محصور شہر سے لکھی احتجاجی عرض داشت


یہ عجیب محاصرہ ہے۔ فصیل سے باہر کوئی نہیں ہے۔ سب فریق شہر پناہ کے اندر مقیم ہیں۔ اہل شہر خوف کی پناہ گاہوں میں سر چھپائے بیٹھے ہیں۔ قبرستانوں کو جانے والے راستوں پر گھاس کیا اگتی، دھول تک بیٹھنے نہیں پاتی۔ گلی میں کسی کے قدموں کی چاپ نہیں۔ ہاٹ بازار سب کھلے ہیں، مٹھائی کی دکانوں، اخبار کے دفتر اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر حسب معمول ہجوم اور ہنگامہ ہے۔ ناٹک کے کلاکار ایک پاؤں پر کھڑے ہیں، منتظر ہیں کہ ہدایت کار کی انگلی اٹھے، اور وہ دھوئیں کی صورت پردے کے پیچھے غائب ہو جائیں اور اگلے ہی لمحے نئی پوشاک، نئے روپ، اور نئے کردار میں نمودار ہوں، منڈوے میں لٹکتی لالٹین کی چمنی کڑوے تیل کی لو سے سیاہ ہو رہی ہے۔ وزیر ڈیوڑھی زخمی کبوتر کے پر سے نوٹی فکیشن لکھتا ہے۔ دربان نیزے کی نوک سے ٹویٹ لکھتا ہے۔ الف لیلہ کا ابوالحسن خون دل میں انگلیاں ڈبو کر احتجاجی عرض داشت لکھتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھتا ہے اور تاریخ کے دریا میں بہا دیتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ایک گھاٹ ضرور ہے جہاں لہروں پر بہتے نوشتے کنارے آن لگتے ہیں اور جو جیتا ہو گا، انہیں پڑھ لے گا….

وقت کسی تحریر کی سچائی کا تعین محض اس کے حقائق اور دلائل سے نہیں کرتا۔ لفظ کی تقویم بھی دیکھتا ہے۔ تو آئیے ابوالحسن کی عرض داشت پڑھ لیں۔ یہ ایمل زولا کی لکھی فرد جرم نہیں، یہ منصف کا لکھا ادبی فیصلہ نہیں، یہ محض دکھ کی اپیل ہے، زیاں کا محضر نامہ ہے۔

1 ۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار جمہوریہ ہے ۔ ہمارا ملک یہاں کے رہنے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ووٹ کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ ووٹ جمہوریت کی فیصلہ کن دلیل ہے اور ووٹ شہری کے حق حکمرانی کا تعین کرتا ہے۔ پاکستان کسی کی مفتوحہ مملکت نہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں نے جمہوری طریقے سے اس وفاقی مملکت کی اکائیاں بننا منظور کیا تھا۔ وفاق کی ان اکائیوں کا باہم عمرانی معاہدہ ہمارے آئین کی بنیاد ہے۔ اس آئین میں وزیراعظم کو ملک کا چیف ایگزیکٹو اور صدر مملکت کو ریاست کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے منصب اور ذات کا احترام پاکستان کے شہریوں کا احترام ہے۔ ہم اپنے قومی پرچم اور قومی ترانے کا احترام اس لیے کرتے ہیں کہ وطن کا احترام قائم رہے ۔ وزیراعظم اس ملک کے باشندوں کا منتخب رہنما ہے۔ وزیراعظم کی توہین قابل برداشت نہیں۔

2 ۔پاکستان کی سلامتی اس ملک کے باشندوں کے تحفظ اور دفاع سے مشروط ہے۔ پاکستان کے مفاد کا تعین اس ملک کے شہریوں کو کرنا ہے۔ شہریوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے یہ اختیار پارلیمنٹ کو دیا ہے ۔ پارلیمنٹ اکثریت رائے سے جسے وزیراعظم منتخب کرتی ہے وہی ملک کے مفاد کا تعین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ منتخب رہنما کو قومی مفاد سے بے گانہ قرار دینا اور سکیورٹی رسک کہنا غلط ہے۔ یہ کسی کی ذاتی توہین کا معاملہ نہیں ، یہ پاکستان کے شہریوں کی فراست پر عدم اعتماد ہے۔ ایسے عدم اعتماد کا اعلان کرنے والے کو اپنے خود ساختہ احتسابی منصب کا آئینی اور اخلاقی جواز دینا چاہیے۔ پاکستان کی تاریخ میں چار مرتبہ ایک ریاستی اہلکار نے حکومت پر قبضہ کیا ۔ ہر چار مواقع پر یہ اقدام آئینی طور پر بلاجواز تھا ۔ سیاسی طور پر بصیرت سے خالی تھا اور واقعاتی طور پر قومی نقصان پر منتج ہوا۔ پہلے فوجی اقتدار میں سیاسی عمل مفلوج ہوا ۔ دوسرے میں آدھا ملک جاتا رہا ۔ تیسرے غیر آئینی اقتدار میں غیر ریاستی ، فرقہ پرست تنظیموں اور لسانی گروہوںنے سر اٹھایا۔ چوتھے غیر جمہوری دور میں دہشت گردی نے ہماری زمین پر پنجے گاڑ لیے۔ یہ موقف ناقابل دفاع ہے کہ سیاسی قوتوں کی نااہلی کے باعث غیر آئینی مداخلت ناگزیر ہو گئی تھی۔ تاریخ میں یہ موقف پایہ ثبوت کو پہنچ چکا کہ ہر چار مواقع پر غیر آئینی مداخلت ایک سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کا نتیجہ تھی۔

3۔ملک کے آئین میں تمام اداروں کا دائرہ اختیار طے کر دیا گیا ہے۔ آئین کو بے وقعت کرنے سے ریاست اپنا جواز کھو بیٹھتی ہے۔ موجودہ سیاسی ثقافت کی کمزوریوں کو ساٹھ برس پر پھیلے غیر جمہوری دیدہ اور نادیدہ اقتدار سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بدعنوانی ایک وسیع تر تصور ہے۔ ادارہ جاتی اختیار سے تجاوز ، شخصی جاہ پسندی ، طالع آزمائی اور مالی بدعنوانی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ سمجھنا محض سادہ لوحی ہے کہ آئین اور جمہوریت سے روگردانی کر کے مالی شفافیت کا راستہ کھولا جا سکتا ہے یا بدعنوانی کی ثقافت ختم کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف مہم غیر جمہوری عزائم کا علانیہ بیانیہ بن چکی ہے۔ ماضی کی کرید پڑتال کرکے قربانی کے بکرے تلاش کرنا دراصل آئندہ کے لیے قسمت آزمائی کرنے والوں کو جبر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی دعوت دینا ہے۔

4 ۔ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار مجروح ہوا ہے۔ ہماری پیداواری صلاحیت مفلوج ہوئی ہے۔ ہمارا تعلیمی معیار زوال کا شکار ہو چکا۔ ہمارا انسانی سرمایہ پسماندہ رہ گیا۔ ہمارے ملک کے لوگوں کا معیار زندگی موجودہ دور کے اشاریوں سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ملک کے اندر شہریوں کو بے دست و پا کیا ہے اور ملک کے باہر پاکستان کو ایک دست نگر خطے کے طور پر پیش کیا ہے۔ دہشت گردی کے آسیب نے بھی دراصل ریاست اور معاشرے میں موجود غیر جمہوری قوتوں کے گٹھ جوڑ سے جنم لیا ہے۔ پاکستان کی جمہوری قوتیں غیر ریاستی بندوق بردار جتھوں سے سمجھوتہ نہیں کر سکتیں۔ غیر شفاف طور طریقوں سے پاکستان کی سلامتی اور ترقی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف مزاحمت جمہوری بندوبست کے دفاع سے جڑی ہے۔

5 ۔ہم حسن ناصر اور حمید بلوچ کے قاتلوں کا نام نہیں جانتے۔ ہم نذیر عباسی اور اسد مینگل کے قاتلوں کو نہیں پہچانتے۔ ہم نہیں جانتے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل میں کون سے عوامل کارفرما تھے، کراچی کی سڑکوں پر مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں کون ملوث تھا۔ بینظیر بھٹو کو کس نے شہید کیا؟ صبا دشتیاری اور سلیم شہزاد کو کس نے قتل کیا۔ راشد رحمن اور سبین محمود کی شہادت کی تحقیق کیوں نہیں ہو سکی۔ ہم ماضی کا اسیر نہیں ہونا چاہتے مگر تاریخ سے شعور کی روشنی ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ ماضی کو دہرانا نہیں چاہیے۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ قطری شہزادے کو ہم نہیں جانتے لیکن ہم نااہل تو شہزادہ مقرن کو بھی نہیں جانتے تھے۔ ایان علی کا عدالت کی اجازت سے بیرون ملک سفر ڈیل ہے تو کمر کے درد میں مبتلا کمانڈو صاحب کی بیرون ملک روانگی کو تو این آر او سمجھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ لاہور کے شریف خاندان کی دولت ملک سے باہر کس طرح لے جائی گئی بالکل اسی طرح جیسے ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ دسمبر 2000ء کی ایک سہ پہر میاں نواز شریف کس قانونی کارروائی کے نتیجے میں ملک سے باہر بھیجے گئے تھے۔ سرمائے کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی جرم ہے اور ہماری عرض داشت یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو قومی سرمائے میں شمار کرنا چاہیے۔ منتخب وزیراعظم کا احترام ہونا چاہیے تاکہ بیس کروڑ شہریوں کا احترام بحال کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).