اب نگاہیں جنرل باجوہ کی طرف ہیں


خبر ہے کہ اتوار کو وزیراعظم نواز شریف نے اپنے قریب ترین معتمدین کے ساتھ جاتی عمرہ میں دو گھنٹے تک ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ اور اس پر فوج کے ردعمل کے بارے میں مشاورت کی۔ اس دوران یہ طے کیا گیا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان فوجی قیادت سے رابطہ کرکے ڈان لیکس کی رپورٹ پر اس کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ فوج کے موقف کی روشنی میں حکومت نوٹیفکیشن جاری کر سکے۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک ٹویٹ میں ان خبروں کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے کسی کو کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں سونپی ہے۔ اس تردید کے باوجود قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے پاس فوج کی شرائط مان لینے اور اس کی ہدایت و مشورہ کے مطابق حکم جاری کرنے کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ ماضی میں چوہدری نثار ، شہباز شریف اور اسحاق ڈار متعدد بار فوج کے سربراہ سے مل کر حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا تدارک کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس دوران پیپلز پارٹی نے فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے موقف کی براہ راست حمایت سے پیچھے ہٹتے ہوئے اب تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ شائع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ڈان کے ایڈیٹر اور رپورٹ کے خلاف کارروائی کےلئے اے پی این ایس سے سفارش کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے خیال میں یہ قومی سلامتی کے نام پر آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہے۔ پیپلز پارٹی اس معاملہ پر قومی اسمبلی میں بحث کرنے کی حمایت بھی کر رہی ہے۔ ملک کے پارلیمانی نظام کے تناظر میں یہ اچھی تجویز ہے۔ اس طرح آئینی لحاظ سے ملک کا سب سے بااختیار ادارہ اس معاملہ پر تفصیلی بحث کرکے فوج پر بھی یہ واضح کر سکتا ہے کہ امور مملکت میں فوج کی بھونڈے انداز میں مداخلت سے معاملات سدھرنے کی بجائے خراب ہوں گے۔

وزیراعظم نے جاتی عمرہ میں قیام کے دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اور دیگر پارٹی لیڈروں سے بھی ملاقات کی ہے لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ ڈان لیکس کا مسئلہ قومی اسمبلی کے ذریعے حل کروانے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح ایک تو حکومت پر تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت کےلئے دباؤ بڑھے گا اور دوسرے ایوان میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن جماعتیں فوج کے مقابلے میں حکومت پر ہی تنقید کریں گی۔ نواز شریف اگرچہ تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کے انداز حکمرانی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ لوگوں سے ووٹ لے کر برسر اقتدار آنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو للکارتے ہیں۔ آج بھی انہوں نے لیہ میں خطاب کرتے ہوئے جارحانہ طرز تخاطب اختیار کیا اور مخالفین کو گیدڑوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ سو گیدڑ بھی مل کر ایک شیر کو نہیں پچھاڑ سکتے۔ تقریروں میں اس قسم کے غیر منطقی اور جذباتی نعرے بلند کرنے والے وزیراعظم نہ تو اس ایوان کا سامنا کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں جس کے وہ قائد ہیں اور نہ ہی فوج کے سربراہ کو بلا کر ان پر یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی طرف سے وزیراعظم ہاؤس کے ایک حکم نامہ پر ٹویٹ کے ذریعے احتجاج کرنا مناسب نہیں ہے اور مسلمہ طریقہ کار کے بھی برعکس ہے۔ اس لئے فوج کے وقار اور حکومت کی اتھارٹی کو بحال کرنے کے لئے میجر جنرل آصف غفور کو اس عہدے سے ہٹایا جائے اور مستقبل میں فوج سیاسی معاملات پر تبصرے کرنے سے گریز کرے۔ ملک کی سیاسی حکومتیں فوج کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے گھبراتی ہیں اور اس حوالے سے دوٹوک بات نہیں کی جاتی۔ اس کے مقابلے میں فوج نے کبھی سیاسی حکومتوں کے بارے میں اپنی رائے سامنے لانے میں احتیاط سے کام نہیں لیا۔ آئی ایس پی آر کا تازہ ترین ٹویٹ پیغام اس سلسلہ میں مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس رویہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن گزشتہ تین روز کے دوران حکومت کی طرف سے جو پراسرار خاموشی اختیار کی گئی ہے، اس کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ رویہ کس طرح تبدیل کروایا جا سکتا ہے۔

اس مشکل صورتحال اور حکومت کی بے یقینی کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں کا عمومی رویہ اور ٹی وی ٹاک شوز میں کئے جانے والے مباحث بھی ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ آئی ایس پی آر کی طرف سے درشت ٹویٹ کو غلط کہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، وہ بھی نہایت سوچ سمجھ کر الفاظ چنتے ہیں اور بات کی تان اسی بات پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ حکومت کی غلط کاریوں کی وجہ سے فوج کو سول معاملات میں مداخلت کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ حالیہ ٹویٹ کے بعد حکومت سے لے کر سیاستدانوں اورمبصرین تک کا یہی رویہ سامنے آیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اگرچہ یہ کہا تھا کہ ریاست کے ادارے ٹویٹ کے ذریعے باہم مواصلت نہیں کرتے لیکن اسی بیان میں انہوں نے نہایت تفصیل سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وزیراعظم ہاؤس کا حکم نامہ دراصل وزارتوں کےلئے تھا تاکہ وہ قانونی تقاضوں کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کر سکیں۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کو یہی غلط فہمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ حالانکہ تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پر عمل کےلئے اصل نوٹیفکیشن تو ان کی وزارت جاری کرے گی جو رپورٹ میں کی گئی سفارشات کے عین مطابق ہوگا۔ ان کے لب و لہجہ سے یوں لگتا ہے گویا وہ ایک ناراض بچے کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ اگر وزیراعظم ہاؤس کا ایک اعلامیہ وزارتوں کےلئے ہدایت نامہ تھا تو اسے میڈیا کو جاری کرکے غیر ضروری بحران کیوں پیدا کیا گیا۔ اسی طرح دیگر سیاسی لیڈروں اور مبصرین کی طرف سے بھی حکومت پر ڈان لیکس کے سوال پر پراسراریت اختیار کرنے، سول اداروں کو کمزور کرنے اور ناقص حکمت عملی اختیار کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی یہ دو ٹوک موقف اختیار کرنے کےلئے تیار نہیں ہے کہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کو وزیراعظم کے حکم نامہ پر تبصرہ کرنے اور اسے مسترد کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔

میجر جنرل آصف غفور کا ٹویٹ پیغام بالکل ویسا ہی رویہ ہے جس کا الزام فوج نے گزشتہ برس اکتوبر میں ڈان میں ایک سکیورٹی اجلاس کے بارے میں خبر کی اشاعت کے حوالے سے حکومت پر عائد کیا تھا۔ فوج کا موقف تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اجلاس کی خبر شائع کروا کے دراصل یہ تاثر دیا گیا ہے کہ فوجی اور سول قیادت میں انتہا پسندی سے نمٹنے کےلئے اختلافات ہیں اور یہ کہ وزیراعظم ہاؤس میں اعلیٰ سکیورٹی اجلاس تک بھی میڈیا کی رسائی ہو سکتی ہے۔ اس طرح قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ فوج کو خبر کی اشاعت کی بجائے وزیراعظم کے قریبی حلقوں کی طرف سے اس خبر کو شائع کروانے میں کردار ادا کرنے پر اعتراض تھا۔ اس کے خیال میں اس طرح دشمن کو باتیں بنانے اور پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس لئے فوج اخبار یا رپورٹر کے خلاف کارروائی کی بات نہیں کرتی بلکہ وزیراعظم کے ان رفقا کے خلاف اقدام کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے جنہوں نے اعلیٰ سکیورٹی اجلاس کے معاملات تک میڈیا کو رسائی دی۔ اب اگر ان اعتراضات کو میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو یہ ساری کمزوریاں اس مختصر سے پیغام میں بھی نوٹ کی جا سکتی ہیں۔ اس ٹویٹ کی اشاعت پر سامنے آنے والے مباحث سے فوج اور سول قیادت کے شدید اختلافات کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوٹا ہے۔ یہ ٹویٹ صرف ڈان لیکس پر حکومتی اقدامات میں موجود نقائص پر احتجاج نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے حکومت کی پالیسیوں اور طرز عمل کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس طرح جو باتیں دورن خانہ ہونی چاہئیں انہیں نشر کرکے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کیا گیا۔ اس طرح قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا۔ بھارت اور دنیا بھر میں اس ٹویٹ کے بعد یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت کس قدر لاچار اور فوج کے زیر اثر ہے کہ ایک جونئیر جنرل بھی وزیراعظم کو سرزنش کرنے کی ہمت کر سکتا ہے۔ کیا فوج کے سربراہ اس پہلو پر غور کریں گے کہ ان کے زیر کمان میجر جنرل کے دو مختصر جملوں نے قومی مفاد کو وہ نقصان پہنچایا ہے جو ڈان کی رپورٹ نہیں پہنچا سکی تھی۔ بلکہ ڈان کی رپورٹ پر اگر فوج علی الاعلان حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کرتی تو شاید اس خبر کو زیادہ اہمیت بھی نہ دی جاتی۔

ڈان لیکس کے حوالے سے تحقیقات ہونے اور کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے کے باوجود یہ طے نہیں ہو سکا کہ اصل ’’قصور وار‘‘ کون تھا۔ کس نے اس اجلاس کے بارے میں سیرل المیڈا کو بریف کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی پر یہ الزام لگایا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے عہدے سے علیحدہ ہونے کے بعد اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ اس سے پہلے وزیر اطلاعات پرویز رشید کو خبر کی اشاعت نہ رکوانے کے ’’جرم‘‘ میں عہدے سے برطرف کیا گیا تھا۔ یعنی فوج کی تفہیم کے مطابق ڈان کی رپورٹ سے جو نقصان ہوا تھا اور اس کی تلافی کےلئے جن افراد کی تلاش کی گئی تھی، وہ ابھی تک پردہ اسرار میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پاک فوج کے ترجمان کا ٹویٹ اور اس سے ہونے والا نقصان تو سب کے سامنے ہے۔ حکومت اس معاملہ پر مجبور محض سہی لیکن قومی سلامتی اور ملکی مفادات کے سب سے بڑے کسٹوڈین پاک فوج کے سربراہ کو تو اپنی کمان میں کام کرنے والے افسروں پر پورا اختیار ہے۔ کیا وہ ضرورت محسوس نہیں کریں گے کہ ان کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے جو فاش غلطی کی ہے، اس پر اس کی سرزنش ہو اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے تا کہ مستقبل میں قومی مفادات کو ایسی کسی طبع آزمائی سے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی جائے۔

فوج اگر قومی مفاد اور سلامتی کی غیر واضح اصطلاحات کے بارے میں صرف اپنی تفہیم اور تشریح پر اصرار کرے گی تو اس کی طرف سے ہر غلطی کا ذمہ دار صرف سول حکومتوں کو قرار دے کر خود اپنا مقام بلند کرنے کی کوشش ہوتی رہے گی۔ تاہم پاک فوج کے سربراہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کے سیاستدان اور سول نظام فوج کے معاملے میں کمزور ہو سکتا ہے اور فوج کی غلطیوں پر آواز اٹھانے کے حوصلہ سے محروم بھی ہے لیکن میجر جنرل آصف غفور نے جو غلطی کی ہے، اس کی وجہ سے کسی بھی طرح نہ تو قومی مفادات کا تحفظ ہوا ہے اور نہ ہی پاک فوج کی عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے ٹویٹ پیغام کی وجہ سے صرف یہ تاثر مستحکم ہؤا ہے کہ فوج اپنی عسکری قوت کی بنا پر بہرصورت اپنی بات منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ حالانکہ فوج سرکاری طور پر زور زبردستی والی اس حکمت عملی کو تسلیم نہیں کرتی۔

ایک کے بعد دوسرا فوجی سربراہ یہ یقین دلاتا رہا ہے کہ اس کے سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ اب اگر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا سربراہ وہی تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جسے آرمی چیف زائل کرنا چاہتے ہیں تو اس پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ اب اس معاملہ پر قوم جنرل قمر جاوید باجوہ کے فیصلہ کن اقدام کا انتظار کر رہی ہے تا کہ قومی مفاد اور فوج کے وقار کو خطرے میں ڈالنے والے کو اس کے کئے کی سزا مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali