آج کے غم کے نام


فیض صاحب نے شاید آج کے دن کے لیے ہی کہا تھا:

آج کے نام

اور

آج کے غم کے نام

یکم مئی 1886ء امریکہ کے شہر شکاگو میں استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے محنت کشوں کی قربانی کی یاد میں منایا جانے والا آج کادن، جس کا مقصد محنت کشوں کے کئی گھنٹوں پر محیط اوقاتِ کارکو مختصر کر ناتھا اور جس کا نعرہ ’’۔ آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام‘‘ کاتھا، اب اپنے مجازی معنوں میں صرف جلسے، جلوس، کانفرنسز اور سیمینارز میں مزدور طبقات کو خراجِ تحسین پیش کرنے تک محدود ہو چلا ہے۔ یا یوں کہیے کہ عُسرت وافلاس گزیدہ محنت کش طبقے کے کئی ایسے زخم ہیں جنھیں با آسانی آج کے دن سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

گذشتہ چند دہائیوں سے ہم رجعت پسندی کے ایک ایسے تلخ دور سے گذر رہے ہیں جہاں تمام انسانی اقدار پامال ہو کر رہ گئی ہیں۔ ماضی کے جامد نظریات اور فرسودہ بیانیوں نے سماجی تعفن کو مزید ہولناک بنا ڈالاہے۔ آزادی ٔ اظہار، احساسِ فکر اور سوچ پر لگائی جانے والی قدغن نے سماجی و ثقافتی گھٹن میں مزید اضافہ ہی کیا ہے۔ زر پرستی، طاقت اوراقتدار کی اندھی ہوس نے انسانیت کو یرغمال بنا کر غربت، بیروزگاری اور طبقاتی نظام کی ناہمواری سے سماج میں نفرت وانتشار کا وہ بیج بویاجس کی فصل ہم دہشت گردی، انتہا پسندی اورسماجی عدم برداشت کی صورت میں کئی دہائیوں سے کاٹتے چلے آرہے ہیں۔ عصرِ حاضر میں ہم نے اشتراکیت و اجتماعیت جیسے نظریات کو فرسودہ جان کر پسِ پشت ڈالتے ہوئے سرمایہ داری کو گلے لگا لیا ہے۔ اگر ایلون ٹوفلر کی نظر سے دیکھا جائے تومراعات یافتہ معتبر طبقات نے دنیا میں آنے والی تبدیلی کی پہلی دو لہروں، بالترتیب زرعی سماج سے صنعتی سماج تک کا سفر محنت کش کے کاندھوں پر بیٹھ کے طے کیا ہے۔ رہی بات دنیا بھر میں تبدیلی کی اس تیسری لہر کی، جہاں اب کارپوریٹ کلچر میں، مختلف کارپوریشنز کی شکل میں محنت کے استحصال کے نت نئے طریقے اور مشینیں با آسانی دستیاب ہیں، جومحنت کش طبقات کی زندگی کومزید اجیرن کرنے کے لیے کافی ہیں۔

پاکستان میں لیبر پالیسی کا نفاذ پہلی بار 1972ء پہلی بار ہوا۔ لیکن ریاستی معیشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی جگہ پانے والا یہ کلیدی کردار ہمیشہ اپنے حقوق کی جنگ لڑتا رہا۔ آج کا روشن سورج گواہ ہے کہ وطنِ عزیز میں ر یاستی جبر کے انتہائی کٹھن دور میں بھی محنت کش طبقے نے اپنی آوازخود اٹھائی۔ مزدور سیاست اور تحریک نے ہمیں فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے بڑے نامور شعراء عطا کیے۔ حسن ناصر اور نذیر عباسی جیسے لوگ سامنے آئے جنھوں نے مارشل لاء کی اذیت ناک عقوبت گاہوں میں موت کو قبول کیا لیکن اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو گوارا نہ کیا۔ فیض صاحب کہا کرتے تھے:

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اِک کھیت نہیں، اِک دیس نہیں، ہم ساری دنیا مانگیں گے

ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ایک پختہ و توانا نظام موجود ہے لیکن بد قسمتی سے وطنِ عزیزابھی ترقی کی اس معراج سے کوسوں دور ہے۔ سرمایہ دار کی بنائی گئی اونر میڈ یا پاکٹ میڈ یونینز جو اپنی ریاکارانہ اور اداکارانہ مہارتوں کے سبب مزدوروں کے حقوق کے نام نہاد نعروں سمیت سرمایہ دار کے ہر قسم کے سیاسی و سماجی مفادات کا تحفظ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیبر ڈپارٹمنٹ، اولڈ ایج بینیفٹ فنڈز اور سول ڈیفنس کی مد میں حکومت سے کروڑوں روپے ماہانہ اینٹھنے والے ادارے کتنی شفاف بنیادوں پہ کام کرتے ہیں اس کا اندازہ ملک بھر میں مزدوروں کی نحیف و خستہ حالت دیکھ کر بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ تس پہ مستزادٹھیکیدارانہ نظام، جس میں ٹھیکدار کے مزدور کو کوئی ادارہ اپنا مزدور تسلیم کرنے پر رضا مند نہیں، اسی طرح زراعت کے محنت کش، جنھیں نہ تو حکومت اور نہ ہی خود زمیندار اپنا مزدور تسلیم کرنے پر تیار ہے، حالانکہ جس کی نسلوں کے بھی پیروں میں جنم دن سے جاگیر دار کی بلا معاوضہ غلامی کی بھاری زنجیر پڑی دکھائی دیتی ہے۔ یہی نہیں بھٹہ مزدور، ماہی گیر، سڑکوں، عمارتوں میں کام کرنے والے عام مزدور، گھروں میں کام کرنے والی خواتین، ہوم بیس خواتین اور وہ دیگر جنھیں کوئی لیبر ماننے پہ تیار ہی نہیں ہوتا حالانکہ ان کی محنت ومشقت کسی طور مِل میں کام کرتے مزدور سے کم نہیں ہوتی۔ جبکہ ریاستی ادارے اس بات سے قطع نظرکہ اتنی بڑی تعداد میں نچلی سطح پہ کام کرنے والا یہ محنت کش طبقہ جو ہر قسم کے لیبر قوانین اور سہولیات سے عاری ہے اپنی زندگی کیسے بسر کرتا ہو گا۔ یہی نہیِں، ہر آنے اور جانے والی حکومت محنت کش طبقے کی خوشحالی کے بلند آہنگ نعرے کی صورت میں ہی اپنی حکومت کا سنگِ بنیاد رکھتی ہے۔ اقبال نے سچ کہا تھا:

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ کار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

صاحبانِ فکر! وطن عزیز پہ مسلط ہونے والی آمریت کے تشکیل دیے گئے بیانیوں کے سبب ریاست میں لیبر قوانین میں کی گئی ترامیم نے محنت کش طبقے کے حقوق پہ کاری ضرب لگائی۔ سرکاری محکمہ جات میں یونین سازی پر عائد کی گئی پابندیاں، فیکٹری کلوزڈے قوانین جن کے تحت اب ہفتے میں ایک دن بھی کارخانہ بند کرنا ضروری نہ رہا، محنت کے اوقاتِ کار کی آٹھ سے بارہ گھنٹے میں منتقلی، صنعتی قوانین میں شامل کانٹریکٹ نظام کی وہ شرائط جن کے تحت سرمایہ دار انھیں عارضی بنیادوں پر رکھنے اور کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے نکالے جانے کا مجاز تھا، علاوہ ازیں سرکاری ادروں کی ایک بڑی تعداد کی نجکاری، محنت کش طبقے کی ڈاؤن سائزنگ، ڈی ریگولیشن اورسٹرکچرنگ جیسی بے درد پالیسیاں، ، یہ سب مزدور کا استحصال نہیں تو اور کیا ہے؟

آخر میں اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے بس اتنا عرض کرنا ہے کہ غربت کا خاتمہ اور تعلیم کی فراہمی کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔ جبکہ ہمارے عمو می رویوں میں در آنے والی عدم برداشت اور سماج میں طبقاتی تقسیم کی بڑھتی ہوئی شرح ہماری سماجی ابتلا کی جانب پیش قدمی کا آغاز ہے جسے ہمیں فوری طور پر روکنا ہو گا۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ریاست کے تناظرات، ضروریات، ویژن اور اہداف پر بحث سے بالا تر ہو کر آگے کی طرف دیکھنا ہوگا۔ ہمارے تنقیدی شعور کی بیداری کا آغاز ہی غربت واستحصال کے خاتمے سے شروع ہوگا۔ آئینِ پاکستان ہمارے لیے ایک عمرانی و سماجی معاہدے کی مانند اہم اور مقدس ہے۔ پارلیمنٹ جس پر نظرِ ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں ہمارے بنیادی مسائل کے حل کی جانب پہلے قدم کا آغاز یہیں سے ہوگا۔ اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے ریاست اگربنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرے تو وہ وقت دور نہیں جب مزدور کی خوشحالی کا نعرہ حقیقت میں تبدیل ہوجائے۔ وگرنہ منٹو کے نئے قانون کا انتظار تا قیامت ہمارا مقدر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).