ممتاز دانشور اور بائیں بازو کے عظیم رہنما عابد حسن منٹو کا خصوصی انٹرویو (3)


’’سی پیک بننے سے مستقبل کا نقشہ بدل رہا ہے، پاکستان کو اپنا ذہنی نقشہ بھی بدلنا ہو گا‘‘

انہوں نے عملی طور تو ان سارے علاقوں کو اپنا باج گزار بنایا ہوا ہے۔ آزادکشمیر جہاں ان کااپنا آئین اور اسمبلی بھی ہے وہاں حقیقت میں حکومت تو پاکستان اور اس کے چار افسروں کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اقدامات اور اور سیاسی موقف میں تضادات ہیں۔ سی پیک کے بننے سے جن جن کے مفادت وابستہ ہیں وہ سب چاہتے ہیں کہ یہ بن جائے۔ اب نقشہ تو بدل رہا ہے لیکن اس دوران پاکستان کو اپنا دماغی نقشہ بھی بدلنا پڑے گا کہ انہوں نے گلگت بلتستان کا معاملہ کیسے حل کرنا ہے۔ جب آپ کا فیصلہ ہے کہ یہ کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو آپ کو ان کے ساتھ بات چیت کرکے کوئی معائدہ کرنا چاہئے۔ مقامی باشندوں کو اس میں شامل کیا جائے ورنہ یہ جھگڑے ختم نہیں ہوں گے۔

’’کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں کو لچک دکھانی ہو گی‘‘

ہندوستان کے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے پاس ہے۔ یہ جو قبضے کے معاملات نہ تو یاسین ملک کے کہنے سے درست ہو سکتے ہیں نہ کسی اور کے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کا کشمیر ہندوستان کے حوالے ہو جائے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر پورے طور پر نکل کر پاکستان کے ساتھ آجائے، ہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کا بھارت سے تعلق ری ڈیٹرمن ہو جائے۔ کشمیر کو جوڑ کر ایک خودمختار ریاست بنانا تبھی ممکن ہو گا کہ پاکستان اس بات پر راضی ہو۔ یہ پاکستان کی رولنگ کلاس کا سوال ہے۔ اگر یہ خود تیار نہیں تو ہندوستان کو کیسے کہا جا سکتا ہے بلکہ خود کشمیریوں کو کیسے کہا جا سکتا ہے۔ دیکھیں مقبوضہ کشمیر کے اندر موجود کشمیریوں کو اپنی جد وجہد کے لیے کوئی سیاسی موقف لینا پڑتا ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو وہاں کون سیاست کرنے دے گا؟

’’عدلیہ کا انحطاط مارشل لاء دور سے شروع ہوا، حاکم قوت کی ساتھ مفاہمت مسئلے کی بنیاد ہے‘‘

عدلیہ کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ پاکستانی عدلیہ میں انحطاط مارشل لاؤں کے زمانے سے شروع ہوا۔ جب عدلیہ نے مارشل لاء کو جسٹی فائی کرنے کے لیے فیصلے کرنے شروع کیے توغیر جمہوری وغیر آئینی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑی۔ اس کے لیے آپ کئی بہانے تراش سکتے ہیں مثلاً حالات خراب تھے، یا پھر سول انتظامیہ فیل ہو چکی تھی، ہمارا تو کیس یہ ہے کہ آپ سول اداروں کو مضبوط کرنے کے عمل کا حصہ بنیں۔ آپ فیصلہ وہ دیں جو سول ایڈمنسٹریشن کومستحکم کرے نہ وہ جو دوسری قوتوں کو طاقتور بنائے۔ جب آپ ایک حاکم قوت کے ساتھ مفاہمت کرنا شروع کرتے ہیں تو پھرآپ کسی کے ساتھ بھی مفاہمت کر سکتے ہیں۔ حاکم قوتیں سیاسی ہوں یا غیر سیاسی کوئی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت کس ادارے سے کیا چاہتی ہیں۔ جب آٹھ ججوں میں سے ایک کو اٹھا کر چیف بنایا جاتا ہے تو اس کے پیچھے بھی کوئی’’حکمت‘‘ ہوتی ہے۔

’’عدلیہ کی بہتری میں بنیادی ذمہ داری بار ایسوسی ایشنوں کی ہے‘‘

عدلیہ کے کرادر میں شفافیت ممکن بنانے میں بڑا کردار بار ایسوسی ایشنوں کا ہے۔ اس وقت پاکستان میں دو لاکھ کے قریب وکیل ہیں، بار ایسوسی ایشنز بہت منظم ہیں، ان کے انتخابات بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں بھی بہت دفعہ ان کا اچھا کردار آپ نے دیکھا ہے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے زمانے میں ہم نے جو تحریک چلائی تھی وہ اس کی مثال ہے۔ لیکن جونہی ہم بحرانوں سے نکلتے ہیں تو یہاں بھی وہی فائدہ اٹھانے، قبضہ کرنے، اپنے لوگوں کو آگے لانے کی کشمکش نظر آنے لگتی ہے، اب تو ڈی جنریشن اتنی ہونے لگی ہے کہ ہم سنتے ہیں کہ وکیلوں نے مجسٹریٹ کو کمرے میں بند کر کے مارا۔ پولیس اہلکاروں کو مار پیٹ ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ اگر بار ایسوسی ایشنز سختی سے اس بات پر کاربند ہوجائیں کہ وہ قانون کی بالادستی اور آئین کی پاس داری کے ساتھ رہیں گے تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سماج میں ہی سب کچھ بکھرا ہوا ہے توا س کو ٹھیک کرنا آسان نہیں ہے مگر کم ازکم اپنے ادارے کی حد تک کچھ نہ کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔

’’ میں کامیاب وکیل ہوں لیکن اس میں پیسےکا کوئی کردار نہیں‘‘

(مسکراتے ہوئے) دیکھیں آپ کی اطلاع کے لیے میں ایک کامیاب وکیل تھا۔ تیس چالیس سال تو میں کامیاب ہی رہا ہوں، لیکن میں نے پیسے نہیں کمائے۔ میری پارٹی کے اندر بھی بعض لوگوں کو شبہ ہو جاتا ہے کہ میں تو کروڑ پتی ہوں، میں نے ان سے کہا میں نے وکالت شروع کرتے ہی یہ فیصلہ کیا کہ میں نے کارخانے دار کا مقدمہ مزدور کے خلاف نہیں لڑنا اور مزدوروں کے مقدمے مفت کرنے ہیں، کوئی مزدور یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس سے پیسے لیے ہیں، تو آپ مجھے بتا دیں کہ میں کروڑ پتی کیسے ہو سکتا ہوں، اس کے باجود میں کامیاب وکیل ہوں، اس میں پیسے کمانے کا کوئی کردار نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے وکالت کرنے کے طریقے اور دیانت کو جج تسلیم کرتے ہیں۔

’’میٹنگ میں شریف الدین پیرزادہ نے بتایا کہ انہوں نے فلاں فلاں جج پہلے ہی رام کر لیے ہیں‘‘

میں جب نیا نیا سپریم کورٹ کا وکیل بنا تو ایک مقدمے میں شریف الدین پیرزادہ کے ساتھ جونئیر وکیل کے طور پر تھا۔ انہوں نے مجھے اسلام آباد بلا لیا۔ وہاں ہماری میٹنگ تھی، دو تین اور وکیل بھی موجودتھے۔ بات چیت مقدمے کے بارے میں ہوئی مگر اس کے حقائق اورقوانین کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ پیرزادہ صاحب نے یہی بتایا کہ ان پانچ ججوں جن نے کل ہمارا فیصلہ کرنا ہے، ان میں سے کن کن کو انہوں نے رام کر لیا ہے۔ میں اس میٹنگ میں اکیلا تو نہیں تھا، سب سن رہے تھے۔

’’ڈکٹیٹر مشرف کی نہیں فیڈریشن کی وکالت کی تھی‘‘

مشرف دور میں ایک مقدمے کی پیروی پر سوال اٹھایا توردعمل کچھ یوں تھا: نہیں میں آرمی کا کبھی وکیل نہیں رہا۔ صرف ایک سرکاری مقدمہ کیا۔ وہ قومی احتساب بیورو کے قانون کے حوالے سے تھا، نیب آرڈیننس جب 99ء میں نافذ ہوا تو اس کو مختلف لوگوں نے چیلنج کیا۔ چیلنج کرنے والے یہاں کے سیاسی لیڈر نواز شریف، اسفند یار ولی وغیرہ بھی تھے، ان کا موقف تھا کہ یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے اور ہمارے خلاف سیاسی بنیادوں پر جاری کیا گیا ہے، فیڈریشن نے مجھ سے کہا کہ آپ ہماری طرف سے پیش ہو سکتے ہیں، میں نیب کی طرف سے پیش نہیں ہوا، میں نے فیڈریشن سے کہا کہ اس آرڈیننس میں جو خرابیاں قانون اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں ان کا دفاع میں نہیں کروں گا، اگر آپ اجازت دیں تو پہلے ہی ان کو لکھ کر دیتے ہیں کہ یہ چیزیں ہم ٹھیک کر کے دینے کے لیے تیار ہیں۔ نیب کے آرڈیننس میں خاص طور پر یہ بھی لکھا تھا کہ جو حاضر سروس فوجی سول انتظامیہ میں آ کر کام کرتے ہیں ان کا احتساب بھی کیا جا سکے گا، میں نے سوچا کہ اتنا بڑا قانون آج تک بنا نہیں ہے اس لیے میں اس کا دفاع کروں گا، یہ سارا کام کرنے سے پہلے میں نے اپنی پارٹی سے رابطہ کیا کہ کیا میں یہ مقدمہ کروں یا نہ کروں، ہماری پارٹی نے نیب بننے سے پہلے ایک قرارداد پاس کی تھی کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور اس کے لیے قانون بننا چاہیے، سو میری پارٹی نے مجھے اجازت دے دی۔ پھر جو فیصلہ ہوا اس کے پہلے صفحے پر میرا یہ بیان درج ہے کہ ہم اس میں موجود خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

’’فوجی عدالتیں پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم سے بنی ہیں، پوچھنا چاہئے کہ سول انتظامیہ کیوں فیل ہے‘‘

پہلا سوال یہ ہے کہ یہ عدالتیں کس نے بنائی ہیں۔ ظاہر ہے آئینی ترمیم ہوئی ہے جو پارلیمنٹ نے کی ہے۔ اب پارلیمنٹ اس بات کا جواب دے کہ جس سسٹم کو چلانا سول انتظامیہ کا کام ہے، وہ کیوں فیل ہے۔ آپ نے پچھلی مرتبہ فوجی عدالتیں بنانے سے لے کر اس وقت تک نارمل جوڈیشل جیورس ڈکشن کو مضبوط کرنے یا بہتر کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی سول عدالت ثبوتوں کے بغیر کسی کو سزا نہیں دے گی، یہ قانون ازل سے ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو جائے گا، اور شک سے مراد ادنیٰ ترین شک ہے۔ ان ساری باتوں کی اس وقت نفی ہو جاتی ہے جب آپ کہتے ہیں کہ ایک ایسی عدالت ہونی چاہیے جو جنرل پرسپشن کے مطابق لوگوں کو سزا دے دے، اب سزا اور جزا کا معاملہ یہ ہے کہ لوگوں کو اب خوشی نہیں ہو رہی کہ آپ سزائیں نہیں دے رہے ہیں، لوگوں کی پرسپشن یہ ہے کہ سزا ہونی چاہئے اور آپ نہیں دے رہے، یہاں تین چوتھائی مقدمات کا تعلق سیاسی اثرات سے ہے لیکن آپ چاہتے ہیں کہ سب لوگوں کوسزا دی جائے۔ چونکہ آپ نے سب لوگوں کو یہ سکھایا ہوا ہے کہ لوگوں کوسزا ہونی چاہیے۔ اس قسم کی سزا تو فوجی عدالت ہی دے سکتی ہے۔ فوجی عدالت اس لیے تو نہیں بنائی گئی کہ انصاف دیا جائے، یہ عدالت اس لیے بنائی گئی ہے کہ لوگوں کو سزائیں دی جائیں۔ اس کا اعلان ہی یہی ہے کہ (سول عدالتوں سے )سزائیں نہیں ہوتیں۔

’’ضیاء الحق کا دور دو وجوہات کی بنا پر سب سے برا تھا‘‘

ضیاء الحق کا دور پاکستان کی تاریخ کا سب سے برا دور ہے، ایک تو ضیاء الحق فوجی آمر تھے، دوسرا اس لحاظ سے کہ وہ ڈکٹیٹر ہونے کے ساتھ اپنے کسی نظریاتی مشن پر بھی تھے، اس ملک کے بارے میں وہ اپنے اس مشن کے ساتھ مخلص تھے؟ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ دیانت دار آدمی تھے، کیونکہ جو آدمی کسی کے کہنے پر مشرق وسطیٰ میں جاکر مسلمانوں کو قتل کر سکتا ہے، اس کے اسلام کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ اس نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیااوربدقسمتی سے اس کی باقیات اب تک موجود ہیں۔

’’نواز شریف نے حالات سے سیکھا ہے، ان کے بنیادی نظریات میں تبدیلی محسوس ہوتی ہے‘‘

نواز شریف کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان نے جو وقت بیرون ملک گزارا ہے اس سے ان نے کافی سیکھا ہے۔ ان کے بولنے کے انداز اور نظریات میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس (سرمایہ دارانہ )نظام سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں بلکہ وہ اس نظام کو ایک آپریٹو نظام کے طور پر چلانے کے لیے اس کے تقاضے پورا کرنا چاہتا ہے۔ میرا خیال ہے نواز شریف اب 1947ء والے قائداعظم کی طرح کا بننا چاہتے ہیں۔

’قائداعظم پسند یدہ شخصیت ہیں۔ ستار اور ہارمونیم بجاتا رہا، کلاسیقی موسیقی سنتا ہوں، استنبول اور لاہور پسندیدہ جگہیں ہیں‘‘

پسندیدہ شخصیت کے بارے میں استفسار پر کہا پاکستان میں جناح صاحب اور سامنے دیوار پر قائداعظم کی تصاویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دونوں تصویریں سوٹ والی ہیں، دوسری تصویر میں ڈوبر مین اور ایک روسی کتا بھی موجود ہے، دونوں ان کے پاس ہیں اور ان کے منہ میں سگار ہے، میں ان قائداعظم کو تومانتا ہوں، بعد میں جو ان کو ٹوپی اور اچکن پہنائی گئی، مجھے وہ قبول نہیں۔ دنیا میں پسندیدہ شخصیات میں سے آخری فیدل کاسترو تھے، جنہوں نے ایک چھوٹے سے ملک کو بے شمار مشکلات، معاشی ناکہ بندیوں اور دباؤ کے باوجودقائم رکھا اور اپنے نظریات پر سمجھوتا نہیں کیا۔ ویسے بھی کتابیں بہت پڑھتا ہوں۔ ایک چھوٹی سی کتاب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اس کا نام کمیونسٹ مینی فسٹو ہے۔ موسیقی سے کسی زمانے میں بہت شغف رہا۔ ستار اور ہارمونیم بجاتا تھا۔ استاد فیاض خان، استاد عبدالکریم خان اور روشن آرا بیگم میرے پسندید ہ گانے والے تھے۔ کالج کے زمانے میں فلمیں بہت دیکھتا تھا، سعادت حسن منٹو کی کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ پر بنی فلم بہت پسند آئی تھی۔ پاکستان میں جب مسٹر بھٹو کا دور نسبتاً بہتر لگا گو کہ اس کے بعد بھٹو نے کچھ آمرانہ اقدامات بھی کیے۔ بہر حال وہ ایک سیاسی حکومت تھی۔ ضیاء الحق کا دور بدترین تھا۔ ترکی کا دارالحکومت استنبول بہت پسند ہے اور پاکستان میں لاہورلیکن لاہور کے تہذیبی کلچر کو تباہ ہوتے دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔

(بشکریہ: 92 نیوز سنڈے میگزین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).