ریاست کے طور پر ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

نوٹی فیکیشن اور ٹویٹ کے درمیانی پلاٹ پر لکھا اسکرپٹ (2)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments