کیا یونیورسٹیزجدید تعلیم کے نام پر قائم کئے گئے کوٹھے ہیں؟


اپنے پچھلے آرٹیکل میں میں نے چترال کی شاہی مسجد کے امام خلیق الزماں کے کردار کو سراہنے کے ساتھ ساتھ مدرسوں کے بارے میں عام لوگوں کی رائے کا بھی ذکر کیا تھا۔ کچھ لوگوں کو وہ ذکر پسند نہیں آیا اور انہوں نے کافی سخت الفاط میں تبصرے بھی کئے۔ ان میں سے ایک تبصرہ ‘ہم سب’ کے فیس بک پیج پر میرے آرٹیکل کی پوسٹ پر کیا گیا۔ یہ صاحب اپنی فیس بک پروفائل کے مطابق شاہ عبدالطیف یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کے طالبعلم ہیں۔ ذیل میں دیا گیا ان کا کمنٹ تصویر میں ملاحظہ فرمائیں۔  اس سے اضافی فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو یونیورسٹی کے طالب علم کی املا، گرامر اور استدلال سے بھی تعارف ہو جائے گا۔

ان صاحب کا کمنٹ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی یونیورسٹیز کو دل سےتسلیم نہیں کیا گیا۔ ابھی بھی ہمارے درمیان ایک طبقہ ایسا ہے جو یونیورسٹیز کو فحاشی کا اڈہ یا کوٹھے سے کم رتبہ دینے پر تیار نہیں۔ ان کے نزدیک یونیورسٹیز میں بے حیائی کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھا۔ یہ بات کہتے ہوئے یہ لوگ ان لاکھوں لوگوں کو بھول جاتے ہیں جو اپنی اپنی یونیورسٹیز کی ڈگری اور اپنی محنت کے بل پر اس ملک کو چلا رہے ہیں۔

 یونیورسٹی ہو یا مدرسہ، ہر جگہ علم بانٹا جاتا ہے۔ دونوں طرف اچھے برے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی وجہ سے ادارے کو برا کہنا کسی با شعور انسان کو زیب نہیں دیتا۔ نہ ہی کسی بھی ادارے کو اچھا ثابت کرنے کے لئے دوسرے ادارے کو برا کہنا ضروری ہے۔ ان لوگوں کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ تعلیم مدرسوں کے علاوہ یونیورسٹیز سے بھی ملتی ہے۔

ان صاحب نے بڑے وثوق سے یہ بات کی ہے کہ یونیورسٹیز میں ہر چار میں سے دو لیکچر جنسیت پر ہوتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں اپنے دو سالہ قیام کے دوران میں نے کوئی لیکچر جنسیت پر ہوتا نہیں دیکھا نہ ہی کسی اور یونیورسٹی میں ایسا ہوتا سنا ہے۔ یونیورسٹیز میں آج کل جو حالات ہیں اساتذہ عام موضوعات پر بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں کوئی طالب علم اٹھ کر بلاسفیمی کا الزام نہ لگا دے، کافر نہ کہ دے، یہودی ایجنٹ نہ کہ دے۔ ایسے میں اتنے کھلے ڈلے لیکچرز دینا تو بالکل نا ممکن نظر آتا ہے۔ میں اس بات کی حامی ہوں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں جنسی تعلیم کو ضرور شامل کیا جانا چاہئے لیکن جنسی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ پہلے اسے سمجھ لینا چاہئے۔ کچھ دن پہلے ‘ہم سب” پر ہی فرح احمد نے اپنے بلاگ ‘جنسی تعلیم پر بات کی جائے ‘میں اس موضوع پر بہت اچھے طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔ ذیل میں ان کے بلاگ کے ہی کچھ الفاظ پیشِ خدمت ہیں۔

” سب سے پہلی چیز جو ہمیں جنسیت پر بات کرنے سے روکتی ہے وہ ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ کوئی غیر مہذب اور غیر شائستہ یا غیر اخلاقی موضوع ہے یا پھر یہ کہ Sex education کا مطلب صرف ہم بستری کے طریقے سکھانا ہے۔ معذرت کے ساتھ Sex education کا شعبہ بہت وسیع ہے جس میں سب سے پہلے اس بات کا یقین کیا جاتا ہے کہ کس عمر کے بچے کو کس حد تک کی معلومات فراہم کی جائیں۔ مثلاً یہ پروگرام جسمانی طور پر جوانی کی طرف بڑھنے ہوئے بچوں کو یہ سکھاتا ہے کہ جسمانی تغیرات کو کس طرح سمجھا جائے، مخصوص طبعی عوامل سے گزرتے ہوئے اپنی جسمانی صفائی کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ انفیکشن سے کیسے بچا جا سکے، جسمانی طور پر ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماریوں سے کیسے بچا جائے، نوجوانی سے لے کر شادی اور شادی کے بعد ازدواجی تعلقات اور فیملی پلاننگ جیسے نکات اس کا حصہ ہیں۔ “

اگر اس تعلیم کو عام کیا جائے تو ہمارے پیارے ملک میں سرگودھا جیسے واقعات کی تعداد میں بہت کمی آ سکتی ہے۔ لیکن اس سب سے پہلے ہمیں یونیورسٹیز کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگااور اپنی یونیورسٹیز کو بین الاقوامی معیار کا بنانا ہوگا جہاں افراد کی بجائے آئیڈیاز ڈسکس ہوتے ہوں۔

یہاں ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ لوگوں کی ان باتوں سے یونیورسٹیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا لیکن ان لڑکیوں یا لڑکوں کو ضرور نقصان پہنچتا ہےجن کے گھرانے ان پوسٹس سے متاثر ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو یونیورسٹی جانے سے روک دیتے ہیں۔ گر چہ ایسے گھرانوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے مگر ان کی موجودگی سے آنکھیں نہیں موندی جا سکتیں۔

ہمارے طلبا، یونیورسٹیز اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنی بھر پور محنت پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر کرنے میں لگا رہے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کے الفاظ اس محنت کو مٹی بننے میں دیر نہیں لگاتے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایسے لوگوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ ان کی زبانوں کو روکا جا سکے۔ یہ سوچ کر میں نے فوراَ ایک ای میل لکھی جس میں اس کمنٹ کا سکرین شاٹ، پوسٹ کا ویب لنک اور اس طالب علم کی پروفائل کا لنک دیتے ہوئے یونیورسٹی سے ان کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی۔ حسبِ توقع یونیورسٹی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا لیکن میں نے اپنا فرض ادا کیا۔ دوسری طرف جب ان صاحب نے دیکھا کہ اب معاملہ الٹا پڑتا دکھائی دیتا ہے تو انہوں نے فوراَ اپنا کمنٹ ڈیلیٹ کر دیا اور مجھے بلاک کر دیا۔ یہ اس بات کو ثابت کرنے کو کافی ہے کہ ان کے کمنٹ میں کتنی سچائی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).