نوٹی فیکیشن اور ٹویٹ کے درمیانی پلاٹ پر لکھا اسکرپٹ (2)


(پہلا حصہ)

نومبر 1988ءمیں بینظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو فوج کی کمان جنرل اسلم بیگ کر رہے تھے جب کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل تھے۔ اس موقع پر فوجی قیادت نے نو منتخب وزیر اعظم کو بریفنگ دینے کے لیے یہ کہہ کر ایوان وزیر اعظم جانے سے انکار کر دیا تھا کہ بریفنگ میں استعمال ہونے والے حساس نوعیت کے نقشہ جات وزیر اعظم ہاﺅس نہیں لے جائے جا سکتے۔ مجبوراً بے نظیر بھٹو کو جی ایچ کیو جا کر فوجی قیادت سے بریفنگ لینا پڑی تھی۔ اس کے دو ہی مطلب لیے جا سکتے تھے۔ برخود غلط عسکری قیادت سیاسی قیادت پر اپنی برتری جتانا چاہتی تھی یا یہ کہ ملک کی منتخب وزیر اعظم کو قومی سلامتی کے حساس معاملات پر اعتماد کے قابل نہیں سمجھا جا رہا تھا۔

بیس برس بعد مارچ 2008 میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اس موقع پر نئی قیادت کو قومی سلامتی اور دفاعی امور پر ایوان وزیر اعظم میں بریفنگ دی گئی جس میں  یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف، مخدوم امین فہیم، شہباز شریف اور اسحاق ڈار موجود تھے۔ اس بریفنگ کی ایک ہی تصویر تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس تصویر میں تمام سیاسی چہرے نظر آرہے تھے لیکن فوج کے سربراہ سمیت کسی عسکری اہلکار کی جھلک موجود نہیں تھی۔ یہ التزام کیا گیا تھا کہ عوام کو یہ معلوم نہ ہو پائے کہ سیاسی قیادت کے سامنے عسکری قیادت کی نشست و برخاست میں کیا استعارے پوشیدہ تھے۔ جنرل قمر باجوہ کے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد وزیر اعثظم نواز شریف سے ملاقات کی تصویر پر جو تبصرے گزشتہ نومبر میں سامنے آئے ان سے دراصل یہ اشارہ دینا مقصود تھا کہ پاکستان میں طاقت کے سرچشمے کا مرکز ثقل اپنے مقام سے ہٹا نہیں ہے۔

اس معملات کی نزاکت سمجھنے کے لئے 25 برس پیچھے چلیے۔ جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ تھے۔ ایک غیرسرکاری تقریب میں جنرل آصف کے علاوہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان، وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب بھی شریک تھے۔ اگلے روز تمام اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں صدر، وزیر اعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کی پر اشتیاق نگاہیں فوج کے سربراہ کو ہالہ کیے ہوئے تھیں۔ ہر تین حضرات نے مصافحے کے لیے دست بیعت دراز کر رکھا تھا جب کہ جنرل آصف نواز تینوں حضرات سے پرے کسی غیر متعین نکتے پر نظریں گاڑے ہوئے تھے۔ ایک سماجی تقریب میں لی گئی اس بظاہر غیر اہم تصویر کا اصل مقصد عوام پر یہ واضح کرنا تھا کہ طاقت کا اصل سرچشمہ کون ہے۔

پاکستان میں فوج اور سیاسی قیادت میں بالادستی کے لیے کشمکش کی تاریخ پرانی ہے۔ انسانی تاریخ کی ابتدا ہی سے فوجی قوت اقتدار کا سرچشمہ رہی ہے۔ جدید فلسفہ حکومت کے مطابق کسی معاشرے میں عسکری قوت پر علمی، پیداواری اور تمدنی قوتوں کی بالادستی قائم کیے بغیر امن، ترقی، استحکام اور خوش حالی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ پہلی عالمی جنگ میں فرانسیسی رہینما کلے منشو نے کہا تھا کہ جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ محض جرنیلوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ آزاد بھارت میں پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی سے لے کر اٹل بہاری واجپائی تک سیاسی قیادت کو مصمم ارادے اور پر عزم طریقے سے عسکری عزائم کو ان کی حدود میں رکھنا پڑا۔ پاکستان کی تاریخ بھی کچھ مختلف نہیں رہی۔

1947-48ء کے موسم سرما میں پاکستانی فوج کی سربراہی جنرل فرینک میسروی کے ہاتھ میں تھی جو دراصل فیلڈ مارشل آکن لیک کے ماتحت تھے۔ فیلڈ مارشل آکن لیک نئی دہلی میں بھارتی فوج کی قیادت کر رہے تھے۔ جنرل فرینک میسروی نے ریاست جموں کشمیر کے ضمن میں پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح کا حکم ماننے کے بجائے فیلڈ مارشل آکن لیک کو پاکستانی حکومت کے ارادوں سے آگاہ کر دیا۔ یہیں سے پاکستان میں اس روایت کی بنیاد رکھ دی گئی کہ فوجی حکام اپنی صوابدید کے مطابق سیاسی قیادت کی حکم عدولی کر سکتے ہیں۔

میجر جنرل اکبر خان کی وجہ شہرت 1947ءکا کشمیر آپریشن اور راولپنڈی سازش کیس ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ر قم طراز ہیں کہ انہوں نے ایک سرکاری تقریب میں گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو کشمیر کی پالیسی کے حوالے سے کچھ تجاویز دینے کی کوشش کی لیکن قائد اعظم نے انہیں بری طرح ڈانٹ دیا کہ بحیثیت فوجی جنرل کے ان کا کام پالیسی تشکیل دینا نہیں، حکم ماننا ہے۔ قائد اعظم کے بعد کس سیاسی رہنما کی مجال تھی کہ فوجی قوت کو للکار سکے۔

فیلڈ مارشل ایوب خان اپنی خود نوشت سوانح ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“میں لکھتے ہیں کہ وزیرا عظم لیاقت علی خان سرکاری فائلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کاغذات کو ایک خاص زاویہ پر رکھتے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کی نظر کچھ کمزور ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوج کے چوالیس سالہ سربراہ جنرل ایوب خان کو اس میں کیا دلچسپی تھی کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بصارت کمزور ہو رہی ہے یا نہیں۔ دراصل فوجی افسر ہونے کے ناتے ایوب خان بصارت اور بصیرت میں تمیز کرنے سے قاصر تھے۔

حسین شہید سہروردی مشرقی پاکستان کے مقبول سیاسی رہنما تھے اور راولپنڈی سازش کیس میں وکیل صفائی تھے۔ مقدمے کی کارروائی میں سہروردی نے اپنے مخصوص انداز میں فوج کے کردار پر لطیف پیرائے میں چوٹیں کیںجو ایوب خان کی طبع نازک پر سخت گراں گزریں۔ وہ اپنی کتاب میں واضح طور پر لکھتے ہیں کہ جب انہیں سہروردی کی کابینہ میں وزیردفاع کے طور پر کام کرنا پڑا تو انہوں نے وزیر اعظم سہروردی کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ وزرات دفاع میں مداخلت پسند نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ ایوب خان فوج کے سربراہ کی حیثیت سے سیکرٹری دفاع کے ماتحت تھے اور وزیر دفاع کی حیثیت سے سیکرٹری دفاع کے افسر بالا بھی تھے۔ وہ ایک ایسے وزیر اعظم سے شوخ چشمی پر اترا رہے تھے جو پارلیمنٹ کی حمایت سے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھا۔

اپنی فوجی تربیت کے باعث ایوب خان سیاسی عمل اور معاشرتی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی شخصی وجاہت اور قائدانہ صلاحیت کی بدولت پیچیدہ سیاسی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوریت کو ایک غیر ضروری بکھیڑا اور سیاسی رہنماﺅں کو کندہ نا تراش اتائی سمجھتے تھے۔ جمہوریت میں بظاہر ایک افراتفری اور ہنگامے کی سی کیفیت نظر آتی ہے لیکن اس بے ترتیبی میں ایک نامیاتی حسن موجود ہوتا ہے جسے دو چار سو وردی پوش تنخواہ دار فوجیوں پر حکم چلانے والے فوجی افسر سمجھ نہیں سکتے۔ پنڈت نہرو نے اپنی سیاسی مہارت کی بدولت ایوب خان کو ہر موقع پر نکو بنا کر رکھ دیا۔ 1964ءمیں پندت نہرو کے انتقال کے بعد لال بہادر شاستری ہندوستان کے وزیر اعظم بنے۔ لال بہادر چھوٹے قد اور اکہرے بدن کے انسان تھے اور بظاہر ان کی شخصیت رعب اور دبدے سے خالی تھی۔ 1965ءکی جنگ میں ایوب خان باقاعدہ اس زعم میں تھے کہ دو بالشت کا منحنی لال بہادر شاستری ان کی بلند و بالا اور سرخ و سپید شخصیت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ لال بہادر شاستر ی نے جنوری 1966ءمیں تاشقند مذاکرات کے موقع پر ایوب خان کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ لال بہادر شاستری ہندوستان کے جمہوری وزیراعظم تھے، پاکستان کے سیاسی رہنما نہیں تھے جنہیں ایوب خان ایبڈو کا قانون لاگو کرکے منظر سیاست سے غائب کر دیتے۔

جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969ءمیں میجر جنرل پیر زادہ، میجر جنرل گل حسن اور لیفٹیننٹ جنرل حمید خان سے مل کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ فوجی طالع آزماﺅں کے اس ٹولے کا خیال تھا کہ وہ سیاسی رہنماﺅں کو اپنی انگلیوں پر نچائیں گے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن نے اپنی یاد داشتوں میں فروری 1971ءمیں راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ایک اعلیٰ فوجی اجلاس کا ذکر کیا ہے۔ ایڈمرل احسن کے بقول پنڈی کے فوجی حکام کا عمومی رویہ یہ تھا کہ حکم ملنے کی دیر ہے، فوج کی ایک کمپنی کالے بھجنگ بنگالیوں کو سیدھا کر دے گی۔ اس ضمن میں لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان اور لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کے خیالات تاریخ کا حصہ ہیں۔ انتخابی عمل سے قوت پانے کے بعد مجیب الرحمن نے فوجی تانا شاہی کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دئیے۔ ذوالفقارعلی بھٹو دسمبر 1971ءکے واقعات کو فوجی شکست کہا کرتے تھے جو دراصل شکست خوردہ فوج کی دلجوئی کا ایک اصطلاحی ڈھنگ تھا۔

16دسمبر 1971ءکو پاکستان کے حصے میں آنے والی شکست فوجی سے زیادہ سیاسی ناکامی تھی۔ مشرقی بنگال کے سیاسی رہنماﺅں نے مغربی پاکستان کی فوجی قیادت کو شکست دی تھی۔ گوجرانوالہ اور چند دوسرے مقامات پر نچلے درجے کے فوجی افسروں میں بے چینی نہ پھیلتی تو یحییٰ خان اقتدار چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ اس زمانے میں نامور صحافی احمد بشیر پیپلز پارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کا اداریہ لکھا کرتے تھے۔ احمد بشیر نے 20 دسمبر 1971ءکو ایک سخت اداریہ میں پاکستان کی عسکری قیادت کو بری طرح لتاڑا تھا۔ اسی شام بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھال لیا۔ احمد بشیر روایت کرتے تھے کہ اگلے دن جنرل گل حسن سخت غصے میں ایوان صدر پہنچے اور مساوات کا ادارتی صفحہ بھٹو صاحب کی میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو صدر بناتے ہیں اور آپ ہمارے خلاف اداریے لکھواتے ہیں۔ گویا جنرل گل حسن کی دانست میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار فوج نے دیا تھا، پاکستان کے عوام نے نہیں، جنہوں نے انہیں مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی 81نشستیں دلائی تھیں۔

ایک گواہی اس پر خالد حسن سے بھی لے لیں ۔ خالد حسن بھٹو صاحب کے پریس سیکریٹری تھے۔ ایچ کے برکی پاکستان ٹائمز کے معروف صحافی تھے ۔ انہوں نے اپنے اخبار میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں جنرل یحییٰ ، لیفٹیننٹ جنرل حمید خان اور دوسرے جرنیلوں کی ان غلطیوں سے پردہ اٹھانا مقصود تھا جن کے نتیجے میں پاکستان کا خانہ خراب ہوا۔ انگریزی زبان ایچ کے برکی کی انگلیوں پر ناچتی تھی۔ انہوں نے 1970ءوالی فوجی جنتا کے لیے وہ اصطلاح استعمال کی جو ہٹلر کے جرنیلوں کے لیے برتی گئی تھی۔ ”Fat and flabby generals “ اس کا اردو ترجمہ مشکل ہے۔ ’عسکری سالاروں کی موٹی تھل تھل کرتی راسیں ‘ شاید کام دے جائے۔ بھٹو کوئٹہ سٹاف کالج کے دورے پر گئے تو فوجی افسروں نے ایچ کے برکی کے لب و لہجے کی شکایت کی۔ بھٹو صاحب نے خالد حسن سے کہا کہ برکی صاحب کو فون کر کے استدعا کرو کہ ’ہاتھ ہلکا رکھیں‘۔

پاکستان ٹیلی ویژن 16دسمبر 1971ءکو پلٹن گراونڈ ڈھاکہ میں جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی فلم ایک ہی بار نشر کر سکا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ تیس برس بعد 2002ءمیں جزوی طور پر جاری کی جا سکی۔ جنرل گل حسن نے اپنی خود نوشست یادداشتوں کا عنوان ”آخری کمانڈرانچیف“ رکھا۔ اس میں یہ التزام تھا کہ تیس دسمبر 1971ءکو جب گل حسن فوج کے سربراہ بنے تو پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس قانونی نکتے کا سہارا لے کر گل حسن خود کو متحدہ پاکستان کا ’آخری کمانڈرانچیف‘ قرا ر دیتے تھے اور شخصی انا کی تسکین پاتے تھے۔ 2مارچ 1972ءکو بھٹو صاحب نے جنرل گل حسن اور ائیر مارشل رحیم خان کو فوج سے برطرف کیا۔ گل حسن کی یادداشتوں میں اس کی تلخی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب ایک ایسے سربراہ مملکت تھے جو فوج پر سیاسی قوتوں کی بالادستی کی ضمانت دے سکتا تھا۔ یہ تاثر درست نہیں۔ جسٹس جاوید اقبال ان دنوں ہائی کورٹ کے جج تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ جسٹس شمیم حسین قادری نے لاہور ہائی کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران بطور فریق پیش ہونے والے ایک حاضر سروس کرنل کو ڈانٹ دیا۔ اس کی شکایت جنرل ٹکا خان کے ذریعے بھٹو صاحب سے کی گئی۔ بھٹو صاحب نے جسٹس شمیم حسین قادری کو پیغام بھیجا کہ وہ احتیاط سے کام لیں۔ بھٹو صاحب کے لفظوں میں ”ابھی ہم جنگل سے باہر نہیں نکلے“۔ بھٹو صاحب اس جنگل سے کبھی نہیں نکل سکے۔

(جاری ہے)

نوٹی فیکیشن اور ٹویٹ کے درمیانی پلاٹ پر لکھا اسکرپٹ (3)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments