صدر ایردوان نے بھارت کے سیکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر بننے کی حمایت کر دی


اپنے دورہ بھارت کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوان نے ہندوستان کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی  حمایت کر دی۔ یاد رہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کو ویٹو کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔

صدر ایردوان نے مزید کہا کہ ’بھارت جس کی آبادی سوا ارب ہے، سلامتی کونسل کا ممبر نہیں ہے۔ پونے دو کروڑ افراد مسلم دنیا میں رہتے ہیں لیکن وہ بھی سلامتی کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ایک صحت مند علامت نہیں ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل کا موجودہ ڈھانچہ من مانی پر مبنی ہے اور اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے لئے بنایا گیا تھا لیکن اب صورت حال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ اس لئے اس کی تشکیل نو کی جانی چاہیے تاکہ دنیا کے موجودہ جیوپولیٹیکل حالات کا حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’سیکیورٹی کونسل کے صرف پانچ مستقل ممبر ساری دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں جو کہ مبنی بر انصاف نہیں ہے‘۔

انہیں جامعہ ملیہ کی طرف سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ بہت خوشی سے یہ ڈگری وصول کر رہے ہیں کیونکہ جامعہ ملیہ نے نہ صرف انڈیا کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا بلکہ جس طرح اس نے 1920 کی تحریک خلافت میں کردار ادا کیا اور ترکی کے لوگوں اور اس کے بانیوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔

ترکی اور بھارت کی ثقافتوں کے درمیان مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ثقافت اور تعلیم دو ایسے میدان ہیں جو کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے جا سکتے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں دہشت گردی کے موضوع پر بھی بات کی گئی۔ دونوں لیڈروں نے اتفاق کیا کہ دہشت گردی تخلیق کرنے والوں اور سپورٹ کرنے والوں اور وہ جو ان آلہ کاروں کو پناہ دیتے ہیں یا تشدد کے نظریات پھیلاتے ہیں، کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔

نریندر مودی نے کہا کہ دہشت گردی کا مسلسل بڑھتا ہوا خطرہ دونوں کے لئے ایک مشترکہ خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی قوموں کو یک مشت ہو کر دہشت گردوں کے نیٹ ورک، ان کی مالی معاونت اور کراس بارڈر نقل و حرکت کو تہ و بالا کرنے کی ضرورت ہے۔

ترک صدر نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ بھارت کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔


ریاست کا سیکولر ہونا ضروری ہے: رجب طیب ایردوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).