یوم مئی: فیض صاحب نے طریقہ نہیں بتایا


آج یومِ مئی ہے۔ مزدوروں کا عالمی دن اور خوش قسمتی سے ہم ابھی تک اسی عالم کا حصہ مانے جاتے ہیں حالانکہ ہم کسی بھی معیار سے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتے شاید اسی لیے ہمارا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم اسی عالم کا حصہ ہیں۔ حکومت نے مزدوروں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے یکم مئی کو عام تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس عام تعطیل کے دن تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر بند ہیں۔ سب گھر پر چھٹی مناتے ہوئے معمول سے ہٹ کر دیر سے اُٹھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ چائے ناشتا کرتے ہوئے یوم ِ مئی کو اپنے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

میں بھی اپنے آلسی پنے کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے صبح دیر سے اُٹھا ہوں۔ سبھی کی طرح چائے ناشتا کرتے ہوئے میں نے بھی یومِ مئی کا آغاز کیا ۔ ٹی وی کھولا تو دیکھا جماعتِ اسلامی گورنر ہاؤس کے باہر بجلی کے کسی مسئلے پر احتجاج کر رہی ہے۔ چائے کی چند چسکیوں کے بعد معلوم ہو ا کہ وزیر اعظم اور صدر ِ پاکستان نے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ آملیٹ کھاتے ہوئے پتا چلا کہ حکومت سندھ نے پچاس کروڑ رو پئے مزدوروں میں تقسیم کیے ہیں۔ عمران خان کے کل کے کسی جلسے کی سرخیاں دکھائی گئیں تو پتا چلا کہ عمران خان نواز شریف کو چور چور پکار رہے تھے۔ بستر سے باہر نکلتے ہوئے جو الفاظ کان پر پڑے وہ ٹھیک سے یاد تو نہیں ہیں مگر بلاول بھٹو زرداری کی باتوں کا مفہوم کچھ اس طرح کا ہی تھا کہ نواز شریف عوام کا خون چوس چکا ہے اور اسی کے ذریعے پنامہ میں اربوں کے اثاثے جمع کیے ہیں۔

ان سب خوشگوار خبروں کی یادیں لا شعور میں جا چکی تھیں۔ نہانے کے بعد سب سے پہلے میں نائی کی دکان پر یہ سوچ کر جا رہا تھا کہ شاید دُکان یومِ مئی کی وجہ سے بند ہو مگر حجامت بھی لازم تھی اس لیے جا کر دیکھ لینے میں کیا برائی ہے؟ دکان کے باہر پہنچا تو دیکھا دکان کھلی تھی ۔ ذہن میں خیال آیا کہ دکان تو کھلی ہے مگر اندر کاریگر اکا دُکا ہی ہوں گے یومِ مئی جو ہے۔ اندر جا کر دیکھا تو معمول کے مطابق کاریگروں کی تعداد زیادہ تھی اور گاہک بھی زیادہ تھے۔ گلے پر بیٹھے شخص سے اس غیر معمول رش کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ کیونکہ یوم مئی ہے اس لیے پیارے پاکستان کی اشرفیہ اس کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے حجامت جیسے اہم کاموں کے لیے سب سے پہلے آتے ہیں ۔ میرا دوسرا سوال کاریگروں کے مطابق تھا کہ ان کی تعداد زیادہ کیوں ہے تو جواب وہی ملا کہ مزدور بھی یہ بات جانتے ہیں کہ آج کام زیادہ ہوگا اس لیے دھاڑی لگانے آجاتے ہیں۔ مجھے کوئی خاصی حیرت نہیں ہوئی نہ ہی میں یہ کہوں گا کہ یہ معمول سے ہٹ کر بات تھی۔ ہمارے ہاں جن کو یوم مئی منانا چاہیے ان کے علاوہ سب ہی مناتے ہیں۔

حجامت کے بعد مجھے اپنے فلیٹ کے داخلی راستے پر کچھ اینٹوں کا کام کروانا تھا ۔ جس چوک سے مجھے عموماً مزدور مل جاتا تھا آج اس چوک کے طرف جاتے ہوئے راستے پر ہی مجھے مزدور مل گیا۔ جب خان صاحب سیمنٹ سے اینٹوں کو دیوار میں ٹھیک طرح بٹھا رہے تھے تو میں نے احمقانہ طور پر ان سے پوچھا خان صاحب آج دن کون سا ہے؟ خان صاحب نے کچھ سوچنے کے بعد اپنے انداز میں مجھے کہا ”آج پھیر کا دن ہے ” بے ساختہ ہنسی نکل گئی اس ہنسی کے پیچھے افسوس تھا بھی یا نہیں یہ میں نہیں کہہ سکتا خان صاحب نے کام کیا اجرت لی اور چلتے بنے۔

آخر میں بیوی نے بتایا کہ ایک پنکھا خراب ہوچکا ہے۔ الیکٹریشن کو فون کی تو میرا فون الہ دیں کا چراغ ثابت ہوا۔ چند ہی منٹوں میں جینی حاضر ہوگیا۔ آدھے گھنٹے کی مغز ماری کے بعد پنکھا ٹھیک کردیا۔ لگے ہاتھوں میں نے چھوٹے موٹے اور بھی کام کروا دیے۔ جینی نے بھی اجرت لی اور چلتا بنا ۔ جینی سے میں نے یہ پوچھنے کی بے وقوفی نہیں کی کہ آج کون سا دن ہے۔

فیض صاحب نے کہا تھا۔ یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے۔ تو انسان سب سرکشی بھول جائے۔ یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں۔ یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں۔ کوئی ان کو احساس ِ زلت دلا دے۔ کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے۔

معذرت سے فیض صاحب آپ یہ تو بتا گئے کہ فالٹ ہماری دُم میں ہے مگر دُم ہلانے کا طریقہ نہیں بتا کر گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).