محنت کش طبقے پر بھی نظر عنایت ہو


یکم مئی دُنیا بھر کے مزدوروں، محنت کشوں، ورکرز اور نچلے درجے کا ملازم پیشہ لوگوں اور مرد خواتین کیساتھ مجموعی اظہار یکجہتی ہے۔ اس دِن اس عہداور ارادے کی تجدید اور اعادہ کیاجاتا ہے کہ ہم سب مل کر اس اس پسے ہوئے مظلوم طبقے کے حقوق کا تحفظ کریں گے اور سب مل کر ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے عملی اقدامات کریں گے۔ مزدور اور محنت کش کسی بھی قوم اور ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی میں مرکزی کردار اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری مجموعی نشوونما کی بنیادی اکائی اور لازمی جزو ہیں۔ ان کے بغیر کوئی ملک یا قوم کما حقہ ترقی نہیں کرسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت وطن عزیز میں رجسٹرڈ مزدورں اور محنت کشوں کی تعداد 4کرورڑ سے زائد ہے۔ ان میں تقریباً 47فیصد زراعت، 10فیصد مینو فیکچرنگ اور کان کنی اور تقریباً 43فیصد دوسرے شعبوں سے وابستہ ہیں۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 37ای کے مطابق ایسا ماحول اور اقدامات کرنا لازمی قرار دیے گئے ہیں کہ جس کے مطابق مزدور اور محنت کش طبقہ آسانی سے اپنا کام سر انجام دے سکے۔ آرٹیکل 11کے تحت جبرا ً مشقت اور غلامی نیز چائلڈ لیبر سختی سے منع کی گی ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات اور کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے مزدوروں کو یونین بنانے اورا پنے حقوق کے تحفظ کے لئے پلیٹ فارم بنانے کا حق حاصل ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں6سے زائد لیبر پالیسیاں اور لیبر لا ز متعارف ہو چکے ہیں لیکن آج بھی مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمدکا ہے۔

مزدوروں اور محنت کش طبقے کے مسائل بے شمار ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں دونوں اس طبقے کے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ کنکرنٹ لسٹ میں شامل ہیں۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے معاشی، سماجی، قانونی، تعلیمی اور صحت سے متعلقہ بنیادی حقوق پر بہت سارا کام کیا جانا ابھی باقی ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے مزدور اور محنت کش طبقہ کا شمار دنیا کے محنتی، جفا کش یا جانفشا اور ذہین لوگوں میں کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستانی دنیا کے چاروں کونوں میں اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر وہاں کی مقامی ترقی میں اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ہمار ا بہت بڑا سرمایہ اور اثاثہ ہیں۔

یہ بات طے ہے کہ مزدور اور محنت کش طبقے کو جس قدر زیادہ مراعات اور سہولیات دیں جائیں گی یہ لوگ اُتنی ہی دلجمعی اور جانفشانی سے زیادہ بہتر خدمات سرا نجام دے سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف مجموعی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے ترقی اور خوشحالی کے امکانات بھی زیادہ وسیع اور واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جہاں مزدوروں اور محنت کشوں کو دیگر سہولیات اور مراعات حاصل ہیں وہاں فیکٹریوں، کارخانوں، اور ملوں کے ساتھ ہی سکول، کالج، نرسریاں، ہسپتال، پارک، ڈسپنسریاں بھی قائم ہیں۔ صاف ظاہر ہے وہا ں محنت کش طبقوں کو اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور شادیوں کی فکر نہیں ہوتی۔ ان کے ادارے ان کے لئے سہولیات فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف یہ بلکہ مجموعی منافع میں بھی حصہ ملتا ہے۔ وہاں ٹریڈ اور لیبر یونینز بڑی متحرک اور فعال ہوتی ہیں۔ جاپان، جرمنی، برطانیہ، یورپ، امریکہ اور دیگر بہت سے ممالک میں بچوں کو سکول و کالج کے دور ہی سے فنی اور ٹیکنیکل تعلیم دی جاتی ہے۔ سکولوں میں ہی ورکشاپس موجود ہوتی ہیں جہاں طلبہ و طالبات کو ہنر سکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں چھوٹے موٹے کام لو گ خود ہی کر لیتے ہیں۔ انہیں اس کے لئے دوسروں کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔ ان ممالک میں اصل چیز سے زیادہ اُجرت مشینری کی مرمت کی ہوتی ہے۔

اگر چہ حکومت نے ملک میں کم ازکم تنخواہ 15ہزار ماہانہ کرنے کا اعلان اور وعدہ کیا تھا لیکن یہ ابھی تک11 ہزار سے بڑھی نہیں ہے حتیٰ کہ اکثر جگہوں پر تو 7سے 8ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور اس سے بھی کم دی جارہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں اور محنت کشوں کی تنخواہیں مہنگائی اور روز مرہ کی ایشیاکی قیمتوں کے مطابق بڑھائیں۔ کم ازکم یومیہ اُجرت 7 سو اور ماہانہ 20ہزار سے کم نہیں ہونی چاہیے تاکہ ایک محنت کش اور مزدور کا چولہا جل سکے اور مناسب طریقے سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم و صحت پر توجہ دے سکے۔ جس لحاظ اور رفتار سے مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اُسی لحاظ سے مزدوروں، محنت کشوں اور ملازمت پیشہ لوگوں کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں۔ لیکن بے روزگاری ضرور بڑھ رہی ہے۔ بجلی، گیس اور توانائی کے بحران نے سب سے زیادہ متاثر یومیہ اور ماہانہ بنیادوں پر کام کرنے والے مزدورں اور محنت کشوں کو کیا ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں۔ لاکھوں مزدوروں ومحنت کش بے روزگار اور کروڑوں خاندانوں کے افراد بھوک اور پیاس نیز فاقوں کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور غربت نے مزدوری اور محنت کشوں کو مختلف جرائم کی طرف دھکیل دیا ہے۔ چوری، ڈاکے، خود کشیاں اور لڑا ئی جھگڑے روز کا معمول بن گئے ہیں۔

ہمارے وطن عزیز کا مزدور اور محنت کش آج اس جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دور اور 21ویں صدی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہماری کمزوری اور تباہی کی ایک وجہ ہمارے اس اہم طبقے کا پیچھے رہ جانا ہے۔ ہمار ا مزدور اور محنت کش ان پڑھ ہے۔ اُسے کوئی ہنر، فنی ٹیکنیکل مہار ت حاصل نہیں۔ لہٰذا وہ ترقی کی دوڑ میں خود تو پیچھے رہ ہی گیا ہے۔ ساتھ وہ مجبور ہو کر اپنی اولاد کو بھی ان پڑھ اور غیر ہنر مند بنا کر ہمارے ملک کا مستقبل تاریک بنا رہا ہے۔

ہمار ا مزدور اور محنت کش مسائل کی آما جگاہ ہے۔ اُس کے پاس زیادہ ہنر نہیں ہے۔ اس کی باقاعدہ ٹریننگ اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کا اہتمام نہیں ہے۔ اس کے اوقات کا ر مخصو ص نہیں۔ اُجرت فکس نہیں۔ جاب سکیورٹی نہیں ہے۔ اس کی صحت اس کے بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کے انتظامات نہیں ہیں۔ رہائش کا بندو بست نہیں۔ تفریحی کے لئے کم مواقع ہیں۔ بونسز اور الاؤنسز طے شدہ نہیں۔ آج بھی بھٹہ مزدور وں سے جبرا ً مشقت لی جاتی ہے۔ اُن کے گردے اور جسم کے اعضا ء کی غیر قانونی خریدو فروخت جاری ہے۔ جاگیر دار آج بھی اپنے مزارعوں کا ا ستحصال کر رہا ہے۔ نہ اس کی باقاعدہ تنخواہ ہے اور نہ تعطیل۔ آج بھی میڈیا پر زنجیروں میں جکڑے بے بس غربت زدہ مزدوروں اور محنت کش اپنے حقوق کی صدا بلند کرنے سے قاصر ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے اور یوم مئی کا تقاضابھی یہی ہے کہ ہم سب بحیثیت قوم اور مجموعی طور پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر حکومت اور شہریوں سمیت اپنے اپنے ارد گرد پائے جانے والے ہم سے منسلک مزدور محنت کش، ملازم پیشہ لوگوں اور ورکرز کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کریں۔ ضروری ہے کہ باقاعدہ مزدور وں کی رجسٹریشن ہو۔ ہر سطح پر ان کا ڈیٹا اور ریکارڈ ہو اور ضرورت پڑنے پر ملک اور بیرون ملک اس افرادی قوت سے کام لیا جا سکے۔ بے روزگارافراد اور ان پڑھ لوگوں کو فنی ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ مہارت اور ہنر سکھایا جائے۔ مزدوروں، محنت کشوں اور ورکرز کے لئے باقاعدہ ٹریننگ اور ٹیکنیکل سیشن اور پروگرام منعقد ہوں۔ نئی مشینز اور ٹیکنالوجی سے ان کو متعارف کرایا جا ئے۔ اوقات کار مقرر ہوں۔ باقاعدہ کنٹریکٹ پر دستخط ہوں۔ 18سال سے کم اور 60سال سے زائد افراد سے لیبر اور کام نہ کرا یا جائے۔ مزدور اور محنت کشوں کی انشورنش، سوشل سیکورٹی اور ای۔ او۔ بی۔ وکرز ویلفئیر فنڈ، صحت کی سہولیات تعلیمی وظائف اور رہائش و کھانے اور تفریحی مواقع میسر کرنے کے لئے عملی اقدامات اُٹھائے جائیں۔ جاب سیکیورٹی اور حادثے کی صورت میں علاج و معالجہ کی سہولیات اور مراعات ہونی چاہیے۔ حکومت مزدور اور لیبر یونین اور ٹریڈ آرگنائزیشن کو باقاعدہ مل بیٹھنا چاہیے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے چاہیے۔ ٹریڈ یونینیز اور لیبر آرگنائزیشن کو باقاعدہ انتخابات کروا کر زیادہ فعال اور متحرک کردار ادا کرنا چاہیے۔ اضافی اوقات میں کام کے علیحدہ چارجز طے ہوں۔ جبری مشقت پر سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔ جبری مشقت کروانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ انہیں سزا ئیں دی جائیں۔ مزدوروں اور محنت کشوں میں اپنے حقوق سے آگاہی کے لئے اقدامات اُٹھا ئے جانے چاہیے۔ لیبر کورٹ اور لیبر قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ تبھی جا کر ہمار ا مزدور خوشحال ہو گا تو ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔ اس کا مثبت اثر ہم سب پر پڑے گا۔

آپ کی جانب سے بس ذرا نظر کرم کی ضرورت ہے۔ ایک نظر ذرا مزدوروں ا ور محنت کش لوگوں کے لئے بھی ہو جائے تو آپ سرکار کی بہت مہربانی اور عین نوازش ہو گی۔

اسلم بھٹی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم بھٹی

اسلم بھٹی ایک کہنہ مشق صحافی اور مصنف ہیں۔ آپ کا سفر نامہ ’’دیار ِمحبت میں‘‘ چھپ چکا ہے۔ اس کے علاوہ کالم، مضامین، خاکے اور فیچر تواتر سے قومی اخبارات اور میگزین اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ آپ بہت سی تنظیموں کے متحرک رکن اور فلاحی اور سماجی کاموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔

aslam-bhatti has 40 posts and counting.See all posts by aslam-bhatti