نئے لکھاری کا محضر نامہ


 اوئے نئے لکھاری!

جی

تمہارے پاس کوئی خبر ہے؟

جی نہیں

خبروں کے کسی سورس تک تمہاری رسائی ہے؟

جی نہیں

نیوز روم کبھی دیکھا ہے

جی نہیں

خبر تیار ہوتی کبھی دیکھی ہے

جی نہیں

پروف ریڈر کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا ہے

جی نہیں

خبروں کا تجزیہ کرنا آتا ہے؟

جی اس کا دعوی نہیں کر سکتا۔

میڈیا کے بڑے نام، جو کوئی درجن بھرسے زیادہ نہیں ہیں، ان کے چرنوں میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے

جی نہیں

تمھارے پاس کوئی دلچسپ بات ہے کہنے کو؟

جی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

پچھلے دس برس میں اتنی کتابیں پڑھی ہیں جتنی مبشر زیدی، وجاہت مسعود، عثمان قاضی یا عاصم بخشی تین مہینوں میں رگڑ دیتے ہیں؟

نہیں جناب

نستعلیق اردو سے واقفیت ہے؟

جی نہیں

سوشل میڈیا والے گھٹیا فیشن سے پہلے کبھی لکھا یا کچھ چھپوایا؟

جی نہیں

تو پھر کس زعم میں ہو؟ کون پڑھے گا تمہیں؟ کیا لکھنا چاہتے ہو اور کیوں لکھنا چاہتے ہو؟ مشہور ہونے کا شوق ہے تو کسی اور طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کرو۔

جی اس کا جواب ذرا لمبا ہے اگر آپ اجازت دیں تو!

ہاں ہاں بولو، تاکہ تمھاری غلط فہمی بلکہ خوش فہمی کھل کر سامنے آ سکے۔

میڈیا ملک میں علم کی روشنی پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ عام لوگوں کے رویوں اور ان کی سوچ اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ سکول، مسجد اور سیاسی اکھاڑے بھی اپنا اثر ڈالتے ہیں لیکن پھر بھی میڈیا کی اپنی اہمیت ہے۔ اس لئے صحافی کا کام بہت اہم ہے۔ اس وقت معاشرے میں ذاتی اور اجتماہی رویوں کی جو صورت حال ہے اس میں صحافی کا بہت اہم کردار ہے۔ صحافی ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے کس واقعے کو کیسے دیکھنا ہے اور اس میں ہمارے لئے کیا سبق پوشیدہ ہے۔ اسی سے ہمارا ردعمل تشکیل پاتا ہے۔ اسی سے ہماری سوچ کا انداز بنتا ہے۔ اگر اس وقت ہماری اکثریت روشن خیال، انسان دوستی اور سائنسی انداز میں سوچتی ہے تو اس کا کریڈٹ ہمارے سینیئر صحافیوں، جو پچھلے تیس چالیس برس سے اس کام میں جتے ہوئے ہیں، کو جاتا ہے اور اگر صورت حال اس سے مختلف ہے تو پھر اس الزام میں بھی ان کی ذمہ داری مقدور بھر ہے۔

بحیثیت قاری اور بحیثیت ایک عام شہری میرا یہ خیال ہے کہ میڈیا کے لوگوں نے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے صحافیوں کا کردار ہماری سول اور ملٹری بیوروکریسی، ججز اور بزنس کرنے والے طبقے سے بہت بہتر رہا۔ صحافیوں نے قوم کے لئے کوڑے کھائے جیلیں کاٹیں، جانیں دیں جو قابل فخر بات ہے لیکن لفافے لینے والے بھی تھے۔ میڈیا کے لفافے لینے والے باقی سارے شعبوں سے کم تھے۔ ان لفافے لینے والوں میں آج کے کچھ معتبر نام بھی ہو سکتے ہیں۔ قوم میں روشن خیالی، انسان دوستی اور غیر جانبدارانہ سوچ کی بھی کافی کمی ہے۔ باقی سارے کرداروں کی طرح میڈیا کو بھی اس سے بہتر کردار ادا کرنا ہے۔ اس لئے گنجائش موجود ہے کہ نئے لوگ بھی آ کر اپنا حصہ ڈالیں۔

اور پھر انفارمیشن اور کمیونیکیشن کے میدان میں انٹرنیٹ کے برپا کردہ انقلاب نے نئی راہیں بھی کھول دی ہیں۔ ان کی وجہ سے نئے مواقع میسر ہیں اور میں ان مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے آپ کی سپورٹ اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ میں آپ سے سیکھوں گا اور ساتھ ساتھ ان دیکھے راستوں کو بھی آزماؤں گا۔ ہو سکتا ہے کہ میری تحریر اس معیار پر پوری نہ اترتی ہو جو آپ نے مقرر کر رکھے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی زبان بھی معیاری اور خوبصورت نہ ہو۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معیار ہی بدل رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میری لکھی ہو تحریر زیادہ لوگوں کو آسانی سے سمجھ آتی ہو۔ عین ممکن ہے میرا ذخیرہ الفاظ کم ہونے کا یہ فائدہ ہو کہ زیادہ لوگ بغیر لغت استعمال کیے مجھے سمجھ سکتے ہوں۔ مجھے اپنی خامیوں کا احساس تو ہے اور میں انہیں دور کرنے کی کوشش بھی جاری رکھوں گا لیکن اگر میں آپ کے معیار پر پورا نہیں اترتا تب بھی مجھے آپ کی طرف سے حوصلہ افزائی کی ضرورت اور امید ہے۔ بالکل ایسی ہی حوصلہ افزائی جیسی آپ کو تیس سال پہلے اپنے مہان سینئرز سے ملی تھی، جس پر آپ بجا طور پر فخر بھی کرتے ہیں۔ آپ بھی میرے مہان سینئر ہو۔ میرے استاد اور گرو ہو۔ میں آپ کا ہمسر نہیں بلکہ آپ کا فین ہوں اور چاہتا ہوں کہ مجھے بھی یہ فخر ہو آپ نے مجھے نہ صرف موقع فراہم کیا بلکہ سکھایا بھی۔

میرا لکھنے کا مقصد وہی ہے جو آج سے تین چار دہائیاں پہلے آپ کا اور ان لوگوں کا تھا جو اس وقت لکھنا چاہتے تھے اور شروع کر رہے تھے۔ آپ کی آشیرباد سے میں بھی اس معاشرے میں روشن خیالی، انسان دوستی، امن اور شخصی آزادی جیسے کھوئے ہوئے افکار کو واپس لانے میں اپنا کردار ادا کر پاؤں گا۔ دوسرا یہ کہ آج سے تیس سال بعد بھی تو کوئی لکھنے والا ہونا چاہیے ناں۔ اور وہ تبھی ممکن ہے کہ آج آپ نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اب تک کی ملنے والی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے لئے بڑے لکھاریوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik