ممتاز دانشور اور بائیں بازو کے عظیم رہنما عابد حسن منٹو کا خصوصی انٹرویو (2)


 ’’قائداعظم کی 11 اگست کی نقریر کی حمایت اور قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی‘‘

میرا کمیونسٹ نظریات کے ساتھ 46/47ء سے ہی رشتہ جڑ چکا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے کیمونسٹ گروپ میں ایک اسٹڈی سرکل ہوا۔ اس میں یہ بھی تھا کہ پاکستان بنانے کی قرارداد کیا ہے، وہ بحث میں نے کافی دلچسپی سے سنی۔ وہاں 1940ء والی قرارداد بار بار پڑھی گئی، شرکاء نے کہا اس میں ذکر ہے کہ مسلم اکثریتی ریاستوں کو وفاقی ڈھانچے کے اندر بااختیار بنایا جائے گا، اس میں تو یہ بھی نہیں کہا گیا کہ پاکستان کے نام سے کوئی ملک بننے جا رہا ہے، اور یہ بھی کہیںنہیں کہا گیا کہ اس میں نظام کیا ہو گا۔ اس وقت پہلی بار وہاں پر قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر بھی پڑھی گئی، یہ ساری چیزیں مجھے ری انفورس کرتی تھیں کہ کوئی ایسا نظام جو جمہوری بنیادوں کی بجائے کسی عقیدے کی بنیاد پر ہے، وہ ان قراردادوں کا حصہ نہیں تھا۔ جب قرارداد مقاصد پاس کی گئی تو ہم نے کافی سیمینارز کیے جن میں ہم نے اس سوال پر بحث کی کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر ہونی چاہیے یا پھر قراداد مقاصد؟ یہ اس وقت کا ردعمل تھا۔ ہماری پارٹی نے اس وقت قراراد پاس کی کہ قرارداد مقاصد کی بجائے قائداعظم کی تقریر کو آئین کی بنیاد بنایا جائے۔

’’مولانا بھاشانی کا خیال تھا کہ یہاں سیاست سیکولر بنیادوں ہی پر ہو سکتی ہے‘‘

مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والے لیڈر مولانا بھاشانی کا ذکر آیا تو کہا:میں مولانا بھاشانی کی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا رکن رہا، ان سے بہت زیادہ تعلق تو نہیں تھا کیونکہ وہ ڈھاکہ میں رہتے تھے۔ کسی حد تک ان سے تعلق اس وقت بنا جب ہم نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس کرائی، اس وقت وہ یہاں آئے تھے۔ اس کے بعد ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ پاکستان کو خدا حافظ کہنے آخری بار آئے تھے۔ ان دونوں موقعوں پر میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ وہ بنیادی طور پر عوامی لیڈر تھے۔ آسام سے ان کی سیاست کا آغاز بھی کسانوں کی تحریک سے ہوا۔ شروع میں وہ کسانوں کی تحریک کو اسلامی طریقے سے چلانے کی کوشش کرتے رہے البتہ تجربے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست تو سیکولر ہی ہو سکتی ہے کیونکہ آسام اور بنگال صوبے میں ہندؤں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ مولانا بھاشانی کے جلسوں پر ڈھاکہ اور لاہور میں حملے بھی ہوتے رہے۔ ڈھاکہ میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے حملہ کیا، جب وہ پارٹی بنانے کے بعد پلٹن میدان میں عوامی اجتماع کے ساتھ موجود تھے۔ اس وقت مولانا نے سڑک پر کچھ اس طرح سے جلسہ کیا کہ بار بار وہ لوگ نماز کی نیت باندھ لیتے تھے اور پھر جلسہ شروع ہوجاتا تھا۔ یہ پولیس کو آگے پیچھے کرنے کاحربہ تھا۔ مولانا جب یہاں آئے تواس وقت ابھی نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) نہیں بنی تھی۔ اس دورے میں مولانا بھاشانی کے ساتھ غفار خان، ولی خان، بزنجو، خیر بخش مری، عطاء اللہ مینگل اور راؤ سکندر خان خلیل تھے۔ لاہور کا یہ جلسہ بھی اکھیڑا گیا۔ بلوائیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ والے تو تھے ہی، لیکن اس میں حکومت بھی شامل تھی۔ میں اس سارے منظر کا عینی شاہد ہوں۔

’’اسلامی جمعیت طلبہ والے پتھروں سے لدی گاڑیاں لے کر کانفرنس ہال پر حملہ آور ہو ئے‘‘

یہ پچاس کی دہائی کے کسی سال کا واقعہ ہے، اتنا یاد ہے کہ تاریخ پچیس دسمبر تھی۔ کراچی میں ہم نے طالب علموں کی ایک کانفرنس رکھی۔ کمیونسٹ پارٹی 1954ء میں کالعدم ہو چکی تھی۔ ہم نے یہ فیصلہ کہ اب ایک بڑی اسٹوڈنٹ پارٹی بنانی چاہئے۔ کاٹرک ہال کراچی میں ہم نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اس ہال کی اوپر والی گیلری میں بیٹھی خواتین سمیت کم وبیش پانچ چھ سو لوگ وہاں موجود تھے۔ ہم نے اس جلسے میں اس وقت کے وزیر قانون اے کے بروہی کو بلایا ہوا تھا۔ بروہی صاحب مقررہ وقت پرنہیں پہنچے۔ پتہ چلا کہ وہ حیدر آباد کسی کام سے گئے ہوئے ہیں اور اب وہ چل پڑے ہیں، ابھی راستے میں ہیں۔ ہمیں بعد میں بتایا گیا انہیں ایڈوائس کی گئی تھی کہ کیمونسٹوں کے جلسے میں آپ نہ ہی جائیں تو بہتر ہے۔ انہوں نے انکار تو نہیں کیا مگر کافی ڈیلے ضرور کیا۔ اس انتظار کے دوران ہال میں شور مچ گیا۔ کاٹرک ہال کو شیشے لگے ہوئے تھے اور سب دیواریں لکڑی کی تھیں۔ شور مچا تو مرکزی دروازہ کسی نے کھول دیا اور وہاں سے اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ اندر آگئے۔ ناصر ف وہ بلکہ دو وینیں بھی اندرآئیں، ان گاڑیوں میں پتھر لدے ہوئے تھے۔ انہوں نے آتے ہی یلغار شروع کر دی۔ پھر کچھ اور افراد بھی ان کے ساتھ تعاون کرنے آ گئے جو بظاہر سرکاری لوگ تھے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ بروہی کے آنے قبل ہی ان کو تتر بتر کر دیا جائے۔ ہمارے رضاکار بھی حصار کے اندر جوابی کارروائی کرتے رہے۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ اے کے بروہی پہنچ گئے۔ وہ پروٹوکول کے ساتھ آئے تھے، اس لیے پولیس کووہ سب بلوائی نکالنے پڑے۔ اس موقع پر بروہی نے بہت اچھی تقریر کی۔ یہ میرا جمعیت کے ساتھ پہلا ایکس پیرئینس تھا۔ تناسب دیکھا جائے تو ہمارے یہاں سیاست میں تشدد کے حوالے سے اسلامی جمعیت طلبہ کا نام کافی نمایاں رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں 23 برس پڑھایا ہے۔ اس دوران بھی اسلامی جمعیت طلبہ کافی متحرک تھی۔ میں نے کبھی ان سے نہیں چھیڑا۔ انہوں نے میرے ڈسپلن کی وجہ سے مجھے کبھی ڈسٹرب نہیں کیا۔

’’کمیونسٹ پارٹی کے بزرگ رکن کاکا خوشحال خٹک نے جگایا اور وضو کے لیے پانی لانے کو کہا‘‘

جب انڈیا میں پہلی کمیونسٹ پارٹی بنی تو حسرت موہانی اس کے بانی رکن تھے۔ یہ لوگ مذہب سے بیزار نہیں تھے۔ پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ مجھے عملی طور پر اس طرح کاایک تجربہ ہوا۔ یہاں لاہور میں 114 میکلوڈ روڈ پر کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ ہم راولپنڈی سے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی کانگریس کرنے لاہور آئے۔ تب میں لاہور میں پہلی بار آیا تھا۔ ہم پانچ سات لوگوں کو کمیونسٹ پارٹی کے دفتر ہی میں رہنے کی جگہ دی گئی۔ گرمیوں کے دن تھے اورہم چھت پر چٹائیاں بچھا کر لیٹے ہوئے تھے۔ وہاں ایک بزرگ بھی ہمارے ساتھ موجود تھے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن ہیں، کاکا خوشحال خان خٹک ان کا نام تھا۔ ہوا یوں کہ صبح چار بجے کے قریب مجھے کسی نے جھجھوڑا۔ دیکھا تو وہ کاکا صاحب تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پانی چاہیے۔ تیسری منزل پر پانی نہیں تھا، میں نیچے گیا اور پانی کی بالٹی لے کر آیا۔ انہوں نے لوٹے میں پانی ڈال کر وضو کیااورنماز پڑی۔ میں پھر سے سو گیا۔ جب صبح اٹھ کر ہم دوست نیچے اتر کرآئے تو میں نے اس وقت پارٹی کے جنرل سیکریٹری فیروز الدین منصور سے پوچھا کہ دادا! یہ کاکاجی تو نماز پڑھتے ہیں، انہوں نے صبح صبح مجھے جگا دیا۔ انہوں نے کہا : پھر کیا ہوا، وہ کمیونسٹ ہیں یا نہیں ہیں مجھے یہ بتاؤ۔ انہوں نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہے۔ تمہیں اس سے کیا کہ وہ تونماز پڑھتے ہیں یا نہیں۔ یہ جو لڑائیاں پیدا ہوئیں یہ اس وقت کے بعد کی کہانی ہے جب اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی مخصوص انداز میں متحرک ہوئی۔

’’بھٹو سے دو ملاقاتیں ہوئیں، پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ہمارے جلسے اکھیڑے‘‘

ناقدین کا خیال ہے کہ بھٹو صاحب زیادہ مشاورت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اپنی ذات میں ایک طرح کے آمر تھے، آپ کیا کہتے ہیں؟ میرا خیال ہے یہ بات درست ہے۔ میرا ان کے ساتھ زیادہ ذاتی تعلق تو نہیں رہا لیکن ان کے ساتھ خاص موقعوں پر رابطہ رہا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایوب خان نے یہاں گول میز کانفرنس بلائی، اس کے خلاف بہت ایجی ٹیشن شروع ہو چکی تھی۔ کانفرنس میں بھٹو صاحب مدعو نہیں تھے، باقی سب سیاسی پارٹیاں بلائی گئی تھیں۔ مسٹر بھٹو لاہور فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہماری پارٹی کے مولانا بھاشانی بھی لاہور ہی میں میاں افتخارالدین کے گھر قیام پذیر تھے۔ وہاں پر ہماری میٹنگ چل رہی تھی کہ اس کانفرنس میں شرکت کی جائے یا نہیں۔ مولانا کو دعوت تھی لیکن ہم نے نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھٹو کو اپروچ کریں گے کہ ہماری دونوں پارٹیوں کے خیالات کسی قدرملتے جلتے ہیں(سوشلزم وغیرہ کے حوالے سے)۔ ہم اپنا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں گے۔ میں اور میجر اسحاق(جو اس وقت ہمارے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی میں تھے بعد میں انہوں نے کسان پارٹی بنائی )مسٹر بھٹو سے ملنے گئے۔ ہماری ان سے ایک گھنٹہ ملاقات رہی اور ایک دو سطری معائدہ ہوا جس میں ہم نے باہمی تعاون پر اتفاق کیا لیکن اس رد عمل کے ایکشن میں ہمارا کوئی کردار نہیں تھا۔ آخری دفعہ اس وقت واسطہ پڑا جب مسٹر بھٹو دورِ حکومت میں دو مرتبہ ہماری خانیوال کسان کانفرنس کی طنابیں کاٹ دی گئیں، پنڈال گرا دیے گئے، یہ وہاں کی پیپلز پارٹی کے لوگوں کی حرکت تھی اور ہمارے ساتھ یہی سلوک وہاڑی میں بھی پیپلزپارٹی کے لوگوں نے کیا تھا۔ ان کچھ اس قسم کا طرز عمل تھا۔

’’ خودارادیت کی بجائے کوئی اور نعرہ لگایا تو دنیا کشمیریوں کا ساتھ نہیں دے گی‘‘

عابد حسن منٹو کشمیری ہیں، اسی مناسبت سے کشمیریوں کی تحریک آزادی سے جڑے کچھ سوالات بھی کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں لڑنے کے لیے اس طرح کی مذہبی جہادی تنظیمیں بنانا سخت افسوس ناک اقدام ہے۔ ہمارا موقف اس وقت (نوے کی دہائی میں جب جہادی تنظیمیں بنائی گئیں)یہ تھا کہ ایسا کرنے سے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تویہ کہ آپ (پاکستان)کے پاس جو آزادکشمیر ہے یہاں آپ نے کوئی تحریک اٹھانی نہیں، آپ اسے بیس کیمپ کہتے ہیں، یہاں تو لوگ پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں، تحریک تو مقبوضہ کشمیر والے چلائیں گے، تو وہ اگر حق خود ارادیت کی بجائے جہاد یا پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی بنیاد پر چلاتے ہیں، تو پھر ان کی دنیا میں لوگ حمایت نہیں کریں گے، دنیا میں لوگ صرف حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ کسی کے دعوے کی وہ حمایت نہیں کرتے۔ یہاں لوگ شہہ رگ کے دعوے کرتے ہیں، ستر سال ہم شہہ رگ کے بغیر کیسے گزارا کرتے رہے؟ میں مقبوضہ کشمیر میں ہاشم(معروف کشمیری حریت پسند) کے بیٹے کی شادی میں گیا تو دیکھا کہ وہاں جنگجو دو قسم کے تھے۔ ایک وہ تھے جو حق خود ارادیت کے لیے برسرپیکار تھے اور دوسرے جہادی تھے۔ میری جن لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ سب اس بات پرمتفق تھے کہ اس جہادی ایلیمنٹ کی وجہ سے ان کی جد وجہد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ جب جہادی وہاں ایک آدمی کو مارتے ہیں تو ان کی ساری سیاسی سرگرمی رک جاتی ہے۔ ہم ابھی تک اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچے کہ آیا ہم کشمیر کو ایک وحدت مانتے ہیں اور اس کے باشندوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا اور بعید نہیں کہ وہ آزاد ہونے کے بعد ہمارے ہی کے حق میں ووٹ دے دیں۔

’’گنگا ہائی جیکنگ کشمیری حریت پسندوں کی جینوین ایفٹرٹ تھی، وہ کسی کے ایجنٹ نہیں تھے‘‘

یہ بات غلط ہے کہ کشمیری نوجوان ہائی جیکرز ہاشم قریشی اور اشرف قریشی یا ان کے لیڈرز انڈین ایجنٹ تھے، ہاشم اس واقعے سے پہلے بھی پاکستان میں آ چکا تھا۔ اس کے رشتہ دار پشاور میں رہتے تھے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جو بھی کشمیر سے یہاں آتا ہے تو انٹیلی جنس اس کو دیکھتی ہے، ہاشم اور اشرف تو اس وقت17/18 سال کے لڑکے تھے۔ ان کی پارٹی این ایل ایف میں بہت معتبراور سنجیدہ لوگ موجود تھے۔ مقبول بٹ کے ساتھ تو میرا بہت زیادہ میل جول رہا، وہ ایک بہت مضبوط ارادوں کا اور پڑھا لکھا آدمی تھا۔ وہ کوئی جذباتی لیڈر نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فاروق بھی ایک پڑھا لکھا آدمی تھا اور وہ میری ایک کزن کا شوہر بھی تھا، وہ سب لوگ ایسے نہیں تھے کہ کسی کے ایجنٹ بن جائیں گے۔ یہ (طیارہ اغواء) ان لوگوں کی جینوئن ایفرٹ تھی۔ ان سے پہلے بھی اس جد وجہد میں میر عبدالقیوم، میر عبدالمنان وغیرہ جیسے اہم افراد تھے، ، یہ کوئی غیر سنجیدہ قسم کی ایجنٹوں کی پارٹی ہرگز نہیں تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مقبول بٹ کو یہاں بھی ایجنٹ کہا گیا۔ اس (گنگا)مقدمے میں میرے بنیادی مؤکل ہاشم قریشی کو سزا ہو گئی تھی، باقی سارے لوگوں کوزیادہ سزا نہیں ہوئی۔ ہاشم کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چودہ برس قید کی سزا سنا دی گئی، چار پانچ سال بعد ہم نے اس کی ایک اپیل سپریم کورٹ میں کی، اس اپیل کی سماعت کے وقت ہاشم نے کہا کہ اگر میں باہر نکل بھی گیاتو کہاں جاؤں؟ ہندوستان والے کہتے ہیں کہ میں پاکستانی ایجنٹ ہوں، پاکستان والوں نے تو فیصلے میں لکھ دیا ہے کہ میں انڈین ایجنٹ ہوں، وہ اپیل یہاں سپریم کورٹ میں لگی۔ اس سے قبل ان کے خلاف سپشل ٹربیونل نے فیصلہ دیا تھا، یہ چار سو صفحات پر مشتمل فیصلہ تھا۔ گویا پوری کتاب تھی، میں جب وہ کھول کر پڑھنے لگاتوتینوں ججوں نے بیک زبان کہا کہ یہ تو بہت لمبی کتاب ہے، جو آپ نے پڑھا ہے ہم اس کی بنیاد پر حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ آپ کی اس اپیل کی مخالفت کرتے ہیں یا نہیں۔ دوسری جانب حکومت نے یہ اپیل کر رکھی تھی کہ جو رہا ہوئے ہیں انہیں زیادہ سزا اور ہاشم کو پھانسی کی سزا دی جائے، پھر کیس ایڈجرن ہوا، اس وقت حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا ہم حکومت کی جانب سے کی گئی اپیل واپس لے لیتے ہیں، یہ (ہاشم ) اپنی اپیل واپس لے لیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ ہم اپیل تو واپس نہیں لے سکتے کیونکہ ہم تو یہ اپیل کر رہے ہیں کہ ہماری کنوکشن جس بنیاد پر ہوئی ہے وہ غلط ہے اور یہ الزام ہمارے اوپر سے ہٹایا جائے۔ پھر یہ فیصلہ ہوا کہ میں فیصلے کے متعلق ایک فیکچویل ڈرافٹ بنا کر کورٹ میں پیش کروں، وہ میں نے بنا کر پیش کر دیا، اسی کی بنیاد پر انہوں نے فیصلہ کر دیا اور اس میں فیورایبل بات لکھ دی۔

(جاری ہے)

(بشکریہ 92 نیوز، سنڈے ایڈیشن)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).