مشال خان کے والد اقبال کاکا سے ملاقات کی روداد


گرفتاری سے پہلے واحد بلوچ کا نام سن رکھا تھا۔ گرفتار ہوئے تو ان سے قربت ہوگئی۔ رہا ہوئے تو ملے بغیر رہا نہ گیا۔ مل لیے تو اسیر ہو گئے۔ فخر ہوتا ہے اس ملک کو ان جیسے ناخواندہ علما ملے۔ ایسے علما جو سرتا سر تدبر اور محبت ہیں۔ ذرا عبدالستار ایدھی کو دیکھ لیجیے۔ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔

مشال خان کے واقعے نے صدمہ دیا۔  اس رات لاکھوں تکیے بھیگ گئے۔ اعصاب چٹخ رہے تھے۔ ایک بے بسی کا عالم تھا جب مشال خان کے والد شاعر اقبال اسکرین پر جلوہ گر ہوئے۔ اللہ اللہ۔ از کجا می آید ایں آوازِ دوست۔ اس آواز میں کیا گیانی  آہنگ تھا۔ کیا لہجہ تھا اورکیا ہمدردی تھی۔ جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے۔ جیسے صحراوں میں چلے ہولے سے بادِ نسیم۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔ بولے کیا جارہے تھے بس یوں کہیئے کہ لاکھوں آنکھوں میں اترے درد پر اپنا سفید رومال رکھے جارہے تھے۔ جب جب درد اٹھا، ان کی وہ گفتگو سن لی۔ ڈاون لوڈ کر کے محفوظ کرنے والا مرہم ہے۔ جب کبھی حالات گھیر لیں اور ضبط کا بندھن ٹوٹنے لگے، تو فون پر پلے کرلیا اور قرار پا لیا۔ میاں افتخار حسین نے طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والا اپنا اکلوتا فرزند قبر کی پاتال میں اتارا تو کیمروں کے روبرو آئے۔ مسکرا کر کہا، دشمن نے دل پہ بہت گہرا وار کیا ہے مگر ہم امن اور برداشت کا پیغام دیتے ہیں۔ شاعر اقبال نے اپنا خون خون جگر مٹی کو سونپا تو ہاتھ جھاڑ کر کہا، ہم تشدد پر یقین نہیں رکھتے۔ دیکھنے والوں کے گلے رند گئے تھے جب انصاف کے حوالے سے ایک اخبار نویس کے سوال پر انہوں نے کہا، انصاف یہاں کبھی غریب کے ساتھ ہوا تو نہیں ہے مگر ہوجائے تو اچھی بات ہے۔ ساتھ ہی سینہ فخر سے پھول جاتا ہے جب وہ کہتے ہیں، میرا بیٹا اپنی جگہ مگر یہاں حکومت کی رٹ چیلنج ہوئی ہے۔ ریاست اپنی رٹ کا حساب مانگ لے میرے بچے کا بھی حساب ہوجائے گا۔ ایسی پختہ کاری؟ ہو نہ ہو یہ شخص خان عبدالغفار خان کا کوئی سچا فرزند ہے۔ آرزو جاگی کہ مشال خان اپنی جگہ۔ اس شخص کی صحبت نہ پائی تو سدا کی محرومی ہے۔ میر تقی میر یاد آتے رہے

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں

زندگی میں کبھی یہ افسوس نہ کاٹے اس لیے صوابی میں ان کے گاوں زیدہ پہنچے۔ حجرہ اور مسجد باہم یوں متصل تھے کہ غالب یاد آجائیں۔ مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا ہے۔ مسجد پر نظر پڑتے ہی رہنما سے سوال کیا، یہی مسجد ہے جس کے پیش امام نے مشال خان کا جنازہ پڑھانے سےانکار کیا۔؟ جی یہی وہ مسجد ہے۔ حجرے میں داخل ہوئے تھے کہ ااقبال کاکا دوڑتے چلے آئے۔ جیسے مدت کی شناسائی ہو۔ جی میں آیا کہ رویا جائے۔ خوب رویا جائے۔ اقبال کاکا سے بھی کہا جائے کہ ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز۔ اب کے بھی نہ روئے گا تو ظالم مرجائے گا۔ مگر وہ کہاں اِس سیارے کے انسان۔ وہ اپنے ظرف کا بھرم رکھنا جانتے ہیں۔ گلے ملتے ہی چارپائی کی طرف بڑھے۔ چارپائی پر تکیے سیدھے کیے۔ ایک طرف ہمیں ٹھیک سے بیٹھنے کا کہہ رہے دوسری طرف دوستوں سے چائے پانی کے انتظام کا کہہ رہے ہیں۔ بیٹھتے ہی ان کے سحر نے گھیر لیا۔ معانی سے بھرپور ایک مسکراہٹ ان کے لبوں پر ٹھہر سی گئی ہے۔ مجھ سے پوچھا، کہاں سے ہو؟ بتایا، عمر تو کراچی میں بسر ہوئی مگر آبائی وطن تورغر کالا ڈھاکہ ہے۔ چونک کر بولے کالا ڈھاکہ؟ ارے کالا ڈھاکہ تو اگر آپ مجھے لے جائیں تو یقین جانیے ہر شخص کہے گا کہ میں وہیں کسی علاقے کا ہوں۔ پندرہ برس شاہراہ قراقرم میرا رستہ رہا ہے۔ چترال تو میرا دوسرا گھر تھا۔ اور کالا ڈھاکہ تو یوں کہیے کہ دوسرا گھر بھی کہنا عجیب لگتا ہے۔ اپنا ہی گھر لگتا ہے۔ اچھا تو کالا ڈھاکے کے ہیں آپ۔ بہترین بہترین۔ اچھا کالا ڈھاکہ میں کہاں؟ عرض کیا، تھاکوٹ۔ خاص تھاکوٹ؟ نہیں کاکا ذرا آگے۔ بس یہ سن کر تو اقبال کاکا نے میرے اجداد کی تاریخ کھول کے سامنے رکھ دی۔ کم وبیش پندرہ منٹ وہ مجھے وہاں کے قبائل، برادریوں، نسلوں اور ان کی شاخوں سے متعلق سمجھاتے رہے۔ افسوس کہ میرا دھیان گفتگو پر گرفت نہ رکھ سکا۔ مسلسل ان کے سحر میں گم سوچتا رہا کہ یہ کیا آدمی ہے۔ یعنی یہ جو دکھ جھیلا ہے، اسی شخص نے جھیلا ہے؟ کتنا میٹھا انسان ہے۔ اس کو تو گھنٹوں سنا جاسکتا ہے۔ بلکہ سنا جانا چاہیئے۔ خیالوں سے نکل کر گفتگو پرمیں نے دھیان دیا تو بات کوہستان سوات اور کالا ڈھاکہ کے بیچ ربط تک آپہنچی تھی۔

پاس میں بیٹھے ایک بزرگ نے ہمارے گاوں کا ذکر کیا۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا، یہ پُورن کے ساتھ ہے۔ خاموش ہوئے۔ پھر کہا، پتہ ہے سنکسرت میں پُورن کسے کہتے ہیں؟ نہیں کاکا مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ سنکسرت کا لفظ ہے۔ جی یہ سنسکرت کا لفظ ہے اور یہ چودھویں کے چاند کو کہتے ہیں۔ مشال کو ہم چودھویں کا چاند کہتے تھے۔ خیر، یہ سوات بھی سنکسرت کا ہی لفظ ہے۔ ابھی میں بھول گیا ہوں مگر اتنا یاد ہے کہ یہ ایک خاص قسم کے پھول کو کہتے ہیں۔ اگردیکھو تو سوات کے لوگ بھی بالکل پھول جیسے ہوتے ہیں۔ کیا خیال ہے بیٹا؟ یہاں سے آگے اقبال کاکا نے چترال کا پوری کہانی سنائی۔ کچھ سمجھائی نہیں دیا۔ دھیان ایک جملے میں اٹک گیا تھا، مشال کو ہم چودھویں کا چاند کہتے تھے۔ سوچ رہا تھا کیسا چاند اس شخص نے پینٹ کیا تھا۔ ٹھیک وہی چاند جو شاکر علی پینٹ کرنا چاہتے تھے۔ مگراس آسمان پر چمکا جو اندھوں نے اسر پہ اٹھا رکھاہے۔ اس دیس میں روشنی پھیلانا جرم ہے۔ ماں کے خوابوں اور باپ کے ارمانوں دھمکتے چاند کے گالوں پر اب سرخ چھائیاں ہیں۔ جالب تبھی پکارتے تھے، یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔ اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔

اقبال کاکا معاملے کے روشن پہلووں کو نمایاں رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ تلخ پہلووں سے گریز رکھتے ہیں۔ چترال میں اپنی تجارت سے متعلق بتاتے ہوئے وہاں کے لوگوں کے اخلاق واطوار اور اعلی روایات و اقدار کی طرف آگئے۔ چترالی عوام کی امن پسندی کو سراہتے رہے۔ یاد داشتیں دوہرا رہے تھے کہ اذان شروع ہوگئی۔ خاموش ہوگئے۔ گم سم بیٹھے رہے۔ مجھ پر نظر پڑتی مسکرا دیتے۔ اذان ختم ہوئی تو بات جہاں چھوڑی تھی وہیں سے اٹھائی۔ کہنے لگے ابھی کچھ دیر پہلے مجھے کسی نے بتایا کہ چترال کی شاہی مسجد میں کسی فاترالعقل نمازی نے کھڑے ہوکر کچھ نازیبا جملے کہے۔ نمازی اس پر جھپٹ پڑے تو مسجد کے امام نے جان پر کھیل کر اس شخص کو بچایا اور قانون کے حوالے کردیا۔ مجھے پتہ چلا تو خوشی ہوئی کہ چترال کے علما آج بھی ویسے ہی انسان دوست ہیں جیسے میرے وقتوں میں تھے۔ آپ نے دیکھا نا مشال کو بچانے تو یہاں کوئی نہیں آیا۔ ایسا مت سمجھنا کہ مشال میرا بیٹا ہے اس لیے اس کی بات کررہا ہوں۔ اتنا کہہ کر رک گئے۔ توقف بڑھا تو میں نے بھانپ لیا کہ اب وہ پختون معاشرے سے پختون اقدار کے رخصت ہوجانے کا ماتم نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ضرور کہنا چاہتے ہوں گے کہ ایک تو مشال کو کوئی بچانے نہیں آیا، اور جب لاش ملی تو نماز جنازے سے انکار بھی کیا گیا۔ ہمارے علما تو مولانا خلیق الزمان جیسے ہوا کرتے تھے مگر اب ان کے رویوں کو کیا ہوا۔ مجھ سے رہا نہیں گیا تو کہہ دیا، کاکا آپ کے خیال میں تشدد کا یہ عنصر کیوں غلبہ پارہا ہے؟ گھڑی میں وقت دیکھا، سرد آہ بھرتے ہوئے کہا، کیا کہہ سکتے ہیں یہ بہت لمبی کہانی ہے بیٹا۔ مجھے دکھ ہے کہ ایک خوبصورت روایات واقدار کا مالک وطن تباہ و برباد ہوگیا۔ اس حوالے سے کاکا مزید کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے۔ بس مسکراکر ناصر کاظمی کا ایک شعر زیر لب پڑھا

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے۔

جی چاہا کہ ہاتھ چوم لوں۔ ابھی ایک سوال کے لیے میں شش وپنج میں تھا۔ زبان پر لفظوں کو ابھی ترتیب دے ہی رہا تھا کہ کاکا اٹھ گئے۔ کوئی چالیس منٹ بعد لوٹے۔ میں نے پوچھا، نماز پڑھنے گئے تھے؟ کہا، جی معذرت چاہتا ہوں مگر وقت ہوگیا تھا۔ پوچھا، اسی مسجد میں گئے تھے؟ میرا مدعا سمجھ گئے۔ آہستگی سے بولے، نہیں اس مسجد میں اب نہیں جاتا۔ وہاں تھوڑے فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے وہاں جاتا ہوں۔ آواز کو قدرے اور پست کرتے ہوئے کہا، ایسے مت سمجھنا کہ ان لوگوں سے کوئی عناد پیدا ہوگیا ہے۔ اچھے لوگ ہیں، بس ویسے ہی جنازے والے واقعے کے بعد یہاں جاتے ہوئے فطری سی تکلیف ہوتی ہے۔ نہیں پڑھی جاتی یہاں نماز۔ مسکرا کر میری طرف جھکے، نہایت سرگوشی کے سے انداز میں کہا، ویسے بھی وہ غالب نے کہا تھا نا

جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

اس کے بعد ایک لمبی خاموشی نے ماحول کو گھیر لیا۔ ساتھ بیٹھے ایک صاحب نے افراسیاب خٹک کے کسی بیان کا ذکر کیا۔ بیان مشال سے متعلق تھا، مگر کہنے لگے “افراسیاب اچھے آدمی ہیں۔ عالم آدمی ہیں حالات کا ادراک رکھتے ہیں۔ سیاست دان کو عالم ہونا چاہیئے”۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد افراسیاب کے ساتھ کی سیاسی سرگرمیاں انہیں یاد آنے لگیں۔ یہاں سے اقبال کاکا افغانستان کے ثور انقلاب پہنچے، وہاں سے سویت یونین کی شکست وریخت اور وہاں سے کیوبا کے فیدل کاسترو اور وہاں رائج نظام تک جا پہنچے۔ لوٹ کے چین کی طرف آئے اور سی پیک پر مختصر مگر ایک جامع لیکچر دے ڈالا جو بالغ نظری اور سیاسی پختگی کا آئینہ دار تھا۔ بات کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا احساس یہ ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کے حوالے سے ارباب اقتدار کچھ ضروری باتیں چھپارہے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ انہیں ہربات شفاف طریقے سے عوام سے کرنی چاہیئے تاکہ کل ایک معاشی منصوبہ مختلف طاقتوں کے بیچ تنازعے کا سبب نہ بن جائے۔ کہنے لگے، اس دور میں معاشی منصوبے ترقی اور امن کی ضمانت ہے۔ ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ہمارے لیے معاشی منصوبوں سے بھی تقسیم کا جن نکل آتا ہے۔ خدا جانے کیا بنے گا

عقل محو حیرت تھی۔ یہ کیسا عالم ہے۔ کہاں چھپا بیٹھا ہے۔ حالات نے کیسے کیسے ہیرے ڈھانپ لیے ہیں۔ ہم بہت وقت لے چکے تھے۔ وہ سوال جو نماز سے پہلے کرنا تھا، جاتے جاتے یاد آیا۔ پوچھا، کیا مشال کے حوالے سے جاری کیس کی کارروائی سے آپ مطمئن ہیں؟ کیا قاتل منطقی انجام کو پہنچ جائیِں گے؟ پھر وہی خاموشی۔ مسکرائے۔ مزید مسکرائے اور کہا، وہ غالب کا شعر ہے نا

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

 ہاں مطمئن تو ہوں مگر ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ کسی کو قتل کرنا تو ویسے اچھی بات نہیں ہے نا۔ انہوں نے مشال کو مارا ہے مگر یقین جانو میں نہیں چاہتے کہ بدلے میں یہ مارے جائیں۔ یہ سب بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں نا۔ ایسا ہی ہے نا.؟ تائید میں میں نے سر ہلایا۔ پھر بولے، اسی لیے عدم کا شعر مجھے یاد آتا ہے

خدا نصیب کرے اُن کو دائمی خوشیاں

 عدم وہ لوگ جو ہم کو اُداس رکھتے ہیں

جنہوں نے ہمیں اداس کیا ہم ان سے کوئی انتقام تو نہیں چاہتے۔ وہ بھی ہمارے بچے ہیں مگر بگاڑے گئے ہیں۔ اب ان کو سزا ملنا اس لیے ضروری ہے کہ کل کسی اور گھر کا مشال اس طرح پتھروں سے سنگسار نہ کیا جاے۔ کیونکہ یہ انصاف کی سربلندی کا سوال ہے۔ ہم ماوں کو دکھ نہیں دینا چاہتے مگر امن کی جنگ بھی تو جیتنی ہے نا؟ آپ کیا کہتے ہو؟ میں غلط ہوں تو آپ کہو۔ میں ساکت و خاموش۔ بالکل جون ایلیا کے مصرع کی طرح۔ دل اس کے روبرو ہے اور گم سم۔ مجھے اتفاق ہی کرنا تھا سو کیا۔ ابھی اجازت چاہتا ہی تھا کہ کاکا نے بات آگے بڑھائی۔ کہنے لگے، یہ افسوس کی بات ہے کہ پوری دنیا میں خونریزی ہورہی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے لوگ انسانوں کی مشکلوں میں اضافہ کررہے ہیں۔ امریکہ جیسا ملک بھی انسانوں پر تشدد کرکے دنیا پر تسلط چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ تو علم کا دور ہے۔ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا،

“سمجھ نہیں آتا کہ جب علم موجود ہے اور اس کو پھیلانے کا ذرائع بھی موجود ہے تو پھر بندوق کا کیا کام ہے”

ہمیں رخصت لینی تھی۔ وہ رخصت لے کر دوسرے مہمانوں کے پاس گھر چلے گئے۔ بہت علم سمیٹا۔ بہت فیض پایا۔ کاش کہ جتنی گفتگو ہوئی اور جتنے برمحل اشعار سنے گئے، سبھی آپ کے لیے یاد رکھ پاتا۔ محفل برخاست ہوئی۔ ہم چلے آئے۔ خود کو استاد کی درس گاہ میں بھول آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).