تبدیلی عمران خان میں آ چکی ہے


 پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سابق صدر پرویز مشرف کے تبدیلی کے نعرے کو قبول کرنے والے ٹولی کی صف اول میں شامل تھےکہ قدم بڑھاؤ مشرف ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ وقت کے ساتھ عمران خان صاحب کی برسوں کی تگ و دو کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت بنی۔ اور اس کے بعد سے عمران خان پورے ملک میں اپنی مٖقبولیت کے چرچے، اپنی محنت و مشقت کی کہانیان سناتے آ رہے ہیں کہ انہوں نے کیسے یورپ میں زندگی گذاری اور آپ کو مہاتیر محمد نے کیا کیا کہا اور قومیں کس طرح برباد ہوتی ہیں اور تبدیلی کس طرح آتی ہے۔ خان صاحب بارہا کہ چکے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو وہ اپنی پوری زندگی بغیر کام کاج کے بادشاہوں کے طرح گذار سکتے ہیں۔ مگر عوام اور اس ملک کی خاطر وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہاں پر حقیقی معنوں میں تبدیلی لا سکیں۔ وہ تبدیلی ریفارمیشن یا پھر فرینچ ریولیشن جیسی ہی ہوگی۔ یا پھر عرب اسپرنگ جیسی ہوگی اس پر سوچ و فکر کا شاید خود ان کو وقت نہیں ملا۔

ملک میں تبدیلی کے متوالے عمران خان پاکستان کے سیاستدانوں کی کرپشن کی داستانیں سناتے رہتے ہیں۔ عمران خان 2013 کے انتخابات کے بعد (ن) لیگ کی حکومت گرانے کے لئے دھرنوں سے لیکر ایمپائر کی انگلی کا بہت انتظار کرنےکے بعد سپریم کورٹ جا پہنچے۔ ڈان لیکس، پانامہ لیکس سے لیکر نریندرہ مودی اور سجن جنڈال کے قصے اور کہانیاں سناتے سناتے اب 10 ارب روپے کے لاٹری کا قصہ شروع کر دیا ہے۔ مگر عوام اور میڈیا والوں کو اس 10 ارب رشوت دینے والے شخص کا نام نہیں بتائیں گے۔ کیوں کہ اس کے کاروبار کو خطرہ ہے۔ اگر وہ شخص (ن) لیگ نے بھیجا تھا تو ان کو اس کے نام کا پتا ہونا چاہیے۔ یا پھر یہ بھی 35 پنچر کی طرح میڈیا اور خبروں میں رہنے کی ایک نئی چال ہے۔ پریڈ گراوںڈ کے جلسے میں خان صاحب کو مظلوم کشمیری اور بھارتی مظالم بھی یاد آ گئے۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے لیڈروں کو مظلوم کشمیری تب کیوں یاد آتے ہیں جب کوئی بھارتی وفد یا پاک بھارت تعلقات کی بات کی جاتی ہے۔ عمران خان نے جس طرح اپنے اسلام آباد والے جلسے میں کہا کہ ان کو پوری دنیا جانتی ہے اور ان کو امریکا جاتے ہوئے ایک دفعہ 4 گھنٹے اور دوسرے دفعہ 6 گھنٹے ایئرپورٹ پر روکا گیا اس سے پاکستانیوں کی عزت مجروح ہوئی ہے۔ کیا امریکا جانے پر ہر پاکستانی کو ہر دفعہ ایئرپورٹ پر روکا جاتا ہے تو پھر واقعی ہم پاکستانیوں کے عزت مجروح ہوتی ہے۔ مگر ھمیشہ پوری ملک کی بے عزتی ہمارے لیڈروں کو اپنے روکے جانے پہ ہی کیوں محسوس ہوتی ہے۔ یہاں پر خان صاحب کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک پاکستان کے سیاسی لیڈر اور دنیا کی مشہور و معروف شخصیت ہونے کے ناطے دنیا ہھر میں جاکے مسلمانوں کے حقوق، اور بھتر شناخت کے لئے کام کریں، احتجاج کریں اور اسی کے ساتھ ساتھ بھارتی جارحیت اور مظلوم کشمیریوں کے حق میں دنیا کے سامنے دھرنے دیں، پر امن احتجاج کریں۔ اور یہ باتیں صرف پاکستانی جلسوں اور دھرنوں میں کرنے کے بجائے ان پر عمل پیرا بھی ہوں۔

اب آتے ہیں عمران خان صاحب کے 2013 کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزام کی طرف شاید ہی پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر ہوگا جو الیکشن میں اپنا اثر رسوخ استعمال نہ کرتا ہو۔ جہاں تک کرپشن کے الزامات ہیں تو یہ حقیقت ہے کہ ملک میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اور کیا یہ کرپشن صرف (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی والے کرتے ہیں؟ باقی سارے دودھ کے دھلے ہیں۔ بھائی یہاں پر تو اوپر سے لیکر نیچے تک تمام پارٹیوں اور اداروں پر کرپشن کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ مگر خان صاحب بات صرف سیاستدانوں کی کرتے ہیں شاید طالع آزما خان صاحب کو یاد نہیں رہتے جنہوں نے کرپشن کے الزامات لگا کر یہاں پر منتخب حکومتوں کا خاتمہ کیا اور خود کرپشن کے ان داتا بن گئے۔ کرپشن کے الزامات تو تحریک انصاف کی حکومت پر بھی ہیں کہ ان کے وزیر اعلی، وزراء بھی کرپشن میں ملوث ہیں یہ الزام خیبرپختوںخواہ حکومت کے احتساب کمیشن کے سابق سربراہ جنرل حامد نے خود تحریک انصاف پر لگائے۔ جسٹس وجیہ الدین نے خان صاحب کے قریبی رفقاء جہانگیر ترین، نعیم الحق سے لیکر اہم رہنماؤں پر بھی لگائے۔ اور الٹا آپ نے جسٹس وجیہ الدین کو پارٹی سے نکال دیا۔ بیرونی فنڈنگ پر آپ کے قریبی ساتھی اکبر ایس بابر نے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن میں یہ کیس بھی چل رہا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کے پیسوں پر آپ نے سٹا کھیلا اور وہ ثابت ہوا۔ پھر بھی تمام سیاسی پارٹیاں بدنام اور کرپٹ۔ تحریک انصاف کے سابق سینئر رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے دھرنے کے دوران عمران خان پر الزام لگایا کہ آپ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ آپ نے اسے ذھنی مریض قرار دے دیا۔

عمران خان صاحب کو تبدیلی کے نام پر ووٹ ملا مگر آپ نے کسی غریب آدمی کو نہ وزیر بنایا نہ ہی کوئی اہم عہدہ دیا۔ آپ کے پاس بھی تو سارے سیاسی پارٹیوں کے لوٹے موجود ہیں جو ماضی میں بقول آپ کے ان تمام سیاسی پارٹیوں کا اہم حصہ رہے ہیں جو کرپٹ ہیں جنہوں نے عوام کا خون چوسا ہے۔ پھر ان سے پیار دوسروں سے نفرت کیوں؟ کیا آپ کے پاس ڈرائی کلین مشیں ہے جو سارے کرپٹ لوگ آپ کے پاس آکر کلین ہو جاتے ہیں۔ یا پھر صدقہ دے کر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بقول آپ کے تبدیلی آ نہی رہی آ چکی ہے۔ خالی نعروں، چارٹر طیاروں، صدقہ و خیرات، فیروزہ پھننے، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں،موقع پرستوں اور مفاد پرستوں سے نہیں بلکہ تبدیلی غریب عوام، مزدوروں کسانوں، محنت کشوں اور سچائی اور عمل سے آتی ہے۔ پریڈ گراؤنڈ کے خطاب کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تبدیلی عمران خان میں آگئی ہے، اگر ان کی باتوں پر غور کیا جائے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کبھی شیخ رشید ٹی وی پر خطاب کر رہے ہیں یا تو کوئی مولانا صاحب تاجروں کو وعظ کر رہے ہیں۔ ملک میں نئے پاکستان کی تبدیلی تو نہی آئی مگر عمران خان میں تبدیلی آ چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).