درس گاہوں کو عیاشی کا اڈہ کیوں سمجھا جاتا ہے


تاثر غلط ہے لیکن ہمارے معاشرے میں پایا ضرور جاتا ہے کہ یونیورسٹیاں، کالج اور سکول تعلیم کے نام پر کھلے ہوئے کوٹھے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی بھی نظریہ، افواہ یا بات یونہی نہیں پھیل جاتی۔ اس کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے ایسی محنت کرتا کون ہے؟ سادہ سا جواب یہی ہے جس کو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے، یونیورسٹیز اور کالجز بند ہونے کا فائدہ کس کو ہو گا؟ طلبا ان اداروں میں نہیں پڑھیں گے تو پھر کہاں اور کیا پڑھیں گے؟

اس حوالے سے چند ذاتی تجربات میں نے خود بھگت رکھے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

ابا جان کے ساتھ مسجد میں نماز جمعہ سے قبل مولوی صاحب کی فکر انگیز تقریر سن رہا تھا کہ اچانک مولوی صاحب منکشف ہوئے۔ والدین بچوں کی شادیوں میں تاخیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منہ کالا کرتے ہیں۔ جوانی گناہ پراکساتی ہے اور ایسے گناہ کے مرتکب ہونے والے بچے، بچیوں کے ماں باپ بھی برابر کے ذمے دار ہوتے ہیں۔

ہمارے مدرسے میں اس ہی ماہ عالم کورس شروع کیا جارہا ہے، بچیوں کو راہ راست کی جانب گامزن کرنے کے خواہش مند حضرات رابطہ کریں۔

یہ سننا تھا کہ میں شرم سے پانی پانی ہوگیا، ابا سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی، مسجد سے گھر تک کا سفر جو خاصا خوشگوار ہوا کرتا ہے ہم نے خاموشی سے طے کیا۔

دوران نماز میرے ذہن میں اس بچی کا خیال آیا جو ابھی انٹر کا نتیجہ آنے کے بعد کسی یونیورسٹی میں داخلے کی خواہش مند تھی اور اس کے والدین گناہ کے ڈر سے اسے گھر بٹھا کر بیاہنا یا پھر کسی مدرسے کے حوالے کرنا چاہ رہے تھے۔ خیال آیا ہماری نسلیں جاہل یونہی تو نہیں رہ گئیں،ساتھ ہی جسم میں ایک سرسراہٹ محسوس ہوئی اور میں نماز میں مگن ہوگیا۔

خود میرا داخلہ جب یونیورسٹی میں ہوا تو اماں کا گمان تھا کہ ان کے معصوم سے بیٹے کو کوئی چالاک سی لڑکی حسن کا ہتھیار چلا کر عشق کے جال میں پھنسا لے گی۔ جس سے ممکنہ طور پر بچنے اور دل پڑھائی میں لگانے کی ہمیں بہت سی نصیحتیں کی گئیں۔

کراچی کی یونیورسٹی روڈ سے ایک مرتبہ بس میں سوار ہوا تو کنڈیکٹر جو کہ خاصا جوان تھا للچائی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا، تعلیم کی طرف اس کی دلچسپی محسوس کی تو کہا کیا پوچھنا چاہتے ہو، اس کا جواب سن کر حیران رہ گیا،آپ کے تو مزے ہیں صاحب ہروقت ہرطرف بچیاں ہی بچیاں۔ یہاں بچیوں سے مراد اس کی خواتین تھا۔

میری انگریزی خاصی کمزور تھی، سیکھنے کا اشتیاق ہوا تو سوچا کسی کوچنگ سینٹرمیں داخلہ لے لیا جائے، اک دوست سے مشورہ کیا تو جواب ملا یار وہاں تو لوگ دل لگانے جاتے ہیں، کہو تمہیں بھی کوئی چاہیے ہے کیا؟

یہ تو ہوئے ایک لڑکے کے چند ذاتی تجربات، اس موضوع پر کسی روز پڑھنے یا پھر پڑھانے کی خواہش رکھنے والی خواتین کی رائے لی جائے تو مجھے سو فیصد یقین ہے آپ کی روح کانپ جائے گی۔

آپ کے والدین کے دل میں آپ کولے کر ایک فیصد بھی شک ہو اور اس کی وجہ سے آپ پر تعلیم کے دروازے بند کردیے جائیں۔ اگر نہ بھی بند کیے جائیں تو آپ بھری جوانی پھونک پھونک کر قدم رکھتے اور صفائیاں پیش کرتے گزاردیں۔ کہیں، اس سے بڑا ستم اور کیا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).