ڈان لیکس اور اک سوال سادہ سا!


سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جب عمران خان نے اپنا تاریخ ساز 126 دن کا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تو ناقدین نے خان صاحب کو ناکام دھرنے کے طعنے دینے شروع کردیئے۔ حقیقت مگریہ ہے کہ دھرنا ناکام بالکل نہیں ہوا تھا البتہ اتناضرور ہوا کہ جن مقاصد کے لیے دھرنے کا اہتمام کیا گیاتھا ان مقاصد کو سمجھنے میں لوگوں کو شاید غلط فہمی ہوئی۔

دھرنے سے پہلے پاور پالیٹیکس میں منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی جو پوزیشن تھی دھرنے کے بعد وہ باقی نہیں رہی۔ اور اسی وجہ سے جب خان صاحب نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا تو قومی اسمبلی میں محمودخان اچکزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کیا وجہ ہے کہ جس دن پارلیمنٹ اور گورنمنٹ گن پوائنٹ پر اپنے جائز آئینی اختیارات سرینڈر کر گئے اسی دن عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ کیا خان صاحب نے یہ میلہ صرف پارلیمنٹ کی چادر چرانے کے لیے تو نہیں سجا رکھا تھا؟

پانامہ لیکس کے معاملے پر اب ایک بار پھر وہی صورتحال ہے۔ یہ معاملہ جب سپریم کورٹ میں چلا گیا تو کورٹ کا فیصلہ ماننے کا اعلان نہ بھی کیا جائے تب بھی فیصلہ نہ ماننے کی گنجائش نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود سماعت کے لیے کیس کی منظوری کے وقت دونوں فریق نے کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ 20 اپریل کو جب عدالت نے فیصلہ سنایا تو یہ فیصلہ نوازشریف کے مفاد میں ہرگز نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن 20 اپریل کے دن 2 بجے سے اگلی رات تک لڈو بانٹتے اور کھاتے رہیں۔ رات کو عدالت کی فیصلے میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوئی مگر خان صاحب اگلے دن تبدیل ہویے نظر آ گئے۔ 20 اور 21 اپریل کے درمیانی رات میں ایسا کیا کچھ ہوگیا کہ کل کا جشن اچانک ماتم میں بدل گیا۔ خان صاحب نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوے احتجاجی جلسوں کا اعلان کردیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر نوازشریف نے ان کے مطالبے پر ہی استعفی دینا ہوتا تو انہیں سپریم کورٹ جانے کی نوبت ہی نہ آتی۔

اس کے بعد عدالت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی کے حوالے سے حیرت انگیز طور پر فوج کی کور کمانڈرز کانفرنس نے تبصرہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ فوج اس جے آئی ٹی میں سپریم کورٹ کی توقعات کے مطابق شفاف کردار ادا کرے گی۔ ذمہ دار قومی اداروں سے یقینا شفاف کردار کی ہی توقع کی جاتی ہے مگر کورکمانڈرز کانفرنس کو یہ یقین دہانی کرانے اور پھر اخبارات کو جاری ہونے والی کانفرنس کی رپورٹ میں اس کا ذکر شامل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور اس کے بعد کل آئی ایس پی آر کی rejected والی ٹویٹ۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اس سے فوج اور حکومت کے تعلقات خراب ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹویٹ پہلے سے ہی خراب تعلقات اور حکومت کو پریشرائز کرنے کی پہلے سے ہی جاری کوششوں کا ہی تسلسل ہے۔ ڈان لیکس پر حکومت اب تک اپنے دو اہم وزرا کی قربانی دے چکی ہے۔ اس کے بعد نوازشریف شمالی کوریا کے کم جونگ اون کی طرح پریڈ میں اونگھنے کی جرم میں لوگوں کو توپ کے سامنے باندھ کر اڑا تو نہیں سکتے۔

اس سلسلے میں ایک توجہ طلب بات دوسری بھی ہے

اگر معاملہ واقعی ڈان لیکس کا ہے تو پھر ایک سوال بہت سادہ سا ہے۔ ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ درست تھی یا غلط؟

اگر رپورٹ صحیح تھی تو پھر اس کے لیک ہونے سے زیادہ اہم وہ باتیں ہیں جورپورٹ میں درج ہیں۔ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سویلین قیادت کو واقعی اتنے سنگین خدشات ہیں؟ اگر ہیں تو کیوں ہیں؟

اور اگر شائع شدہ رپورٹ ہی غلط ہے تو پھر ’لیک‘ کونسی چیز ہوئی ہے؟ جھوٹ اور پروپیگنڈے پر مبنی رپورٹیں تو روز شائع ہوتی ہیں۔ ڈان کی رپورٹ بھی انہی میں سے ایک سہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).