احمد فراز اور انکار کی روایت (2)


احمد فراز کا مجموعہ کلام ”بے آواز گلی کوچوں میں“ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے انتہائی المناک قومی سانحہ سے پھوٹنے والی منظومات کا مجموعہ ہے۔ ہرچند بعد کے تمام مجموعہ ہائے کلام میں بھی بھٹو شہید کی یاد اور اُس کے قاتل کی ملامت احمد فرازکی شاعری کے اہم ترین موضوعات ہیں تاہم ”بے آواز گلی کوچوں میں“مرکزی موضوع بھٹو کی شہادت اور ہماری قومی زندگی پر اِس کے بھیانک اثرات ہیں۔ اِس کتاب میں”ایک بدنما صبح کے بارے میں ___ کچھ نظمیں“ کے عنوان سے وہ منظومات یکجا کر دی گئی ہیں جو اِس عظیم قومی المیہ کے فوری ردِعمل میں تخلیق ہوئی تھیں۔

ایک بندہ تھا کہ اوڑھے تھا خدائی ساری

اِک ستارہ تھا کہ افلاک پہن کر نکلا

……

فغاں کہ اہلِ ہوس کی رقابتوں نے فراز

جو شخص جانِ جہاں تھا گنوا دیا ہے اُسے

جس روز صبحدم بھٹو شہید کی پھانسی کی خبر عام ہوئی اُس روز پاکستانی عوام کے دل و دماغ کی ایسی جیتی جاگتی تصویر کشی میں نے اِس سانحہ عظیم پر لکھی گئی تحریروں میں کہیں نہیں دیکھی۔ کتاب کے اِس حصے میں دی گئی نظموں کے عنوانات ہی فراز کی ذکاوتِ احساس اور بے رحم حقیقت نگاری کی مثال ہیں۔ مثلا”جلاد“،”چلو اُس شہر کا ماتم کریں“، ”حرف کی شہادت“،”دشمن کا قصیدہ“،”مت قتل کرو آوازوں کو“….. یہ عنوانات ہی چیخ چیخ کر اُس زمانے کی پاکستانی زندگی کے بدنما مناظر کے حقیقت افروز اور باغیانہ اسلوب و ادا کے شاہد ہیں۔ اِس شاعری میں سفاک اورظالم حکمرانوں کے شیطانی کرتوت بے مثال جراتِ اظہار کے ساتھ اُجاگر کیے گئے ہیں۔

ضیاءالحق آمریت کی اسلامائزیشن کے نام پراسلام کی حقیقی رُوح سے رُوگردانی کی ایک مثال یہ اشعار ہیں:

یہ راز نعرہ  منصور ہی سے ہم پہ کھلا

کہ چوبِ منبرِ مسجد، صلیبِ شہر بھی ہے

کڑی ہے جنگ کہ اب کے مقابلے پہ فراز

امیرِ شہر بھی ہے اور خطیبِ شہر بھی ہے

امیرِ شہر اور خطیبِ شہر کے اِس اشتراکِ فکر و عمل نے پورے مُلک کو آشوب میں مبتلا کر دیا۔ اِس صورتِ حال کی جیتی جاگتی مصوری طویل نظم ”شہر آشوب“ میں ملتی ہے۔

اُس دور میں اِس انداز کی انقلابی حقیقت نگاری فقط احمد فراز کے ہاں ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ضیاءالحق آمریت اور اُس کے ہوا خواہوں کے نزدیک یہ طرزِفکر و اظہار انتہائی باغیانہ قرار پایا۔ چنانچہ فراز کا ”محاصرہ “کر لیا گیا۔ اُسے بتایا گیا کہ ”تمام صوفی و سالک “، ”سبھی شیوخ و امام“،” معززینِ عدالت “، ”گداگرانِ سخن کے ہجوم “اور ”آسمان ہنر کے نجوم“ایوانِ اقتدار میں سربسجو ہو چکے ہیں۔ ایسے میں :

مرے غنیم نے مُجھ کو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے

فصیلِ شہر کے ہر بُرج ہر منارے پر

کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے

…..

سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو

تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

اِس پیشکش کے جواب نے احمد فراز کو اِس عہدِ تاریک کا روشن ترین ستارہ اور ضیاءآمریت کے دور کا سب سے بڑا ہیرو بنا دیا:

اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صُبح اِک نیا سُورج تراش لاتی ہے

٭٭٭ ٭٭٭

مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے

احمد فراز”سوداگرانِ سخن کے ہجوم“ میں شامل ہونے کی بجائے اِس محاصرے کوتوڑ کر لندن جا بیٹھا۔ اشفاق حسین نے اپنی کتاب بعنوان ”احمد فراز: یادوں کا ایک سنہرا ورق“میں لکھا ہے کہ:

”محاصرہ والی نظم کے پس منظر سے کون واقف نہیں لیکن پھر بھی ایک بار میں نے ان سے یوں ہی پوچھ لیا کہ کیا واقعی کسی غنیم وقت نے ان کو اس قسم کی سچ مچ کی دھمکی دی تھی یا یہ صرف زورِ تخیل والا معاملہ ہے تو انہوں نے بہت مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ویسے تو شاعری ہے ہی تخیّل کی کارستانی لیکن اس نظم کے سلسلے میں یہ صرف تخیّل والی بات نہیں ہے۔ واقعی مجھے اس قسم کا پیغام ایک بریگیڈیئر کے ذریعے سے بھجوایا گیا تھا اور پھر اس کے بعد اسی نظم کا آدھا مصرعہ پڑھا کہ تمام صوفی و سالک….اور پھر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی دوڑ گئی۔ “

 اشفاق حسین کینیڈا میں احمد فراز سے اپنی پہلی ملاقات کی یادیں تازہ کرتے وقت ہمیں اپنے اِس تجربے میں شریک کرتے ہیں کہ :

”ٹورنٹو کے مشاعرے میں پہلی بار جب احمد فراز اپنا یہ کلام سُنا رہے تھے تو ہر طرف ایک سکوت کا ساعالم تھا لیکن یہ سکوتِ سخن شناس نہیں بلکہ سکوتِ حیرانی اور احترامِ سخن شناسی کی منزل تھی ۔ مگر جب وہ اس منزل کے آخری موڑ پر پہنچے اور اپنی نظم ”محاصرہ“ سنانے لگے تو ہر کوئی ان کے احترام میں نہ صرف یہ کہ کھڑا ہو گیا تھا بلکہ ان کے قدموں میں اپنا دل بھی بچھائے ہوئے تھا۔ یہ شاعری نہیں ساحری تھی اور تمام سامعین مسحور ہو چکے تھے۔ میں نے بھی آج ہی پہلی بار ان کے منہ سے یہ نظم سُنی تھی اور خود میں بھی ایک عجیب محویت کے عالم میں کھو گیا تھا۔ بعد کے دنوں میں بھی صرف مشاعروں ہی میں نہیں بلکہ نجی محفلوں میں بھی اس نظم کو خود انہی سے کئی کئی بار سُنا لیکن اس بار کا عالم تو کچھ اور ہی تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ احمد فراز نے اپنی زندگی کے آخری مشاعرے میں واشنگٹن میں جو آخری نظم پڑھی وہ بھی یہی نظم محاصرہ ہی تھی۔ “

خود اختیار کردہ جلاوطنی کے دُکھ اپنی جگہ مگر اُس زمانے کی پاکستانی زندگی کی اندھی جبریت سے عارضی نجات شاعری اور شخصیت ہر دو کے لیے غنیمت ثابت ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ دور تاریخِ انسانی کا تاریک ترین دور ہے۔ اِس دور میں شرفِ انسانی کی وہ مٹی پلید کی گئی کہ دورِ حاضر میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ سیاسی کارکنوں کو ٹکٹیوں پر باندھ کر کوڑے مارے گئے۔ ضیاءآمریت نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر اسلام کی مقدس تعلیمات کو وحشیانہ سزاﺅں سے منسوب کر دیا :

دلقِ اویس و چادرِ زہرا کدھر گئی

دُزدانِ نیم شب سے تقاضا تو ہم کریں

جب یہ دورِ استبداد رُخصت ہوا تب ہماری ادبی دُنیا میں مزاحمتی ادب کا تذکرہ عام ہو گیا مگر سچ یہ ہے کہ اپنے سیاسی عمل اور اپنے فنّی مجاہدے کے ساتھ ضیا آمریت کی مخالفت کا حق سب سے بڑھ کراحمد فراز نے ادا کیا۔ اُنھوں نے علامتی اسلوب کے برعکس واشگاف انداز میں آمریت و استبداد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی جرات کے ساتھ احتجاج کیا۔ یہ اُس تاریک دور میں ہمارے سیاسی اور ادبی ، ہر دو محاذوں پر استقامت کی ایسی روشن مثال ہے جسے ہماری قومی اور تہذیبی تاریخ میں بہت دیر تک اور بہت دُور تک یاد رکھا جائے گا۔

بحالی جمہوریت کے نتیجے میں بے نظیر شہید کی حکومت قائم ہوئی تو احمد فراز ایک مرتبہ پھر اکادمی ادبیات کے چیئرمین بنا دیئے گئے۔ بعد ازاں ایک بار پھر بے نظیر شہید کی حکومت کے ساتھ ہی اُن کی چیئرمین شپ کا تختہ بھی اُلٹ دیا گیا۔ بعد کے جمہوری ادوار میں بھی وہ اکادمی ادبیات ، لوک ورثہ اور نیشنل بُک فاﺅنڈیشن کی قیادت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ہر چند جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت کے دوران بھی گرد و پیش کے حالات پر اُن کی تلخ نوائی جاری رہی تاہم نہ صرف اُنہیں برداشت کیا گیا بلکہ اُنہیں قومی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اِس پذیرائی کے باوجود اُن کی ادبی بے کلی اور سیاسی بے چینی میں ذرّہ برابر کمی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ مسعود مفتی نے احمد فراز کی یاد میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جب بلوچستان میں حالات خراب سے خراب تر ہونے لگے ”تو فراز کا فون آیاکہ آپ مضمون ہی لکھتے رہیں گے یا کچھ اور کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ میں نے کہا فراز ارادے تو بہت کچھ کرنے کے ہیں مگر ابھی جمعیت کافی نہیں۔ کہنے لگے میں ابھی آ رہا ہوں۔ “:

”تھوڑی دیر بعد آتے ہی حسبِ معمول پانی کا گلاس مانگا….پینے کے لیے نہیں بلکہ سگریٹ کا پچھلا حصہ ڈبونے کے لیے….اس دن وہ بار بار سگریٹ ڈبوتے رہے کش لگاتے رہے اور ہم طویل مشوروں میں ڈوبے رہے کہ کیا کرنا چاہیے بالآخر طے پایا کہ ادیبوں کی بڑی تعداد ایک پریس کانفرنس میں حکومت کی بلوچستان پالیسی کی مذمت کرے گی۔ مگر تین دن بعد ہم دوبارہ ملے تو دونوں مایوس تھے کیونکہ کوئی بھی ادیب شرکت پر تیار نہ تھا۔ بڑی ہی افسردگی میں ان کا سگریٹ بار بار پانی کے گلاس میں جھانکتا رہا اور کش لگتے رہے۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ صرف ہم دونوں ہی پریس کانفرنس کا سامنا کریں گے۔ پریس سے رابطے کی ذمہ داری فراز نے اُٹھائی۔ اگلے دو تین دنوں میں تعداد بڑھانے کے لیے ہم نے ایسے لکھاریوں تک پہنچنے کا ارادہ کیا جو اگر عملی ادیب نہیں تو بھی ادب نواز اور ادیب پرست ضرور تھے اور دیگر تحریروں کے علاوہ ادبی خامہ فرسائی بھی کرتے تھے۔ چنانچہ فراز نے لاہور سے عابد حسن منٹو سے شمولیت کا وعدہ لے لیا اور اسلام آباد میں ڈاکٹر کنیز یوسف نے میری درخواست مان لی۔ بالآخر 15 جنوری 2006ء کو ہم چاروں نے پریس کانفرنس منعقد کر کے یہ فرض اداکردیا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).