اندرون لاہور کی صبح


شفیق الرحمن کا ایک یادگار کردار تھا، بڈی۔ میس میں موجود سب فوجی دوست اپنے اپنے وطن کو یاد کرتے تو بڈی اپنے امریکہ کو ایسے بے طرح یاد کرتا کہ دوست شکایت کرتے، بڈی چپ کر جا! اب تو ہمیں اپنا گھر نہیں، تیرا گھر یاد آنے لگا ہے۔ کچھ ایسی عجیب کیفیت بھائی وقاراحمد ملک کا مضمون پڑھ کر ہوئی۔ ہم اندرون لاہور پیدا ہوئے، وہیں بڑے ہوئے اور اب بھی اس کے قریب ہی رہتے ہیں۔ لیکن یہ شہر ایسا الف لیلوی محبوب ہے، کہ پہلو میں بیٹھ کر بھی یاد آتا ہے۔ عجیب بات ہے نا؟ مرشدی نے ’خاکم بدہن‘ میں لاہور سے متعلق فرمایا اگر کیلنڈر سے مئی، جون، جولائی، اگست، ستمبر کے مہینے نکال دیے جائیں تو واللہ ایسا شہر عالم میں نہیں۔ ہمیں مقامی ہونے کے ناتے اس جملے میں یہ ہیرا پھیری کرنے کی اجازت دی جائے کہ اگر سورج کے گرد اپنی پھِرکی کے دوران زمین کچھ ایسا زاویہ کر لے کہ اس شہر کی دوپہر کم ہو جائے تو کیا بات ہے۔ جیسا جنوری میں ہوتا ہے۔ دن بھر شام اور پھر رات۔ لیکن آج ذکر لاہور کی صبح کا۔ صبح سویر کا۔

صبح سویر میں کوئی تو بات ہے۔ رات کا فسوں اپنی جگہ، لیکن صبح تڑکے کا اپنا جادو ہے۔ رات لوری دیتی ہے تو صبح تازگی عطا کرتی ہے۔ رات پرچھائیوں کا تھیٹر دکھاتی ہے تو صبح وسوسے دور کرتی ہے۔ رات مال روڈ پر پھرتا ناصر کاظمی ہے تو دن ماڈل ٹاؤن پارک کو رونق بخشتا مستنصر حسین تارڑ! البتہ اے حمید کی شان اور ہے۔ ہمارے امرتسری بھائی نے سرہگی ویلے کے بعد مصری شاہ سے اندرون لاہور جاتے ہوئے گلاب کے باغوں کی خوشبو بھی سونگھی ہے اور سردی کی سنسان راتوں میں میکلوڈ روڈ کے ہوٹلوں میں چائے کی مہک بھی۔

اس صبح کے وقت سے مراد آٹھ بجے کا آنکھیں دکھاتا سورج نہیں۔ لا حول ولا! ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے ہم نے جتنی بار یہ تڑکے کا وقت جاگتی حالت میں دیکھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ خیر سے ابھی سوئے ہی نہیں۔ تو ساری رات چاہے امتحان کی تیاری کے بہانے فلمیں دیکھنے میں گزری ہو یا اس ضد میں ناول ختم کرنے میں کہ اس بار تو ہم ہیرو سے پہلے قاتل تک پہنچ کے رہیں گے، صبح کی خوبصورتی نے کبھی ہمیں فوراً سونے نہیں دیا۔ چاہے وہ دم بہ دم نیلی سے گلابی میں تبدیل ہوتی ایک چادر ہویا کسی شفیق دادی کی طرح بالوں میں ہاتھ پھیرتی ٹھنڈی ہوا۔ یا پھر وہ ضدی چڑیاں جو نچلی نہ بیٹھتی ہوں۔ لیکن رکیئے، سارا شہر ایک سا نہیں ہوتا۔ ہمارا تعصب ہمیں مال روڈ سے پار کوئی اور شہر بتاتا ہے۔ لاہور تو اِس پاسے ہے! تو آ اے شب فراق، تجھے اندون شہر لے چلیں۔

رات بارہ بجے جو آپ ناول لے کے بیٹھیں، تو اندرون شہر کے سیامی جڑواں جیسے ملے مکانوں سے اکا دکا آوازیں ابھی بھی آرہی ہوتی ہیں۔ کہیں ٹی۔ وی پر چلتی فلم کا شور، کہیں سے کسی شیر خوار کا احتجاج، کسی پان فروش کی دکان کا بالآخر گرتا شٹر اور یاروں کی ٹوٹتی منڈلی۔ دھیرے دھیرے آوازیں کم اور دور ہوتی جاتی ہیں۔ ان گھروں میں لوگ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں۔ رات کو سب سے آخر میں گھر آنے والے کی ڈیوٹی ہوتی کہ صدر دروازے کی کنڈی لگا دے۔ جب آس پاس تمام گھروں میں کام کاج سے دیر سے لوٹنے والے آجائیں تو خاموشی کی عملداری شروع ہوتی ہے، جو کبھی کبھی کسی گزرتی موٹر سائیکل کے شور سے ٹوٹتی ہے۔ یاں پھر شاہ عالمی سے کئی کلومیٹر دور ریلوے سٹیشن سے پکارتی ریل کی سیٹی۔ یہ سناٹا تین چار گھنٹے جاری رہتا ہے اور خاموشی کو چوکیدار کی لاٹھی کی کھٹ کھٹ کے سوا کوئی آواز نہیں توڑتی۔ یہ تین چار گھنٹے کب گزرتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔ انگریز بجا طور انہیں small hours کہتے ہیں۔ پھر صبح کا وقت قریب آتا ہے۔

اگر آپ چھت پر نہ سوتے ہوں تواندرون شہر میں صبح ہونے کا احساس آوازوں سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، فجر کی آذان ہونے سے پہلے آذان دینے والے جاگتے ہیں۔ ساتھ ساتھ جڑے گھروں کی موٹی دیواروں میں دور کسی گھر سے پانی کی موٹر چلنے کی آوازآنا شروع ہوتی ہے۔ باہر گلی میں، ساری رات پیدل ڈیوٹی کر کے لوٹتے چوکیدار کی سائیکل کی گھنٹی بجتی ہے۔ پھر پرانے گھروں کے بھاری بھرکم دروازوں کی اڑنے والی وزنی کنڈی کھلنے کی آواز اور لکڑی کے دروازے کی چڑچڑاہٹ۔ ابھی دریچوں اور بالکونیوں والے گھر سلامت ہیں اور ان کے لکڑی کے دروازے بھی۔ ابھی ان کی جگہ حریص تاجروں نے محض جگہ گھیرتے نک کٹے میناروں جیسے مکان نہیں بنائے جنہیں ٹین کے بے برکت دروازے لگے ہوں۔ مسجد جاتے حاجی صاحب، راستے میں ورد، درود پڑھتے، کونے والی مسجد کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ کبھی یہ منظر دیکھا تو نہیں لیکن جانے کیوں شک گزرتا ہے کہ مسجد کے امام کو حاجی صاحب ہی جگاتے ہیں۔ پھر نماز کے بعد جانے کب چڑیاں بولنا شروع کرتی ہیں، آج تک نہیں پتہ لگا کہ وہ خاص لمحہ کب آتا ہے جب یہ چوں چوں شروع ہوتی ہے۔ باہر گلی میں اب چہل پہل کے آثار بڑھ جاتے ہیں۔ جھاڑو ا ور اس کے بعد مشک سے پانی کے چھڑکاؤ کی آواز۔ کل شام کچھ لڑکوں نے صبح منٹو پارک میں کرکٹ کھیلنے کا پلان بنایا تھا۔ اب وہ باری باری باقی دوستوں کے گھر کے آگے کھڑے ہو کے کھلاڑی مکمل کر رہے ہیں۔ صورتحال تھوڑی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے جب وہ کسی گھرکے سامنے کھڑے ہو کے اپنے دوست کو سرگوشی میں پکارتے رہتے ہیں، جب تک کہ کوئی اور گھر والا اٹھ کر ان کے دوست کو نہ جگا دے۔ جس کے ابا ذرا سخت گیر ہیں اسے کل شام ہی بتا دیا گیا تھا کہ بھائی، خود ہی اٹھ کر آجانا۔

ساری رات جاگنے کے بعد اب ہمیں بھوک لگ رہی ہے۔ لیکن ناشتے کی دکانیں کھلنے میں کچھ وقت ہے۔ آپ کمرے سے نکل کر، پرانے مکانوں کی سپرنگ جیسی پیچ در پیچ سیڑھیوں سے چھت پر جا پہنچیں۔ وہاں کچھ چارپائیاں بچھی ہیں۔ ان میں سے کچھ چارپائیوں پر سے سونے والے باقی نیند پوری کرنے نیچے کمروں میں جا چکے ہیں۔ بقیہ ضد یا سُستی میں منہ پر چادر کھینچے پڑے ہیں۔ بارش کے بعد مٹی کی خوشبو کے تو سب عاشق ہیں، لیکن کبھی ان تکیوں کی مہک بھی دیکھیں جو ساری رات چھت پر اوس میں بھیگے ہوں۔ اب گلابی چادر زرد میں بدل رہی ہے۔ نیچے بازار سے ناشتہ بننے کا شور آنے لگا ہے۔ سری پائے کی دیگچی میں چمچہ چل رہا ہے اور لسی کی دکان پر برف کُٹ رہی ہے۔ پوری حلوے کی دکان سے پیڑے کو تین دفعہ ہتھیلیوں پر پٹخ کر پھیلتی پوری، جسے کڑھائی میں پھینکا جا ئے گا اور چند لمحوں میں پوری تیار۔ کبھی موچی گیٹ جانا ہو تو جیرے حلوائی کی دکان سے حلوہ کھائیے۔ باقی دکانوں پر ملنے والے میٹھے خسخاس جیسے حلوے کا اس کی تر شیرینی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اس غشی آور ناشتے کے بعد سونا ہی بنتا ہے اور ہم کسی کمرے میں جا کر لیٹ جاتے ہیں۔ روشندان کے رنگین شیشوں کے پار، گلی کی جانب، کبوتروں کا بسیراہے۔ شیشے کی جمی گرد پر کبوتروں کے پھڑپھڑانے سے نقش بنتے ہیں۔ کبھی بادل، کبھی سمندر، کبھی جہاز۔ بندہ ان کو تصویروں کو دیکھتا دیکھتا سو جاتا ہے۔

پھر اک روز آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ شاہ عالمی میں پیدا ہونے والا شاپنگ پلازوں کا عفریت اندرون شہر کے گھروں تک آگیا ہے۔ جن مکانوں میں دوست رہتے تھے، اب وہاں اجنبی دکانداروں کے گودام بن گئے ہیں۔ ہمیں بھی طنابیں کاٹ کر جانا پڑتا ہے۔ مادھو لال کے مزار پر آج بھی ان کا کلام پڑھا جاتا ہے کہ کھوئے ہوئے لعل، جنگل بیلے میں ڈھونڈے نہیں ملتے۔ بھلا کب ملتے ہیں۔ لیکن تحدیث رب کریم، کہ یہ سب سنا پڑھا نہیں، دیکھا برتا ہے۔ اس شہرِ بے مثال کی تہذیب کی ایک آدھی ادھوری جھلک دیکھی ہے۔ اتنا بھی بہت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).