بیانیہ مر چکا …. حق مغفرت کرے


\"wisiیار عزیز، جان برادر، عامر خاکوانی صاحب، بیانئیے کی موت واقع ہو چکی ہے۔ آپ خوش ہو جائیں ہمارے لیفٹ نے دو دہائی پہلے آخری ہچکی لے لی تھی۔ آپ اس پر بھی خوش ہو جائیں کہ سرخ سویرے کا خواب دیکھنے والوں نے اپنا رخ بدل لیا ، تب بدل لیا جب ابھی آسمان پر سرخی باقی تھی۔ روس کے بعد انہوں نے اپنا رخ بدلا ہے۔ مغرب اور امریکہ کے دستر خوان پر جا بیٹھے ہیں۔

خوش ہو جائیں، راضی رہیں لیکن اگلی بات بھی سنیں نظریہ پاکستان بھی وفات پا چکا۔ اکہتر میں بنگلہ دیش بنا تو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ اندرا گاندھی کو بھول جائیں وہ اس سے زیادہ کوئی دل جلانے والی بات کرتی تو اچھا تھا کہ ہماری آنکھیں تو اس سے بھی نہ کھل سکیں۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ پاکستان کو عظیم بنانے کے ہمارے سارے دعوے بس باتیں تھیں ویسی ہی باتیں جیسی ہم لوگ کرتے ہیں…. وہ باتیں جن کا تعلق ہمارے اعمال سے نہیں ہوتا۔ ہم جو کہتے ہیں اس کے الٹ عمل کرتے ہیں۔

آپ اسلامسٹ کی بات کرتے ہیں تو معذرت کے ساتھ سنیں کہ اگر یہ کوئی مذہبی نظریہ تھا تو یہ بھی دم توڑ چکا۔ جب کہیں پر خود کش دھماکہ ہوتا ہے اس کے دھمک سے کئی ذہنوں میں مذہبی سیاست کی موت ہوتی ہے۔ شدت پسندوں کا شکریہ ادا کریں کہ وہ جی جان سے لگے ہوئے ہیں اپنے کام میں ، ان کی ہر کارروائی مذہب سے لوگوں کو متنفر کر رہی ہے۔ یہ کہانی نہ سنائیے گا کہ مذہب کے حوالے سے بہت نیک نام اور نیک اعمال لوگ موجود ہیں۔ یہ سب تندور میں گئے اپنے نام اور اعمال سمیت کہ ان کے ہوتے یہ سب ہو رہا ہے اور وہ چپ ہیں۔ کچھ بھی کہنے سے اور راستہ دکھانے میں ناکام ہیں۔

اقبال کا شاہین بھی مر گیا ہے۔ اس کی خودی بھی کہیں کسی بہت گہری کھائی میں جا گری ہے پتہ ہے کیوں ؟ اس لئے کہ شاہین اور خودی کی علامت بنے ہیں تو شدت پسند بنے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو ممولے کو شہباز سے لڑا رہے ہیں، وہی بے تیغ میدان میں اترے ہیں۔ انکی بے حکمتی نے گلا گھونٹ دیا ہے شاہین اور خودی کا۔

ہماری ریاست کے سب سے طاقتور ادارے کے سب سے معیاری شعبے کا تزویراتی گہرائی والا بیانیہ بھی سب کے سامنے مر گیا ہے۔ ہم جو افغانستان میں تزویراتی گہرائی ڈھونڈنے نکلے تھے پچھلے تیس سال سے انہی کو تزویراتی گہرائی دئیے بیٹھے ہیں۔ تھک رہے ہیں، لٹ رہے ہیں یہ جانے بغیر کہ افغانستان ہمیں نہیں بچا رہا، یہ ہم ہیں جو افغانوں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔

یہ سب بری باتیں ہیں۔ اچھا یہ ہوا ہے کہ ہمارے ادارے کو سمجھ آئی ہے کہ جو نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرنے پر تل گیا تھا۔ اسے احساس ہوا ہے کہ ہمارا دشمن تو ہماری جغرافیائی سرحدوں کے اندر آیا بیٹھا ہے۔ ادارہ اچھا ہے۔ اس نے پالیسی بدل لی ہے اب اندرونی دشمن پہلی ترجیح قرار پا گیا ہے۔ اب بہتری آئے گی۔

ایک بہتری ہمارے ہاں پہلے ہی آچکی ہے کہ ہم کار سرکار چلانے کا ریاستی نظام وضع کر چکے ہیں۔ ہماری اقلیتیں، ہماری مذہبی جماعتیں اور ہمارے قوم پرست سب اس پر اتفاق کر چکے ہیں۔ ہم نظام بدلنے کا راستہ بھی نظام کے اندر ہی دریافت کر چکے ہیں، واضح کر چکے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق تسلیم کر چکے ہیں۔ اقلیتوں کو براہ راست انتخاب کا حق دے کر بھی انہیں محفوظ نشستیں دے چکے ہیں۔

اب قوانین ہیں، جنہیں بدلنا ہے، بہتر کرنا ہے، ا س سسٹم کا زنگ اتارنا ہے کہ یہ چلنے لگے۔ رائیٹ ہو لیفٹ ہو، اسلامسٹ ہوں یا لبرل ہوں یا پاکستانی اقلیتیں، سب سوچ رہے ہیں۔ صرف سوچ نہیں رہے، بول بھی رہے ہیں۔ انہیں بولنے دیں، اپنی بات کہنے دیں کہ ہو سکتا ہے یہ غلط ہوں، بس یہ سوچ لیں کہ اتنا امکان باقی رہنے دیں کہ ہو سکتا یہ ٹھیک کہہ رہے ہوں۔

یہ کہیں نہیں لکھا کہ فلا ں ٹھیک ہے اور فلاں ہمیشہ الٹی بات کہے گا۔ ہم نے اس ملک مین بہت دیر تک ٓوازوں کو روکے رکھا۔ اس سے نقصان ہو اہے۔ یہ بالکل ہو سکتا ہے کہ آج بھی آپ ہی کی بات ٹھیک ہو ۔ مگر دوسروں کو دل کی بات کہنے دیں۔ حوصلے سے سن لیں کہ راستہ سننے سے ہی نکلے گا۔ بولنے کے حق کا تحفظ کریں کہ یہی ہمیں بچا کر آگے لے جائے گا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments