فوج کا ٹویٹ، ردعمل اور بے بس سیاست دان (2)


فوج نے دراصل اسی قسم کی اشتہاری مہموں، حامی گروہوں اور میڈیا میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے عوام کو یہ باور کروا دیا ہے کہ فوج کبھی غلطی نہیں کرتی بلکہ وہ تو ملک و قوم کے نام پر جان قربان کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ آنجہانی بھارتی اداکار اوم پوری نے پاک بھارت تنازعہ اور لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزیوں میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بھارتی ٹی وی اینکر کے جارحانہ سوالوں کے جواب میں کہا تھا کہ ’’میں نے تو انہیں فوج میں جانے کےلئے نہیں کہا تھا۔ انہوں نے خود فوج میں بھرتی ہو کر یہ کیرئیر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘‘۔ اس تبصرہ پر جہاں بھارت میں اوم پوری کو ملک دشمنی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو پاکستان میں اس تبصرہ کو سراہا گیا اور کئی اینکر مزے لے لے کر یہ بیان سناتے رہے تھے گویا پاکستان کے کسی سپاہی نے بھارت میں جا کر کوئی میدان مار لیا ہو۔ کیا اس بیان کو پاکستان کی فوج کے کردار پر منطبق کرکے دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی مبصر پاکستانی فوج سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’حضور آپ ضرور سرحدوں پر کھڑے ہیں۔ ان حالات میں بعض اوقات جان سے ہاتھ بھی دھونے پڑتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ بھی تو آپ نے ہی کیا تھا۔ پاکستان میں لازمی بھرتی کا قانون تو ہے نہیں۔ لہٰذا جو نوجوان ایک سنہری اور مالی طور سے فائدہ مند کیرئیر اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہی فوج میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ قربانی نہیں ہے۔ یہ آپ کا کام ہے۔ قوم اس کام کےلئے آپ کو بھاری معاوضہ ادا کرتی ہے اور آپ اس کیرئیر میں جو سہولتیں حاصل کرتے ہیں، عام سرکاری ملازمین تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔ یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کا سوال اٹھانے والا کوئی بھی شخص ملک و قوم کا سب سے بڑا غدار کہلائے گا۔

اس ماحول میں فوج کا ایک افسر جب منتخب وزیراعظم کے حکم نامہ کا ایک ٹویٹ کے ذریعے خاکہ اڑاتا ہے اور اسے مسترد کرنے کا اعلان کرتا ہے تو سیاستدان اور مبصر تو اس کے اختیار اور ضرورت پر سوال نہیں اٹھائیں گے لیکن فوجی قیادت پر یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ آئی ایس پی آر کے سربراہ سے جواب طلب کرے کہ انہوں نے اپنے اختیار سے تجاوز کرنے کی کوشش کیوں کی۔ اگر یہ اعلان اور الفاظ کا چناؤ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مرضی اور ہدایت پر جاری ہوا تھا تو انہیں قوم کو یہ جواب دینا چاہئے کہ کیا فوج ملک کے آئین میں متعین اپنے کردار کو تسلیم کرتی ہے یا وہ ہر وقت ملکی سیاست میں سپر مین کا رول ادا کرنے کےلئے تیار رہے گی اور اسے اپنے دائرہ کار اور وزیراعظم کے اختیار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اصولی طور پر تو یہ سوال پوری قوت سے ملک کے ہر کونے اور ہر طبقے کی طرف سے اٹھایا جانا چاہئے۔ ملک کے جمہوری انتظام اور آئینی نظام کو فوج کی پسند اور ناپسند کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کل بھی غلط تھی، اس کا کسی بھی طرح اظہار آج بھی ناجائز اور غیر آئینی ہے۔ یہ اصول طے شدہ ہے۔ اور جب بھی اس کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے تو اس کی حفاظت کے ذمہ دار لوگ اور عناصر خود ہی چھلانگ لگا کر فوج کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ جمہوریت کے تسلسل کےلئے یہ بات بھی تسلیم کروا لی گئی ہے کہ ملک میں کوئی حکومت فوج کی درپردہ توثیق کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی۔

ڈان لیکس کے جس معاملہ کو سابق آرمی چیف کے پرجوش انداز قیادت کی وجہ سے قومی سلامتی کا اہم ترین معاملہ بنا دیا گیا تھا، وہ دراصل ایک معمولی اخباری رپورٹ تھی جس میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی تھی کہ فوج کے ادارے ابھی تک بعض ایسے عناصر کی سرپرستی کر رہے ہیں جو ملک میں شدت پسندی کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں اور سول ادارے ان کے خلاف کارروائی میں ناکام رہتے ہیں۔ اگر یہ رپورٹ حقیقی رپورٹنگ کی بجائے افسانہ بھی تھی تو بھی یہ ایسی سچائی کا اظہار تھا جو پوری دنیا کے علم میں ہے اور جس کے مظاہر عام لوگوں کے مشاہدہ میں بھی آتے رہتے ہیں۔ اگر سکیورٹی اداروں میں یہ مزاج موجود نہ ہوتا تو فوج کے ساتھ دارالحکومت کے بیچ مسلح جنگ کرنے والا مولانا عبدالعزیز پوری آن بان سے اب بھی لال مسجد سے اپنی زہر آلود باتیں کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ اور نہ ہی حافظ سعید کو صرف حفاظتی حراست میں لے کر منظر نامہ دور کرنے کی کوشش نہ کی جاتی تاکہ امریکہ کو یقین دلایا جا سکے کہ پاکستان کی حکومت انتہا پسند عناصر کے خلاف پوری طرح سرگرم ہے۔ ڈان لیکس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا منتخب وزیراعظم بھی اس معاملہ پر فوج کے احتجاج اور غم و غصہ کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ وہ فوج کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر آپ کو ان باتوں کے اظہار پر اعتراض ہے تو اس رویہ کو ترک کرنے میں ہی بھلائی ہے۔ یہی کمزوری ملک میں جمہوری نظام کی ترویج میں رکاوٹ اور فوج کو غیر ضروری قوت اور حق قیادت دینے کا سبب بن رہی ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ پر آنے والے تبصروں میں بالکل اسی طرح اصل مسئلہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشعال خان کے قتل کے بعد رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی حوصلہ افزائی پر طالب علموں کے ہجوم نے ایک طالب علم پر الزام تراشی کرتے ہوئے اسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ اس قتل کو مسترد کرنے کےلئے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ مشعال خان توہین مذہب کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔ اسے بے گناہ مارا گیا۔ گویا اگر خدانخواستہ اس سے مذہب کے خلاف کوئی کلمات سرزد ہوئے ہوتے تو اسے مارنا جائز تھا۔ اسی طرح آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہنے سے گریز کیا جا رہا ہے کہ فوج اپنے اختیار سے تجاوز کر رہی ہے اور اس طرز عمل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ البتہ یہ تبصرہ زور و شور سے کیا جا رہا کہ حکومت نے ڈان لیکس پر شفاف کردار کا مظاہرہ نہیں کیا یا اس معاملہ میں ملوث اصل لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہی اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ اور رویہ ناپید ہو چکا ہے۔ اسی لئے مشعال خان کے قاتلوں کی حمایت میں مردان میں 8 ہزار افراد نے مظاہرہ کرکے مشعال کے خلاف نعرے لگائے۔ اور نواز شریف کو مسترد کرنے کے شوق میں لاتعداد سیاست دان اور مبصر فوج کی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی توپوں کا رخ حکومت کی طرف پھیر کر گولہ باری میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments