میرے بچپن کی یادیں(2 )


(پہلا حصہ)

میرے بچپن میں ہمارے گھر میں دو پان دان تھے۔ امی کا پان دان سٹیل کا تھا اور کچھ بڑا۔ اس میں پانچ چھ کلھیائیں تھیں۔ کسی میں کتھا ہوتا تھا، کسی میں چونا، کسی میں تمباکو۔ ایک میں کچھ کٹی کچھ بے کٹی چھالیہ۔ امی اسی میں پیسے بھی رکھتی تھیں۔ نانی اماں کا پان دان سلور کا تھا۔ وہ ہمیں اس میں گھسنے سے روکتی تو نہیں تھیں لیکن اس میں ہماری دل چسپی کا کوئی سامان نہیں ہوتا تھا۔

دونوں پان دانوں میں پان کبھی کبھی نظر آتا تھا۔ امی شہادت کی انگلی پر تھوڑا کتھا، برابر کی پور پر ذرا سا چونا لگا کر زبان پر رکھتیں اور چھالیہ کے چند ٹکڑے منہ میں ڈال لیتیں۔ میں نے ان کی دیکھا دیکھی ایک دو بار ایسا کیا اور چونے سے منہ کٹنے کے بعد توبہ کرلی۔

اماں کتھے چونے کے ساتھ کبھی چھالیہ کھاتیں، کبھی املی، کبھی کھجور کی گٹھلیاں۔ وہ املی کی گٹھلیاں ابال لیتیں۔ کچھ نرم ہونے کے بعد اندر سے سفید گٹھلی نکلتی جسے سروتے سے کاٹ لیتیں۔

امی پان کھانے کے لیے گھر میں چونا بناتی تھیں۔ سال دو سال میں ایک بار کمروں اور صحن میں سفیدی ہوتی تھی۔ اس کے لیے چونا آتا تھا۔ اماں ایک دو ٹکڑے الگ کروا لیتی تھیں۔ بعد میں امی مٹی کی ہانڈی میں چونا گھولتیں۔ چونے کے پتھر پر پانی پڑتا تو وہ جل بجھتا۔ میں چونے اور گرم توے پر چھینٹے پھینکتا اور ردعمل میں پھنکار سنتا۔

بڑے ماموں اہتمام کے ساتھ پان کھاتے تھے۔ ان کے پاس سٹیل کی ڈبیا ہوتی تھی اور کپڑے کا رنگین بٹوہ۔ وہ اپنے ہاتھ سے پان کے ٹکڑے کاٹتے اور ان پر کتھا چونا لگا کر، کترن گیلی کرکے اس میں لپیٹ کر ڈبیا میں رکھ لیتے تھے۔ کپڑے کے بٹوے میں چھالیہ اور تمباکو ہوتا تھا۔ ڈبیا کھولی، پان نکال کر ایک ہتھیلی پر جمایا، دوسرے ہاتھ سے بٹوہ ڈھیلا کر کے چھالیہ اور تمباکو نکالا، انہیں پان پر رکھا اور گلوری بناکر منہ میں ڈال لیا۔

کراچی آنے سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی شخص پیک منہ میں بھرے بیٹھا ہو۔ پان کھارہے ہیں اور باتیں کررہے ہیں۔ اگال دان چارپائی کے نیچے دھرا ہے۔ پیک نگل لی یا منہ نیچے کرکے اگال دان میں پچکاری مار دی۔ خانیوال کی دیواریں کراچی کی طرح پان کی پیکوں سے گل و گلزار نہیں ہوتی تھیں۔

ہمارے گھر میں بابا اور امی رہتے تھے، نانی اماں رہتی تھیں، میری بہنیں رہتی تھیں اور مدھو رہتی تھی۔ میں اور تینوں بہنیں مدھو سے ڈرتے تھے۔

گھر میں تین کمرے تھے اور ایک کوٹھری۔ اسے سٹور سمجھ لیں۔ کوٹھری ہر وقت بند رہتی تھی۔ اس میں سارا کاٹھ کباڑ جمع تھا۔ پرانی الماری، بڑی پیٹی، جست اور لکڑی کے صندوق، کپڑوں کی گٹھریاں۔ چھپکلیاں اور کیڑے مکوڑے بے شمار۔ مدھو بھی وہیں رہتی تھی۔

امی کو منگوچھیاں پسند تھیں۔ اکثر بنا لیتی تھیں۔ یہ مونگ کی دال سے بنتی ہیں۔ میں اچھا بچہ ہوں، جو سامنے آجائے کھا لیتا ہوں۔ ذائقے سے کبھی غرض نہیں رہی۔ لیکن پتا نہیں کیوں منگوچھیاں پسند نہیں تھیں۔ ایک دن میں نے کھانے سے انکار کردیا۔ امی نے ڈانٹا لیکن نہیں مانا۔ امی نے کہا، ’ٹھہر جا، مدھو کو بلاتی ہوں۔‘ میں جلدی سے کھانے بیٹھ گیا۔

ایک بار لکی ایرانی سرکس خانیوال آیا۔ میں نے رات کو دوستوں کے ساتھ جانے کی ضد کی۔ امی نے کہا، ’خبردار جو تو باہر نکلا، مدھو پکڑ لے گی۔‘ میں لحاف میں دبک گیا۔ ایک دن میں نے سکول سے چھٹی کرنا چاہی۔ امی نے کہا، ’تو نے چھٹی کی تو مدھو آجائے گی۔‘ میں نے دل میں کہا، آج مدھو ڈارلنگ سے ملاقات ہو ہی جائے تو اچھا ہے۔ امی ادھر ادھر ہوئیں تو میں نے کوٹھری کا دروازہ کھول لیا۔ سامنے کالی بلا کھڑی تھی۔ ہمپٹی ڈمپٹی جیسا وجود، بڑی بڑی سفید آنکھیں، موٹا سا پیٹ، میں کوٹھری بند کیے بغیر چیختا ہوا بھاگا اور اماں کی گود میں جا چھپا۔ امی اور اماں ہنستے ہنستے بے حال ہوگئیں۔

کئی سال بعد جب میں نے پرائمری پاس کرلی اور جن بھوتوں سے ڈرنا چھوڑ دیا تو مدھو سے دوستی کرنے کی خواہش جاگی۔ کوٹھری کھول کے دیکھا تو وہاں دو مٹکے ایک دوسرے کے اوپر رکھے تھے۔ ان پر ایک کالی چادر پڑی تھی۔ اس چادر پر چونے سے صرف آنکھیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ تھی ہمارے ڈراؤنے خوابوں کی ہیروئن، مدھو۔


میرے بچپن کی دنیا

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments