عبادت کا سٹرٹیجک فلسفہ: ضیا الحق سے احسان اللہ احسان تک


آج بازار میں احسان اللہ احسان کی عبادت گذاری کے چرچے سنائی دیے تو بے ساختہ سترہ اگست 1988 کی وہ شام یاد آ گئی جب کسی نے جنرل ضیا الحق کی ہلاکت کی خبر سنائی تھی اور پھر ہم سب پچاس گھروں کے اکلوتے ٹی وی کے گرد جمع ہوگئے۔ مساجد میں غائبانہ نماز ِ جنازہ کے اعلان ہوئے کہ آج ایک نیک انسان دنیا سے چلا گیا۔ پھر ہم نے جنرل صاحب کے جنازے کے مناظر مرحوم اظہر لودھی کی رُندھی ہوئی لائیو کمنٹری کے ساتھ دیکھے۔

جب کچھ لوگ ان کی عبادات اور تلاوت کے شوق کے تذکروں سے ان کے جنتی ہونے کی بشارتیں دے رہے تھے تو ہمارے ایک عزیز یہ سب سن کر لاحول ولا کا ورد کرتے رہے۔ میں اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اکیلے میں ان کے رنج کی وجہ پوچھی تو انہوں ایسا جواب دیا جو آج بھی حرف بہ حرف یاد ہے :

’’کیا عبادات جرائم کا لائسنس ہیں؟ کیا عبادات اس لئے ہیں کہ آپ عبادت کرنے کے بعد کچھ بھی کرسکتے ہیں؟ یاد رکھو بچے۔ نیکی کا اصل امتحان عبادت کے بعد شروع ہوتا ہے !‘‘۔

ان کے سوالات اس قدر واضح تھے  کہ ایک نوبالغ کے دل میں اُتر گئے لیکن پھر بھی تحقیق کو ضروری سمجھا۔ چند برس بعد ایک روز اپنے مولوی صاحب پانی پی رہے تو میں نے ان سے یہ سوال پوچھ لیا۔ مولوی صاحب نے آنکھ سے خامو ش ہونے کا اشارہ کیا اور گلاس صف پر رکھ کے بولے :

’’ میں نے پانی کس لئے پیا ہے ؟‘‘۔

’’آپ کو پیاس لگی تھی ، پیاس بجھانے کے لئے پیا ہے ‘‘۔ میں نے جواب دیا۔

’’پانی پینے کے لئے تو نہیں پیا ؟ ‘‘۔

’’نہیں !‘‘۔ میں نے نفی میں سر ہلادیا۔

’’پانی پینا ذریعہ جب کہ پیاس بجھانا مقصد ہے۔ اسی طرح عبادت ذریعہ جب کہ نیکی اور اچھے اعمال مقاصد ہیں۔ عبادات کے قبول ہونے کا پتہ بعد کے اعمال سے چلتا ہے۔ اگر آپ سے اچھا عمل سرانجام نہیں پا رہا تو آپ نے عبادت محض دکھاوے کے لئے کی ہے۔ میں ایسی عبادت کو سیاسی عبادت کہتا ہوں۔ جیسے کوئی چلنے کے لئے چلتا ہے اور کوئی بولنے کے لئے بولتا ہے۔ نہ ایسے چلنے سے کوئی منزل ملتی ہے۔ نہ ایسے بولنے کا کوئی مطلب اور مقصد ہوتا ہے۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ عبادات لائسنس نہیں کہ عابد ہو کر آپ جو چاہیں کرتے پھریں۔ عبادت تو ذمہ داری ہے۔ اچھے اعمال کا وضو اور تیاری ہے۔ ‘‘۔

مولوی صاحب ہمارے عزیز کی بات پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ پھر ہم نے مذہبی کتب میں یہ بھی پڑھا کہ انسان عبادات سے نہیں معاملات سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ بھی سنا کہ بہتر انسان وہ ہے جو بلا تفریق انسانو ں کی بھلائی کے لئے کام کرے۔ مولوی صاحب نے عبادات کا فلسفہ ہمیں تو سمجھا دیا مگر لوگ عبادت کے سیاسی فلسفے کے قائل رہے۔

 انہیں ذرائع اور مقاصد کا فرق کون سمجھاتا جنہیں قطار اندر قطار گھروں کو تیاگ کے نکلے ہوئے لوگ یہ سمجھا رہے ہیں کہ عبادات فی ذاتہ نیکی ہیں۔ اگر لوگوں کو یہ سمجھ آجاتی تو آج کسی کو محض تہجد گذار، نمازی اور قاری ہونے کی بنا پر معصوم قرار دینا اتنا آسان نہ ہوتا ؟ اگر سمجھ آ جاتی تو لوگ تقاضا کرتے کہ عبادات کا حساب مت دو۔ معاملات کا حساب دو۔ اس گوشوارے، اُس اعما ل نامے کے اعدادوشمار پیش کرو جس میں انسانیت کے نفع کے لئے اٹھائے گئے اقدامات درج ہیں۔

 عبادت خیر کا ذریعہ ضرور ہے لیکن جو مقصد حاصل نہیں کر پائے انہیں ہم ’ خیر الناس ‘ کیسے مان لیں ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments